پشتونوں کی عسکریت پسندی

متحدہ ہندوستان پر برطانوی راج کے زمانے میں جب پنجاب سکھوں کے زیر تسلط تھا دیو بند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے جہاد کی تحریک کے لئیے پختون قبائلی علاقوں کا رخ کیا۔پٹھان ہتھیار کو مرد کا زیور سمجھتے ہیں اور بہادری کو شان، چین سے بیٹھنا ان کی سرشت میں نہیں،اگر کسی بیرونی دشمن کا سامنا ہو تو آپس کی دشمنیاں بھول کر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں ورنہ آپس کی چپقلش کے لئیے سو بہانے میسر۔
قبائلی روایات جنگ جوئی اور عسکریت پسندی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہیں، مذہب کی پیروی میں سادگی کا عنصر ہر شے پر غالب،سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کے لئیے ایسے لوگ اور ایسا ماحول انتہائی آئیڈیل تھا،سکھوں کے خلاف جہاد کا آغاز ہوا،سلسلہ چلتا رہا،بالآخر دونوں صاحبان بالا کوٹ کی مسجد میں سکھوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور آہستہ آہستہ ان کی تحریک دم توڑتی گئی،پٹھانوں اور سکھوں کے معرکوں میں جنون اور جرات و بہادری کی ان گنت مثالیں موجود ہیں،اس عہد میں دیو بند مکتبہ فکر کے اثرات نے قبائلی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا،ہندوستان تقسیم ہوا،پاکستان وجود میں آیا،کشمیر کا تنازع کھڑا ہوا،ہندوستان نے کشمیر میں اپنی فوج داخل کر دی۔
قائد اعظم نے اس وقت کے انگریز آرمی کمانڈر جنرل گریسی کو آرڈر کیا کہ پاکستانی فوج کو فوری طور پر کشمیر بھیجو لیکن اس نے حکم عدولی کی،قبائلی مجاہدین اس وقت کشمیر میں داخل ہوئے اور مقدور بھر مزاحمت کی لیکن پاکستانی افواج کی سپورٹ نہ ہونے پر کامیاب نہ ہو سکے،پھر ایک لمبے عرصے تک کشمیر کی آزادی کے لئیے قبائلی اپنا خون پیش کرتے رہے،افغانستان پر روس کے حملے نے انہیں ایک لمبے عرصے کے لئیے مصروف رکھا،روس کی پسپائی کے بعد آپس کی چپقلشوں میں کچھ وقت گزرا،طالبان کا دور حکومت آیا،9/11کے سانحے کے رد عمل میں امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کر دی،جنرل مشرف نے امریکہ کا ساتھ دیا،امریکی حملے کے بعد طالبان کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے سرحدی علاقوں میں داخل ہوئی اور اپنے آپ کو منظم کرنے کے بعد پاکستانی عوام اور پاکستانی افواج کو اٹیک کرنا شروع کر دیا،قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ ملتی گئی،اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان دیو بند مکتبہ فکر کے مدارس کی پیداوار ہیں۔عسکریت پسندی ان کے خون میں شامل ہے۔لیکن برا یہ ہوا کہ پاکستان میں طالبان مختلف دھڑوں میں بٹ گئے ۔
انہیں انڈیا ،افغانستان،روس،امریکہ،سعودی عرب اور ایران سے فنڈنگ ہونے لگی،مذکورہ بالا ممالک انہیں اپنے اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کرنے لگے،پاکستان کے عوام خود کش دھماکوں کی لپیٹ میں آئے،سیکیورٹی اداروں کو ٹارگٹ کیا جانے لگا،جنرل راحیل شریف نے ضرب عضب کاآغاز کیا اور دہشت گردی کی شدت میں کمی آتی گئی،حالیہ دہشت گردی کی سر اٹھاتی لہر کے ردعمل میں جنرل باجوہ نےآپریشن ردالفساد کا اعلان کیا،پنجاب میں بھی پولیس اور رینجرز نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے،اس آپریشن کے دوران پنجاب میں پشتونوں کیساتھ امتیازی سلوک پر مختلف سیاسی اکابرین کا رد عمل سامنے آ رہا ہے،اس معاملے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے،پشتونوں کی شدت پسندی اور عسکریت پسندی کےحوالے سے قائم شدہ تاثر کے پیچھے ایک تاریخ موجود ہے،ایک لمبی تاریخ،اتنی جلدی ان کا مائنڈ سیٹ بدلنا بہت مشکل ہے،عسکریت پسندی اور دہشت گردی میں فرق ہوتا ہے،امید کرنی چاہیئے کہ دہشت پسند بہت جلد اپنے انجام کو پہنچیں گے اور عسکریت پسند آہستہ آہستہ قبائلی روایات کی رزمیہ فضا سے نکلنے میں کامیاب ہوں گے۔

Facebook Comments

احمد خیال
احمد خیال نوجوان نسل کے معروف شاعر ہیں،ان کے دو مجموعہ کلام "خاک میں ستارہ "اور ستاروں سے بھرے باغات "شائع ہوکر ادبی حلقوں سے پذیرائی سمیٹ چکے ہیں ،سیاسی اور معاشرتی مسائل پر ان کی نگارشات بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply