کراچی، سنسان سڑک اور ایک ڈاکٹر/ ذوالفقار علی زلفی

پرانی بات ہے ـ پلٹ کر دیکھوں تو شاید کل کی ہی کہانی ہے ـ 2008 کی سردیاں ـ کراچی میں آج کل سردی بس منہ دکھائی کے لئے ہی آتی ہے ـ ہمارے بچپن میں سردی کا موسم واقعی سرد ہوتا تھا ـ گھر میں کوئلے کی انگھیٹی جلائی جاتی، سوئیٹر نکل آتے، ہونٹ اور گال خشک ہوکر پھٹ جاتے، صبح صبح اٹھنا قیامت لگتا ـ کہا جاتا ہے یہ سردی کوئٹہ سے آیا کرتی تھی ـ جیسے جیسے ہم بڑھے ہوتے گئے کوئٹہ کی ناراضی بھی بڑھتی رہی پھر بالآخر یہ ناراضی مکمل بے اعتناہی میں بدلتی چلی گئی ـ کراچی سے سردی کا موسم بھی کسی بنجارے کی طرح لاد چلا ـ

کراچی 2008 کی سردیاں تھیں یا یوں کہہ لیں موسم تو سردی کا تھا مگر کوئٹہ نے اپنے موسم الگ کر لئے تھے ـ ہم تین دوست گارڈن سے تین ہٹی جارہے تھے ـ مغرب قضا ہوچکا تھا ـ خنکی اور تاریکی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ـ گاندھی گارڈن اور پارسی محلے کی درمیانی سڑک پر تقریباً سناٹا تھا ـ ہم صدر سے پیدل چلتے چلتے یہاں پہنچے تھے ـ

ہم دو دوست کسی غیر اہم معاملے پر انتہائی سنجیدہ بحث کر رہے تھے کہ اچانک احساس ہوا تیسرا دوست ہمارے ساتھ نہیں ہے ـ اس احساس کے ساتھ ہی ہمارے قدم جم گئے ـ فوراً پلٹے ـ دور سے بھاری تن و توش سے لڑتے ہوئے دوست ہانپتے ہوئے ہماری طرف بڑھے چلے آرہے تھے ـ

میرے ساتھ غیر اہم معاملے پر سنجیدہ گفتگو کرنے والے دوست نے تقریباً چلا کر کہا:

“ڈاکٹر ہمارے ساتھ رہیے ایسا نہ ہو پیچھے سے کوئی اٹھا لے اور ہمیں پتہ ہی نہ چلے” ـ

میں مسکرانے لگا ـ اب یاد نہیں مسکراہٹ کس خیال کو لے کر آنکھوں سے ہونٹوں پر آ بیٹھی تھی ـ بھاری بھرکم ڈاکٹر کو اٹھانے کے خیال سے یا غیر اہم معاملے پر سنجیدہ گفتگو کے منقطع ہونے کی خوشی سے ـ ڈاکٹر ہانپتے ہوئے تیزی سے فاصلے کم کرنے میں مگن تھے ـ

ڈاکٹر ہانپتے ہوئے ہم تک پہنچے اور خفگی سے بولے :

“میں اک دن تم دوستوں کی ہی بھینٹ چڑھ جاؤں گا” ـ

ہم ان کی مصنوعی دکھتی خفگی پر کھلکھلا کر ہنس پڑے ـ

تین ہٹی کے قریب جہانگیر روڈ کا بلوچ محلہ تھا جسے ہم لیاری نشین “کیاماسری” کہتے ہیں ـ وہ کیاماسری ہماری منزل تھی جہاں بلوچ نیشنل موومنٹ کے سربراہ غلام محمد بلوچ ہمارے منتظر تھے ـ بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل مند سے تعلق رکھنے والے غلام محمد بلوچ المعروف چیئرمین اس دور میں بلوچ قوم کے سب سے بڑے عوامی رہنما سمجھے جاتے تھے ـ بلوچ کو کوسا جاتا ہے کہ ان کے نمائندے از کارِ رفتہ سردار ہیں مگر تماشا یہ تھا کراچی کی بلوچ آبادی پر مسلط سردار عبدالرحمان بلوچ سے لے کر بلوچستان کے نامی گرامی سرداروں تک، سب پاکستان کے ایک مخصوص گروہ کے ہرکارے تھے بلکہ ہیں ـ بلوچ تو غلام محمد کے پیچھے کھڑے تھے جیسے آج ماہ رنگ بلوچ اور سمّی بلوچ کی آواز پر لبیک کہتے ہیں ـ

سردی کی اس شام جب خلیل بلوچ نے مزاحیہ انداز میں ڈاکٹر کے اٹھائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا تب ہم تینوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بے ضرر ڈاکٹر دین محمد بلوچ واقعی ایک دن اٹھا کر جبراً غائب کر دیے جائیں گے ـ ہم نے سوچا ہی نہ تھا سالوں بعد ڈاکٹر کی معصوم بیٹی اسی کراچی میں ان کی بازیابی کا مقدمہ لڑیں گی اور اس مقدمے کی پاداش میں توہین آمیز طریقے سے گرفتار کی جائیں گی ـ سمّی بلوچ اس وقت محض ہمارے دوست کی چھوٹی سی بیٹی تھی جسے بس پڑھنا تھا ـ

ضلع آواران کی تحصیل مشکے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کا مطالعہ کمال تھا ـ یہ بھی عجیب بات ہے پس ماندہ اور جاہل سمجھے جانے والے بلوچستان کے بیشتر سیاسی کارکن باوسائل کراچی کے سیاسی کارکنوں کی نسبت ہمیشہ صاحب مطالعہ نکلتے ہیں ـ

کراچی کا جیالا اس دور میں بلوچ گینگسٹرز کی جی حضوری میں پناہ ڈھونڈھ رہا تھا ـ آداب و تکلفات سے آراستہ گفتگو کرنے والے مہاجر سیاسی کارکن “ابے” ، “تبے” پر آکر ٹی ٹی پسٹل سے جملہ ختم کرنے لگے تھے ـ پشتون مزدور اے این پی کا غصیلا سیاسی کارکن بن کر شہر پر قبضے کی احمقانہ مگر خونی جنگ کا حصہ بنتے جا رہے تھے ـ جہل کا تصادم شدت پکڑتا جا رہا تھا ـ ایسے میں مشکے کا ڈاکٹر کتابیں اٹھائے ایشیا کا خطرناک ترین شہر کہلائے جانے والے خطے میں، ایک سنسان سڑک پر، اپنے دوستوں پر غصہ کر رہا تھا

“میں اک دن تم دوستوں کی ہی بھینٹ چڑھ جاؤں گا” ـ

سولہ سال ـ آج 16 سال بیت چکے ہیں ـ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گم شدگی کو ـ ہم جو چند منٹوں کی گم شدگی پر قدم روک کر کھڑے ہوگئے تھے کہ ڈاکٹر کہاں رہ گئے ـ آج ان کی 16 سالہ طویل جبری گم شدگی پر سوچ رہے ہیں :

“ڈاکٹر کو کہاں لے گئے” ـ

میں نہیں جانتا خلیل بلوچ آج کہاں اور کس حال میں ہیں، وہ اپنے دوست کی جبری گم شدگی کو کیسے دیکھتے ہیں ـ میں غالباً 14 سالوں سے ان سے بھی نہیں ملا ـ رہا میں؛ میں بس ایک نوحہ خواں بن کر رہ گیا ہوں ـ

julia rana solicitors

کراچی آج بھی “زندہ” ہے ـ جہل کا تصادم اب بھی برقرار ہے ـ پارسی شہر چھوڑ چکے ـ کوئٹہ آج اپنے برتن مکمل طور پر الگ کر چکا ـ گاندھی گارڈن اب چڑیا گھر کہلاتا ہے ـ وہ سنسان سڑک ابھی بھی سنسان ہی ہے ـ مشکے کا ڈاکٹر کتابوں سمیت بس دور کہیں کھو چکا ہے ـ ہاں مگر بلوچ؛ بلوچ اب بھی چراغِ طور جلائے کھڑا ہے ـ یقین نہ آئے تو ایک نظر سمّی بلوچ کو دیکھ لیں ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply