سندھ کے تعلیمی اداروں میں نقل مافیا کا راج

انسان جب زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتا ہے تو واقعی وہ انسان ہوتا ہے، ہر زمانے میں تعلیم یافتہ حضرات کی قدر و قیمت رہی ہے، تعلیم کے بغیر ترقی و عروج کی خواہش بالکل بے بنیاد خواہش ہے۔بقول فیض محمد۔۔
پھر دورِ جہالت میں عجب لوگ چلے ہیں
تعلیم کا ہاتھوں سے گلا گھونٹ رہے ہیں
کسی صاحبِ فہم نے بہت ہی حقیقت پسند بات کہی ہے کہ"اگر کسی قوم کو تباہ و برباد کرنا ہو تو اُس قوم کی تعلیم کو تباہ کرو، وہ قوم خود بہ خود تباہ ہو جائے گی"۔ سندھ میں تعلیم تباہ ہونے کے پیچھے ایک آہم پہلو امتحانات میں نقل بھی ہے، میٹرک اور انٹر کے حالیہ امتحانات  میں کی جانے والی نقل نے ساری حدود عبور کر دیں ہیں۔ سندھ میں کاپی کلچر کی ابتداء جنرل ضیاء الحق کے دور سے ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ سازشی عناصر نے پہلے تو سندھ کے بڑے بڑے شہروں کے سکولوں میں نقل کروانے کی بنیاد رکھی اس کے بعد یہ سازش آہستہ آہستہ پورے سندھ میں ایک رواج کا روپ دھار بیٹھی۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب ہو چکے ہیں جیسے کہ یہ نقل کروانے کا کلچر گزشتہ چوالیس برسوں سے جاری و ساری ہے۔ آجکل تو نقل کروانے کا یہ کلچر اتنا عام ہو چکا ہے کہ اس کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بن رہی ہیں اور یہ تصاویر بحث و مباحثہ کا مرکز ہیں۔ سندھ میں سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری کے امتحانات کا موسم آتے ہی کتاب گھروں میں طلبہ کا رش لگ جاتا ہے، نئی نئی گائیڈ بُکس مارکیٹ میں آ جاتی ہیں، اس کے ساتھ فوٹو کاپی مشینوں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے تاکہ فوٹو کاپی کے دوران کوئی مسئلہ نہ در پیش آئے اور سکولوں تک یہ کارتوس با آسانی پہنچ سکیں۔
مجھے وہ لمحہ یاد ہے جب میں بورڈ کے امتحانات دے رہا تھا اور وہاں کاپی کا رواج عام تھا -میں نے خود کلاس نہم دہم میں کاپی کر کے بی گریڈ حاصل کیا – خیر میں اُس لمحے کو یاد کر کے آج تک جتنا شرمندہ ہوں وہ میں بیاں نہیں کر سکتا۔ یہ صرف میری کہانی نہیں یہ سندھ کے تقریباً ہر طالبِ علم کی کہانی ہے، میری کہانی ہمارے معاشرے میں کاپی کلچر سے متاثر ہونے والے ہر ایک طالبِ علم کی ترجمانی کرتی ہے۔سندھ کا تقریباً ہر ایک نوجوان کاپی کلچر کی اس لعنت سے گزرتا ہے اور بعد ازاں اس کے باعث شرمندہ ہوتا ہے لیکن افسوس کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اس کے خلاف کوئی بھرپور آواز بلند نہیں کرتا، کوئی یلغار نہیں کرتا، اندھیرے میں کوئی شمع نہیں جلاتا۔۔۔ افسوس صد افسوس۔ کچھ روز پہلے کراچی میں میری ملاقات ایسے ہی ایک طالبِ علم سے ہوئی جو کہ سویرے سویرے پیپر دینے جا رہا تھا، جب میں نے اُس سے پوچھا کہ، پیپرز کیسے چل رہے ہیں بھائی؟ تو مجھے یہ سن کے تسلی ہوگئی کہ نقل کا یہ نظام بالکل ویسے کا ویسا ہی جاری ہے۔اُس نے کہا کہ  ہمارے اساتذہ خود ہمیں نقل کرواتے ہیں، لہذا کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ہاں اگر ٹیم آجائے تو کچھ دیر کے لیے کاپی روک دی جاتی ہے، بس یہی ایک لمحہ ہے جو کہ ناگوار گزرتا ہے۔ وہ آگے بتاتا ہے کہ یوں تو سکول انتظامیہ نے موبائل لانے پہ پابندی لگائی ہے مگر پھر بھی ہم موبائل لے جاتے ہیں، واٹس ایپ کے ذریعے پیپر کا فوٹو آؤٹ کرتے ہیں اور چند ہی لمحے بعد باہر سے حل کیا ہوا پیپر ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا ، سنا ہے آجکل تو اساتذہ اندر سے ہی سب کو حل کئے ہوئے پیپرز دیتے ہیں؟ تو کہنے لگا، نہیں وہ ہر کسی کو نہیں دیتے، وہ بس اپنے من پسند طلبہ کو ہی دیتے ہیں۔ اگر وہ ہر کسی کو حل کئے ہوئے پیپرز دیتے تو باہر سے کسی کی مدد کی کیا ضرورت ہوتی۔ مجھے اُس کی اس بات پر بہت تعجب ہوا اور ہنسی آنے لگی۔
میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اساتذہ نقل اس وجہ سے کرواتے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں ان کی تقرری میرٹ پر نہیں ہوتی۔ ان کو اپنی عزت بچانے کے لیئے مجبوراً نقل کروانی پڑتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ طلبہ کامیاب ہو سکیں اور ان کے ساتھ وہ خود بھی احتساب سے بچ جائیں۔
ہمارے معاشرے میں کاپی کلچر کو بالا کرنے کے پیچھے ایک بڑا سبب پرائیویٹ سکولز بھی ہیں، بڑے بڑے سکولز اپنے طلبہ کو زیادہ سے زیادہ نقل کرواتے ہیں تاکہ ان کے طلبہ اچھے نمبرز لے کے کامیاب ہوں۔ آجکل یہ باتیں بھی عام ہونے لگی ہیں کہ یہ سکولز مختلف تعلیمی بورڈز کو پیسے دے کر پوزیشنز خریدتے ہیں تاہم سب کو پتا چل سکے کہ پہلی، دوسری یا تیسری پوزیشن کس سکول یا کالج کے طالبِ علم کی آئی ہے اور یہ سن کر بچارے کم فہم والدین اپنے بچوں کو ان ہی کالجز میں داخلہ لے کر دیتے ہیں۔ اس سے ان تعلیمی اداروں کی نہ صرف مشہوری ہوتی ہے بلکہ ان کا کاروبار بھی خوب بڑھ جاتا ہے۔ اکثر یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ کیوں سندھی معاشرے سے کوئی اسٹیفن ہاکنگ، مارک زکر برگ، نام چومسکی، جیمس واٹسن، ڈاکٹر عبدالسلا م، پرویز ہودبھائی پیدا نہیں ہوتا، حالانکہ سندھ نے ادب کی تقریباً ہر صنف میں بڑے نام پیدا کیے ہیں؟ میں اس سوال کے جواب میں کہنا چاہوں گا کہ ادب اور سائنس دو الگ الگ مضامین ہیں اور دونوں کو کسی بھی معاشرے میں سانس لینے کے لیے مخصوص حالات اور دیگر وجوہات درکار ہیں۔ جہاں تک سائنس کی بات ہے تو کاپی کلچر اور ایسے نام نہاد ٹیکسٹ بکس سے سائنسی دماغ پیدا کرنا  ناممکن ہے۔ سندھ کے ایک تعلیم داں لیاقت میرانی کا کہنا ہے کہ"کاپی کلچر ہماری قوم کی میراث اور اہلیت کا بڑا دشمن ہے" کاپی کلچر اور اس کے ساتھ سفارشی کلچر کا یہ بدترین زنگ سندھ پبلک سروس کمیشن کو بھی لگ چُکا ہے، اس کا ثبوت پچھلے سال ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر اور مختیار کار کے عہدوں کے امتحانات کے نتائج میں واضح ملتا ہے، جس میں ایس۔پی۔سی۔ایس۔ کے بڑے بڑے عہدیداروں کے بیٹوں، بھائیوں اور رشتہ داروں کا بڑی تعداد میں کامیاب ہونا ایک حیران کن بات ہے۔
کئی دنوں کی بات ہے کہ ایک سندھی صحافی نے اس معاملے پر کمیشن کے سیکریٹری شفیع محمد سے فون پر گفتگو کی تو سیکرٹری صاحب نے کہا کہ کمیشن ممبران کے کامیاب ہونے کی کوئی معلومات نہیں۔ اس پہ ان سے پوچھا گیا  سیکریٹری صاحب سنا ہے آپ کا بیٹا بھی کامیاب ہوا ہے تو انہوں نے فون ہی کاٹ دیا۔
صوبے سندھ میں کاپی کلچر اور سفارشی کلچر کا خاتمہ ہونا ناممکن سا لگ رہا ہے۔ اگرچہ اس المیے کو ختم کرنے کے لیے حال اور ماضی میں اقدامات بھی کئے گئے ہیں لیکن وہ کوئی خاطرخواہ نتائج نہیں دے پائے ہیں۔  جس کا ثبوت چل رہے بورڈز کے امتحانات میں واضع طور پر ملے گا ۔حیرت کی بات یہ ہے کے کسی کو اس المیے کی کوئی پرواہ نہیں، ہمیشہ کی طرح حکومتی ادارے خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھے ہیں، یہاں تک کہ والدین بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

Facebook Comments

حمزہ حنیف مساعد
مکالمے پر یقین رکهنے والا ایک عام سا انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply