ایک شاپر گوشت

ایک شاپر گوشت ملا ہے
کچلی ہوئی اُمیدوں کا
ہاتھ کی چھوٹی انگلی ثابت
چھلا اُس کا ٹوٹ چکا ہے
ووٹ تھا جانے کس پارٹی کا
اب تو جل کر راکھ ہواہے۔
بوڑھی ماں کی آس تھی شاید
کچرے میں جو رُل گئی ہے
باپ بے چارہ ڈھونڈ رہا ہے،
چپہ چپہ کھوج رہا ہے
کیا کسی نے دیکھا ہے؟
ایسا کڑٰیل جان تھا بیٹا
کھیت کھلیان کی شان تھا بیٹا
ایک شاپر میں کیسے آئے؟
چھ فٹ کا طوفان تھا بیٹا
ایک شاپر گوشت تھما کر!
چند سکوں کا چیک تھما کر
حاکم سائیں کہتا ہے
صبر کر بابا،
مرا نہیں شہید ہے بیٹا!
ایک شاپر گوشت ملا ہے!
کُچلی ہوئی اُمیدوں کا!

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply