• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پہلے پکا قلعہ حیدرآباد کے مقتولین کا قصاص ضروری ہے۔۔سید عارف مصطفٰی

پہلے پکا قلعہ حیدرآباد کے مقتولین کا قصاص ضروری ہے۔۔سید عارف مصطفٰی

 انسانوں میں تفریق  ، اور وہ بھی اس قدر ۔۔۔! اور وہ بھی ایک ہی ملک کے باشندوں کے مابین ، ایسا جرم عظیم ! معاز اللہ، معاذ اللہ بلاشبہ اس کو تعصب کے سوا اور کوئی نام دیا جاسکتا ، اندھا ، اور بے تحاشا تعصب ۔ لیکن ا س کی ذمہ داری صرف حکومتی طبقے ہی پہ نہیں ساری سیاسی جماعتوں پہ ہے اور سبھی نام  نہاد اہل نظر کوتاہ نظر ٹھہرے ہیں اور علمائے دین تو نجانے کس منہ سے شفاعت رسول کے طالب ہوں گے؟۔ انصاف طلب کرتے کرتے 28 برس بیت چلے لیکن پکا قلعہ کے درجنوں مقتولین کے پسماندگان کو انصاف نہ ملنا تھا اور نہ ملا اور ان میں تو نجانے کتنے ہی راہیء ملک عدم ہوچکے ،

میرا سوال یہ ہے کہ کیا وہ مارے گئے لوگ انسان نہیں کوئی کتے بلی تھے کہ ان کا خون یوں بہادیا گیا اور ایک نسل پرست حکومت کے حکم پہ پولیس کی وردی پہنے متعصب جنونیوں نے ان کی جانوں کا جی بھر کے شکار کھیلا، لیکن کیا اس سے کلمے کے نام پہ بنے اس ملک کے رہنے والے اپنے اس فرض سے سبکدوش ہوگئے کہ جس کی ادائیگی آج بھی اسی شدت سے ان پہ لازم ہے ۔ اس سوال کا جواب ہرایک کی گردن پہ ہے ، اس دور سے لے کر آج تک کی ہر حکومت ، ہر سیاسی و سماجی رہنماء اور ہر عالم دین پہ ہے حتیٰ کہ ہر جج سے لے کر ہر جنرل پہ ۔ اس سے بچنے کی کو ئی راہ ہے اور نہ ہی اس سوال کی گردن مروڑی جاسکتی ہے کیونکہ اس سے یہ سوال مرے گا پھر بھی نہیں ،

لیکن ٹھہریے  اور یہ دیکھیے کہ اب 28 برس بعد کیا ہورہا ہے ۔ ماڈل ٹاؤن کے ساڑھے تین برس پرانے 14 مقتولین کا حساب لینے کے لیے کس قدر واویلا مچا ہوا ہے ۔ خون کا حساب مانگنے کے لیے ہر حکومت مخالف سیاسی رہنماء کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہے 17 جنوری سے حکومت کے خلاف تحریک قصاص چلانے کے لیے طاہرالقادری کے پہلو میں سیاسی جماعتوں کے جغادری پہلو بہ پہلو بیٹھے ہیں حتیٰ کے پیپلز پارٹی بھی۔ وہ جماعت کہ  جس کے اپنے ہاتھ پکا قلعہ کے درجنوں شہدا کے لہو سے رنگے ہوئے ہیں۔ لیکن تاریخ کا سبق یاد رکھیے  کہ اشرف المخلوقات کا قتل خواہ نیا ہو کہ پرانا ، کف قاتل پہ لہو کے وہ داغ چھوڑ جاتا ہے کہ انصاف  ملنے تک یہ داغ کسی صورت نہیں چھوٹ پاتے ، کیونکہ ہر بےگناہ کا قتل اپنا قصاص مانگتا ہے ۔ اور پھر یہاں تو معاملہ کئی درجن افراد کے خون کے قصاص کا ہے ۔

یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے   کہ کیا 27 مئی 1990 کو حیدرآباد کے پکا قلعہ میں کیے گئے بہیمانہ آپریشن میں‌ درندہ صفت پولیس کے ہاتھوں مارے گئے درجنوں بے گناہ افراد کا قصاص پیپلز پارٹی سے لے لیا گیا یا میں‌پھر سے پوچھوں کہ  کیا وہ مقتولین انسان ہی نہیں تھے کہ جنہیں بینظیر کے پہلے دور حکومت کے اس رسوائے زمانہ و بہیمانہ آپریشن میں  جانوروں  کی طرح ماردیا گیا تھا ۔ اخبار کے کس قاری کو نہیں معلوم کہ  پولیس کی پچاس سے زائد موبائلوں‌ کے دو روز سے جاری شدید ترین محاصرے کے خلاف عورتیں مبینہ طور پہ سروں پہ قرآن رکھ کے احتجاج کرتی گھروں سے نکل آئی تھیں اور ان کے ساتھ مرد بھی تھے ، کیونکہ ان کے گھروں کا پانی بجلی و گیس کا کنکشن تک کاٹ دیا گیا تھا اور نوبت انتہائی بھوک اور پیاس تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن ایک خاتون کے دور حکومت میں اس احتجاج کو کچلنے کے لیے اس مجمع پہ وحشی پولیس نے زبردست و شدید فائرنگ کر کے درجنوں خواتین کو بھون کے رکھ دیا تھا اور ان کا ساتھ دینے والے کئی مردوں کو بھی خاک و خون میں نہلادیا تھا۔

رپورٹوں میں ان مرنے والوں‌کی تعداد 100 سے 200 کے درمیان بتائی جاتی ہے ۔ اس عاجز   نے اس وقت معاملے پہ جو کچھ لکھا اخبارات کی ردی کی ٹوکری کی زینت بنا حتٰی کہ ایم اے صحافت میں گولڈ میڈلسٹ ہونے کے باوجود میں نے احتجاجاً لکھنا ہی بند کردیا تھا کیونکہ اس وقت پرنٹ میڈیا پہ بدترین جبر کا دور تھا اور الیکٹرانک میڈیا صرف ایک ہی چینل یعنی پی ٹی وی پہ مشتمل تھا جو کہ سرکاری تھا۔بلاشبہ یہ سانحہ جدید دور میں جمہوریت کے نام پہ قائم کسی حکومت کے ہاتھوں اپنے عوام پہ کیے گئے بدترین وحشیانہ سلوک کی بدترین مثال تھا۔

مجھے کہنے دیجیے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس معاملے میں اس لیے دم سادھ لیا تھا کیونکہ یہ ظلم اردو بولنے والوں پہ کیا گیا تھا اور اگر اس آپریشن کا دسواں حصہ بھی کسی اور صوبے میں کیا گیا ہوتا تو ان سیاسی گرو گھنٹالوں کے ہاتھوں‌ قیامت آجانی تھی ۔اس زمانے میں ان اردو بولنے والوں‌کی منتخب جماعت ایم کیوایم کے اکابرین و کارکنان کی پکڑ دھکڑ جاری تھی اور پھر اس سے بچنے کے لیے الطاف حسین خود تو لندن فرار ہوگئے اور ان کے ایماء پہ پیچھے موجود دوسرے درجے کی قیادت نے نہایت شرمناک بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے چند وزارتوں کی خیرات کے عیوض پی پی پی حکوت کے سامنے سر جھکا لیا اور دھڑلے سے  ان شہیدوں کے خون کا سودا کرکے وزارتیں حاصل کرلیں ۔

پھر اس جماعت نے اگلی مزیداڑھائی دہائیاں کسی نہ کسی طرح اقتدار سے چمٹے رہ کے گزار دیں لیکن ان شہداء کے قصاص کے معاملے پہ نہ تو خود کوئی پیش رفت کی اور نہ ہی کسی اور فرد یا انجمن کو اس معاملے میں آگے آنے دیا ۔ کیونکہ اس جماعت کا قائد الطاف حسین نہایت لالچی خود غرض اور زرو و جاہ کا طالب شخص ثابت ہوا اور وہ پوری  تین دہائیوں تک شہری سندھ کے معاملات کا ماما چاچا بنا رہا اورکسی کو اس معاملے میں آواز بھی نہ نکالنے دی اور جس نے ایسی ذرا بھی کوشش کی اسے اسی کے لہو میں نہلادیا ۔ البتہ حکومت سے تعلقات میں اونچ نیچ آنے کے وقت سیاست چمکانے کے لیے کبھی کبھی پکا قلعہ کے ان شہداء کا تذکرہ بھی کیا جاتا رہا یوں اس نے اس قتل عام کو صرف پریشر لیور کے طور پہ استعمال کیا لہٰذا یہ اندوہناک قتل عام کبھی اپنے انصاف کی پگڈنڈی نہیں چڑھ سکا۔

یہاں‌یہ باریک و تکنیکل معاملہ بھی کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر میں نے یہاں کراچی میں1986 – 87 میں قصبہ و علی گڑھ کے اردو بولنے والوں کے قتل عام کا تذکرہ کیوں‌ نہیں کیا یا 30 ستمبر 1988 کو حیدرآباد کے گلی کوچوں میں جگہ جگہ فائرنگ کرکے دو ڈھائی سو افراد کے قتل عام کے بھیانک واقعے کو کیوں بھلا دیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان واقعات کو دو نسلی گروہوں ‌کے تصادم کی ذیل  میں لیا جاتا ہے اور انہیں سرکار بمقابلہ عوام کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاسکتا، صرف یہی دو واقعات یعنی 27 مئی 1990 کو پکا قلعہ حیدرآباد میں ایگل اسکواڈ کے ہاتھوں عوام کا قتل عام اور 24 برس بعد 17 جون 2014 کو ماڈل ٹاؤن لاہور کی وحشیانہ فائرنگ ہی ایسے ہیں کہ جہاں حکومت عوام پہ اس درندگی سے چڑھ دوڑی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

پکا قلعہ کے متاثرین انصاف پانے کے لیے بلبلاتے رہے لیکن ایم کیوایم نے ان شہدا سے منہ موڑ کے اپنے لیے وزارتیں ‌و مراعات حاصل کرنے ہی کو غنیمت جانا – اب خدا خدا کرکے گزشتہ برس وہ دور وحشت تمام ہوا ہے تو ان مظلومین کی داد رسی کے امکانات بھی روشن ہوئے ہیں – اور اب اس ملک کے تمام ارباب اختیار، سیاسی و سماجی رہنماؤں و علمائے دین اور اہل معاملہ کے پاس یہ موقع ہے کہ 28 برس پرانے اس نسل کشی کے بھیانک المیے  کا معاملہ پوری شد و مد سے اٹھائیں اور مظلومین کی دادرسی کرنے کا اہتمام کریں تاکہ بینظیر دور کے اس لرزہ خیز سانحے کے ذمہ داروں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔ دیکھیے اور سمجھیے کہ انصاف کا تقاضا ہے جو جرم پہلے سرزد ہوا ہے اس کو پہلے جانچا جائے اور انجام تک پہنچایا جائے ۔ ورنہ مجھے یا کسی بھی انصاف پسند شخص کو 24 برس بعد کے 14 مقتولین کو انصاف دلانے کا یہ مطالبہ نہایت متعصبانہ اور شدید احمقانہ سمجھنے سے روکا نہیں جاسکےگا-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply