رشتہ، کب، کیوں کیسے؟

رشتہ، کب، کیوں کیسے؟
صائمہ سعید
کچھ دن پہلے ٹی وی پر سیالکوٹ کے ایک "بزنس مین"کی غالباً; ساتویں شادی پر گرفتاری کی خبر دیکھی تو بے اختیار سر پیٹ لیا، اپنے آپ کو بزنس مین ظاھر کرنے والا، پڑھی لکھی اور پروفیشنل لڑکیوں سے شادی رچانے والا، اور بعد میں نامناسب ويڈيوز بنا کر بلیک میل کرنے والے پر توغصہ آیا ہی، لیکن ان والدین پر، جو بغیر کسی تحقیق کے، صرف دولت دیکھ کر ہی شادی کر دیتے ہیں، بہت افسوس ہوا -ویسے اگر مقابلہ بازی اور شریکے کو نیچا ہی دکھانا مقصود ہو تو مستقبل میں بھی ایسے واقعات سامنےآسکتےہیں، البتہ حالات و واقعات اور طریقہ واردات تبدیل ہو سکتا ہے، کبھی لڑکی فارن نیشنل تو کبھی لڑکا، کبھی لڑکی بیحد دولتمند اورنہ کوئی آگے نہ کوئی پیچھے تو کبھی ایسا لڑکا مل جائے گا-
رشتہ طے کرنا چاہے،وہ لڑکی ہو یا لڑکا، موجودہ دور میں بہت ہی مشکل، صبر آزما اور کافی وقت طلب کام ہے- ہوا کچھ یوں کے سب سے چھوٹا بھائی جو اپنا چھوٹا سا کاروبار کرتا ہے (ظاہر ہے ابھی شروع شروع ہے تو وقت لگے گا کچھ بہتر ہونے میں) کی شادی کا سوچا، ہمارے والدین نے محلےمیں ہی رشتوں والی ماسی سے کہہ دیا، ماسی نے ایک لڑکی کا بتایا تھوڑی بہت تحقیق کی، تو پتہ چلا کہ لوگ تو واقعی شریف ہیں اور اپنی برادری کے بھی، لیکن جب رشتہ دیکھنے گئے تو لڑکی کی عمر کسی بھی طرح سے پینتیس سے کم نہ تھی(بھائی کی عمر اٹھائیس سال ہے)، جبکہ ماسی نے لڑکی کی عمر ستائیس سال بتائی تھی۔ ماسی کو خوب سمجھایا، کہ تمہیں جب کہا ہے، کہ لڑکی کی عمر، لڑکے سے کم ہو، یا برابر بھی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں تو کیوں تم نے غلط بیانی کی؟
کچھ دنوں بعد ماسی نے اگلا رشتہ دکھاتے وقت بڑےاعتماد سے بتایا کہ اب لڑکی تئیس یا چوبیس کی ہے، اس سے زیادہ نہیں، لیکن لڑکی کی عمر پھر تیس کے قریب لگ رہی تھی- ہمارے والدین، اس بات کو نہایت برا سمجھتے ہیں کہ لڑکی والوں سے کرید کرید کر سوالات کئے جائیں، اور لڑکی کو بھیڑ بکریوں کی طرح نظروں سے ٹٹولا جائے ( باخدا، میں اپنے والدین کی پارسائی کا ڈھول نہیں پیٹ رہی، بلکہ آج بھی بےشمار لوگ ایسے ہیں جو لڑکیوں کو بھیڑ بکریاں بالکل نہیں سمجھتے، سوال و جواب تو کرتے ہیں لیکن کوئی ایسی بات نہیں کرتے جس سے کسی کا دل دکھے)- گھر میں کچھ گفتگو کے بعد ہم نے لڑکی والوں سے کہا کہ آپ بھی چائےپر تشریف لائیں، (ہماراپورا خاندان اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ جیسے لڑکے والوں کے پاس،پسند اور ناپسند کے مکمل اختیار رات ہوتے ہیں اسی طرح لڑکی والے بھی یہ حق رکھتے ہیں، بلکہ میرے بڑے بھائی کو تنخواہ کم ہونے پر ایک بابا جی نے تو کھری کھری سنا بھی دی تھیں، کیونکہ اس نے اپنی "اصلی"تنخواہ بتا دی تھی)- دوسرے تیسرے دن ہی لڑکی والے تشریف لائے، اچھے طریقے سے بات چیت ہوئی، گپ شپ کے دوران والد صاحب نے لڑکی کے والدین سے کہا، کہ آپ لوگوں نے لڑکے کے متعلق کچھ نہیں پوچھا، کہ کیا تیر مارتا ہے یا کیا تیر مار چکا ہے، تو انہوں نے متانت سے جواب دیا، کہ اصل میں ہمارا فلاں رشتہ دار، آپکا محلے دار ہے، تو ہم نے اپنی طرف سے پتہ کروا لیا تھا (اسمیں کوئی چالاکی یا عیاری نہیں ہے، ظاھر ہے بیٹی کی زندگی کا سوال ہے)۔ اسی اثناء میں لڑکی کی تصویر، بڑی بہن، جو جرمنی ہوتی ہیں، کو وٹس ایپ کی تو انہوں نےکہا، کہ لڑکی کہ عمر زیادہ ہے آپ یہ رشتہ نہ کریں- میرے والدین کا کہنا تھا، کہ لڑکی ماشااللہ قبول صورت ہے، پڑھی لکھی ہے اور شریف خاندان سے ہے، ذرا ذرا سی بات پر لڑکی کو رد نہیں کیا جا سکتا، ماسی نے چوبیس کی بتایا ہے تو زیادہ سے زیادہ 27 سال کی لگ رہی ہے- اس سے زیادہ نہیں- بہن کا کہنا تھا کہ 32 سال سے کسی بھی طرح کم نہیں- خیر، کچھ دنوں بعد، لڑکی والوں نے ہمیں دوبارہ کھانے پر بلایا اس دفعہ بھابھی، بھی ساتھ تھیں،انہوں نے لڑکی سے پوچھ لیا کہ آپ کی عمر کیا ہے، تو انہوں نے صاف صاف بتا دیا کہ تینتیس سال۔
اب ہم سب بہن بھائی ایک طرف اور والدین ایک طرف، والدین کا خیال تھا کہ یہ رشتہ کر لینا چاہئے بڑے اچھے اور صاف گو لوگ ہیں، بالکل سیدھی بات کی ہم سے کچھ نہیں چھپایا، وہ عمر کے بارے میں جھوٹ بول کر یہ رشتہ کر سکتے تھے۔ جبکہ ہم سب بہن بھائیوں کا خیال تھا کہ لڑکی بھائی سے چھ، سات سال بڑی ہے، تو ہم نے نہیں کرنا۔ قصہ مختصر، اس دفعہ بھی رشتہ پکا نہ ہو سکا۔ لیکن اس واقعہ کا امی کی صحت پر کافی برا اثر پڑا، بار بار ہم سب بہن بھائیوں کو ڈانٹ رہیں تھیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑکیوں کو رد کرنا کہیں اللہ کی ناراضگی کا سبب نہ بن جائے۔
خیر، ان دو، تین واقعات سے کچھ سبق حاصل ہوئے تو سوچا کہ ان کو لکھا جائے شائد کسی کے کام آئیں،
لڑکا ہو یا لڑکی، والدین کو چاہئے کہ "بیسٹ آف دی بیسٹ"کے چکر میں نہ پڑیں، جیسے ہی کوئی مناسب رشتہ آئے تو شادی کر دیں، مناسب رشتے سے مرادہے کہ اگر لڑکا پڑھا لکھا، دنیا و دین کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو، نشہ وغیرہ نہ کرتا ہو اور اچھے خاندان سے تعلق ہو تو، صرف پیسے کو بنیاد بنا کر رشتہ رد نہ کردیں، ایسے ہی اگر لڑکی قبول صورت ہے، پڑھی لکھی اور شریف خاندان سے تعلق ہے، تو لڑکی کو رد کرنے کاکوئی جواز موجود نہیں۔
اگر صرف ڈراموں اور فلموں میں نظر آنے والے بڑے بڑےگھر اور گاڑیوں کو دیکھ کرہی رشتہ طے کرنا ہو تو پھر ڈراموں اور فلموں کی طرح ہی تیرا چودہ قسطوں پر آنکھیں کھلنے کا انتظار بھی کریں، جیسا سیالکوٹ والے کیس میں ہوا۔رشتہ طے کرتے وقت ہمیشہ سچ بولیے،کیونکہ جو رشتے جھوٹ کی بنیاد پر کھڑے کئے جائیں وہ کمزور ہوتے ہیں، بجائے اس کے، سچ دوسروں کی زبان سے سامنے آئے یا شادی کے بعد سامنے آئے اور زندگی میں تلخياں در آئیں،پہلے ہی سچ بولیں۔
شادی کے لئے کوئی شرائط لاگو نہ کریں،کہ یہ شرائط پوری ہوں گی تو شادی ہوگی، ہرجگہ ہر شرط پوری نہیں ہوگی، کچھ کو نظر انداز کرنا ہی پڑے گا۔رشتے والی ماسی معلومات کا صرف ایک ذریعہ ہے، مکمل تحقیق آپکا حق اور فرض ہے، ماسی کو چونکہ آپ نے اپنی "خواہشات"بتادی ہوتی ہیں، تو وہ اپنے پیسوں کے چکر میں ہر رشتے میں مذکورہ خوبیاں نکال لاتی ہیں۔ آپ اپنی بنیادی معلومات حاصل کر لیں، ہر خاندان کی کچھ نہ کچھ روایات، ذات برادری کے حوالے سے کچھ چیزیں اہم ہوتی ہیں، ان کے بارے میں پتہ کر لیں، اگر بنیادی شرایط پوری ہو رہی ہیں تو تب ہی لڑکی یا لڑکا دیکھنے جائیں۔ گھر گھر میں چائے اور مٹھائی کھانے کی مشق ہر گز ضروری نہیں۔
نکاح ایک سنت، جسمانی ضرورت اور پاکیزہ زندگی کی ضمانت ہے، اسمیں سیاسی اور معاشی فوائد کے بجائے لڑکی یا لڑکے کی ضروریات یا خواہشات کہ مدِنظر رکھیں۔لڑکیوں کے والدین، عام طورپر، جو شرط رکھ دیتے ہیں کہ پہلے بڑی کی شادی ہو گی تو پھر چھوٹی کی، اس بات کو مدِ نظر ضرور رکھیں کہ آپ کتنا انتظار کر سکتے ہیں، کہیں بڑی کے پہلے شادی کے چکر میں چھوٹی کے لیے بھی مشکلات نہ پیدا ہو جائیں۔لڑکا یا لڑکی، اگر پڑھ لکھ کر کہیں اچھے عہدے پر فائر ہو چکے ہیں، تو رشتہ ہی دیکھیں، سودے بازی کی کوشش لڑکے اور لڑکی دونوں کی زندگی کے لئے عذاب کا باعث بن سکتی ہے۔ پاکستان میں صرف چند فیصد لوگوں کے پاس بڑاگھر اور گاڑی ہے، خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کا سامنا کریں۔

Facebook Comments

صائمہ سعید
ایڈمنسٹریشن جاب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply