سندھ میں نظام تعلیم کا فقدان

صوبہ سندھ سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کے اعتبار سے پاکستان میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے ۔ شہر کراچی جو بدستور مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے جہاں ہر وقت سیاست اور قتل و غارت کا بازار گرم رہتا ہے ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ کراچی کے مکینوں نے اپنے ہاتھوں تعلیم کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، جو ہر دور کی بنیادی ضرورت ہے ۔ حکومتِ سندھ کی توجہ تعلیم پر بالکل نہیں ہر کوئی ہر وقت اپنی کرسی کو بچانے اور اپنی جیب کو بھرنے میں مصروف رہتا ہے ۔ سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جہاں تعلیم کا کوئی معیار نہیں سرکاری اسکولوں میں تو ڈرگ مافیا اور نشہ کرنے والوں کا راج ہے جبکہ پرائیویٹ اسکول کچھ نہ کچھ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
نقل نظام تعلیم کو گھن کی طرح کھا رہا ہے ۔ کہیں سیاسی جماعتوں کے کارکن بچوں کو نقل کروا رہے ہیں اور کہیں علاقے کے غنڈے بچوں کو نقل کرواتے ہیں جبکہ اندرون سندھ وڈیروں کے بیٹے پولیس کی سرپرستی میں نقل کرتے ہیں ۔ تعلیم کی اس زبوں حالی میں اساتذہ بھی بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اساتذہ پیسے لے کر بچوں کو نقل کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ پیسے بھی پیپرز کے مطابق لیے جاتے ہیں ریاضی ، فزکس ، بائیولوجی کیمسٹری اور اکاونٹنگ جیسے مشکل پیپرز کیلئے 500 جبکہ باقی پیپرز کیلئے 300 لیے جاتے ہیں ۔ بعض اوقات پپیپر آوٹ کر دیا جاتا ہے لیکن اب یہ مشکل بھی آسان ہو گئی ہے اب پیپر واٹس ایپ کے ذریعے آوٹ کیا جاتا ہے تاکہ کسی کو علم نہ ہو سکے ۔اب تو گھر بیٹھ کر پیپر کرنے کی سہولت موجود ہے 5000 روپے فی پیپر جمع کروائیں کاپی آپ کے گھر پہنچ جائے گی پھر آرام سے لکھتے رہیں ۔
میں نے بذات خود امتحانی سینٹر میں چپڑاسی تک کو حل شدہ پرچے بیچتے دیکھا ہے یہ سب اساتذہ کی نگرانی میں ہوتا ہے مگر سندھ حکومت کے کانوں پر جونک تک نہیں رینگتی حکومت صرف جیب اور کرسی پر توجہ کیے بیٹھی ہے ۔ اندرون سندھ ایسا بھی ہوتا ہے کہ طالبعلم کی جگہ کوئی دوسرا شخص آ کر اس کا پیپر دیتا ہے، یہ حکمرانوں کیلئے اور جمہوریت کا ڈھول پیٹنے والوں کیلئے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔ حکومت جب خواب غفلت سے بیدار ہوتی ہے تو بونگیاں مارنی شروع کر دیتی ہے کچھ روز قبل وزیر تعلیم سندھ یہ کہتے پائے گئے کہ اسکولوں میں نقل بھارت کروا رہا ہے ، اب اس بیان پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے اپنا کچرا پڑوسیوں کے گھر انڈیل کر خود مقدس ہو جائیں۔۔ تف ہے ایسی قوم پر جو ان جاہلوں کو رہنما سمجھتی ہے حالانکہ یہ وہ رہزن ہیں جو دن کے اجالے میں ڈاکہ ڈالتے ہیں عوام کے جذابات پر ، حقوق پر ، ایمان پر اور اس ملک پر ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اس طرح کھلےعام پاکستان میں گھومتا ہے ؟ کیا ایجنسیاں اور سیکیورٹی ادارے دارو پی کر سو رہے ہیں ؟ اپنی نااہلی بھارت پر ڈال دی جاتی ہے۔ ڈر اس بات کا ہے کہ کل موصوف گھریلو جھگڑے کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ قرار دے دیں گے ۔ ایک وقت ایسا تھا جب پاکستان میں ہونے والے ہر سانحے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہوتا تھا لیکن اب بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔
یہاں سوال سیکیورٹی اداروں پر اٹھتا ہے کہ بھارت اور افغانستان جیسے دو کوڑی کے ملک پاکستان میں دہشت گردی کر جاتے ہیں جبکہ ہمارے حکمران پھپھے کٹنیوں کی طرح بیان دیتے پھر رہے ہیں اور دشنام طرازی میں محو ہیں ۔ اندرون سندھ سرکاری اسکولوں کی عمارتیں وڈیروں اور جاگیرداروں کے کیٹل فارم اور گودام بنے ہوئے ہیں اور معصوم بچے پڑھنے کے بجائے کھیتوں میں کام کر رہے ہیں ۔ کیا اسی چیز کا نام قانون ہے ؟ کیا اسی چیز کو جمہوریت کہتے ہیں ؟کیا واقعی یہ سب بھارت کر رہا ہے کیا رینٹل پاور کیس ، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی ، تھر میں قحط سالی ان سب کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ ہے ۔ عوام سے تعلیم چھین کر انہیں مزید جہالت کے اندھیرے میں دھکیلا جا رہا ہے اور تعلیم کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے ۔ تعلیم کے نام پر ووٹ بٹورے جا رہے ہیں ۔
یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ نقل کروانے میں بھارت کا ہاتھ ہے ۔ عقل و شعور بھی کسی بلا کا نام ہے ۔ مگر یہاں سب بےشرمی پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنے کالے کرتوتوں پر اتراتے پھر رہے ہیں ۔ ہر ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک کے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں پر ہوتا ہے ۔ پاکستان میں خصوصاً سندھ میں نظام تعلیم بالکل تباہ ہو گیا ہے اس کو بہتر بنانے کیلئے ہمیں سیاست سے آزاد ہو کر اجتماعی سطح پر کوشش کرنی ہو گی ، اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ نظام تعلیم کو بہتر بنایا جا سکے اور اس مغلوب نظام تعلیم کو ان جہلا کے چنگل سے آزاد کروایا جا سکے ۔

Facebook Comments

محمد حمزہ حامی
شاعر ، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply