نبی ﷺ کے ایکسٹریمسٹ۔۔ احمد رضا بٹ

آج آفس کے لیے نکلا تو ایسے ہی کچھ خودکلامی سی چل رہی تھی جو کہ  ایک معمول ہے ، خودکلامی کرتے ہوئے نجانے کیوں ایک بات ذہن میں آئی کہ  محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔۔۔
ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ لوگ اکثر مجھے اور مجھ جیسوں کو ایکسٹریمسٹ کہتے ہیں ، گو کہ  انکی نیت بری نہیں ہوتی ہوگی مگر دنیاوی لحاظ سے یا معاشرتی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ بڑا غیرمناسب یا برا لفظ سمجھا جاتا ہے ، آج کل تو عالمی ذرائع ابلاغ کے حساب سے دیکھا جائے تو شدت پسند اور دہشت گرد ایک برابر ٹھہرتے ہیں.
مجھے یہ خیال آ رہا تھا کہ  واقعی میں ہم شدت پسند ہیں؟
اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خیال چل رہا تھا کہ  کیا
” محبت اور جنگ میں سب جائز ہے؟

میں نے خود سے سوال کیا کہ  کیا واقعی سب جائز ہے؟؟؟

تو جواب آیا کہ ہاں ہے ، سب جائز ہے ، واقعی ہے ، کوئی شک نہیں اس بات میں ، کم اَز کم مجھے تو ہرگز نہیں ہے۔۔۔
اگر اسی جملے کے تناظر میں دیکھا جائے ، تو اس کا مطلب ہے کہ محبت ہو یا جنگ، دونوں کا حق ہی تب ادا ہوسکتا ہے جب ان کے لیے انسان انتہا پسند ہو۔۔۔
سیدھی سی بات ہے وہ عاشق بھی کیا عاشق ہو گا جس نے کوچۂ جاناں کے سگ کے پاؤں نہ  چومے ہوں؟ جو اپنے محبوب کے اِک اشارے پے مر نہ مٹا ہو۔۔۔
اور وہ سپہ سالار بھی کیا جنگ اور اپنے سپہ سالار ہونے کا حق ادا کرتا ہو گا جو جنگ میں اپنی جان کی فکر کرتا پھرے ۔۔۔
ہمیں اس وجہ سے شدت پسند یا انتہا پسند کہا جاتا ہے کہ ہم نبی ؐ کی محبت میں کچھ دیکھتے ہی نہیں ، ہمارا ماننا ہے کہ  نبی جی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت ہے تو باقی سب کچھ ہے ، ورنہ کچھ بھی نہیں ہے .
اور محبت میں کبھی بھی تجسس ، سوالات یا اِختلافِ رائے کی کوئی گُنجائش نہیں ہوتی،
محبت ادب سکھاتی ہے اور تو اور نہ صرف اپنے محبوب کا بلکہ اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب پِھر چاہے وہ کوئی انسان ہو یا محبوب کے در کا سنگ ہو یا گلی کا سگ…
نسبت کے ادب کی تلقین کہیں تو ہمیں حضرت عُمر(رضی اللہ) کے حجرِ اسود کو چُومنے سے ملتی ہے آپ(رضی اللہ) فرماتے ہیں “تم تو ایک پتھر ہو، میں تُمھیں اِس لیے چُومتا ہوں کہ میرے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تُمھیں چُوما ہے”
تو کہیں رب قرآن  میں آیتِ مودہ کی صورت میں تلقین کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ

قُل لَّا أَسَْلُكمُ‏ْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ
(اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کہہ دیجئے که میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نهیں چاهتا علاوه اس کے که میرے اقربا سے مودت رکھنا”
ایک بزرگ سے پوچھا کہ یہ مودت کیا ہے؟ تو کہنے لگے کہ بیٹا کہنے کو تو یہ مُحبت اور عقیدت کی سُپرلیٹیوڈگری لیکن اگرساری دُنیا کی سُپر لیٹوڈگریز کو ایک پلڑے میں رکھ کردوسرے میں مودت کو رکھا جائے تو اِس کا پلڑا بھاری ہوگا۔

مجھے حیرت ہوتی ہے اُن لوگوں کی سوچ پر
کہ جو سرکار(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے بارے میں کُچھ چھوٹا یا کم خیال کرنے کی جُرات کر لیتے ہیں
جبکہ اللہ نے صاف صاف اعلان کر دیا
تم میں سے اس وقت تک کسی کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ ، اپنے ، ماں ، باپ ، اولاد ، مال اور اپنی جان سے زیادہ محبت نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ کرے ۔

اِتنے واضح اعلانات کے بعد بھی اگر کہا جائے کے تم لوگ انتہاء پسند ہو ، تو بھئی الحمداللہ ہم ہیں ،
کیوں کہ محبت  اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے . . .

اب ایک لمحے کے لیے سوچو میرے حلقہ احباب میں سے اکثر لوگ اپنی اوسط عمر میں سے آدھی سے زیادہ گزار چکے ہیں اور اس کچھ عرصے بعد پِھر کہانی ختم . . .
قبر کی رات آ گئی . . .
جیسے روایات میں ملتا ہے . . .
منکر نکیر آ گئے ، نبی جی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف لے آئے ،
جو آج تک علماء سے سنا ، بزرگوں سے سنا کہ  منکر نکیر پوچھیں گے نبی جی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے ان کو جانتے ہو . . .
اللہُ اکبر! . . . .

اگر تو ان کی محبت میں یوں گزری ہوئی کہ شدت پسند بنے رہے ، تو پِھر تو شاید شرمندگی نا ہو . .
لیکن اگر زندگی یوں گزری ہوئی کہ ان کی ذات میں کوئی نا کوئی بات ڈھونڈتے رہے ، کہ( نعوذ باللہ ، ثم نعوذ باللہ ) نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کر سکتے تھے ، یہ نہیں کر سکتے تھے ، وہ کیا جانتے تھے اور کیا نہیں جانتے تھے ؟
وہ اب ہیں حاضر و ناظر یا نہیں . . . وہ کیا تھے وہ کیا ہیں ! . . .
اُن کے اختیارات کیا تھے ، کیا ہیں . . . توسوچوکیا منہ دکھاو گے اُس وقت نبی جی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو۔۔۔
یقین کیجیے کہ میرا کامل ایمان ہے ، کہ اگر نبی جی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں نہ مانا جائے کہ  جیسے خدا کو بِنا دیکھے مانتے ہیں تو کوئی فائدہ نہیں نمازوں ، روزوں ، تسبیحوں کا . . .
ایک دوست کہنے لگا کہ جب مُنکر نکیر نے یہ پُوچھا کہ  تمھارا رب کون ہے، تو اُس کا کیا جواب دو گے؟
میرے خیال میں اِس کا بہترین جواب کُچھ یوں ہے کہ “جو مُحمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب ہے وہ میرا رب ہے”
کیونکہ نبی جی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رب کا تعارف کروایا تو ہی پتہ چلا نا کہ رب کون ہے
کئی بزرگانِ دین نے تو دُعا بھی یُوں مانگی کہ “اے مُحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب ہماری مدد فرما”
کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انسان نبی جی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مُحبت کے بغیر جہاں مرضی پہنچ جائے رب تک نہیں پہنچ سکتا۔۔۔
ہم دُنیاداروں کا سب سے بڑا مسئلہ منطق ہے۔۔۔ اور جہاں بات عقیدت کی آجائے وہاں منطق کا داخلہ ممنوع ہے۔۔۔
وہ واقعہ یاد آ گیا کہ جب ملعون ابوجہل نے حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ) سے بڑی منطق سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی کہے کہ میں ایک رات میں مسجدِ اقصیٰ سے سفر کرتا ہوا عرش سے ہو آیا ہوں تو کیا تُم یقین کرو گے؟
آپ (رضی اللہ) فرمانے لگے کہ نہیں یہ مُمکن نہیں، ابو جہل کہنے لگا مگر آپکے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہہ رہے ہیں
تو حضرت ابوبکرصدیق (رضی اللہ) نے فورا اِرشاد فرمایا کہ اگر یہ بات نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی ہے تو یہی سچ ہے۔۔۔
کیا ہی خوبصورت لِکھا ہے اکبر الہ آبادی نے
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سُلجھا رہا ہے اور سِرا ملتا نہیں۔۔۔
ہم کون ہوتے ہیں لوجِکس ڈھونڈنے والے۔۔۔
نوکر کون ہوتا ہے مالک کی اتھارٹیز جج کرنے والا؟ سگ کا کام وفا داری کرنا ہے ، نا کے چیک کرنا کہ مالک کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں . . .
اس کے بعد حق ادا ہوتا ہے نوکر کا مالک کی وفا کی طرف ، اس کے بعد سگ کو ٹکڑا ملتا ہے مالک سے خوش ہو کر . . .
میں اکثر سوچتا ہوں کہ سرکار(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں قبر میں تو ان کے ایکسٹریمسٹ سے جب پوچھا جائے کہ  یہ کون ہیں ، تو اُٹھ کر درود پاك پڑھنا شروع کر دے . . .
کیا خوب کہا ہے کسی شاعر نے

جب نکیرین ، سوالات کریں گے آ کر
ہم وہاں نام ، محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لیے جائیں گے . . . .

اگر کوئی مسلمان یہ سوچتا ہے کہ  نبی جی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت دِل میں لے کے کوئی ایکسٹرا کام کر رہا ہے ، تو یہ بھی اُس کی کوئی بہت بڑی غلط فہمی ہے ،
یہ ایمان کا عین حصہ ہے ، کسی نےکہا تھا نا کہ
محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت دین حق کی شرطِ اوّل ہے
اِسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے . . .

اور اگر کوئی کچھ ایکسٹرا چاہتا ہے تو تب بھی اس کو سرکار(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہی سے مِل سکتا ہے ،اور کچھ ایکسٹرا تب ملتا ہے جب مالک سچی جستجو ، سچی لگن سچی محبت کو قبول فرما لے . . .

Advertisements
julia rana solicitors london

راکھی کرتے رہنا یہ تو نوکری ہے نا سگ کی؟
پِھر آخر میں میاں محمد بخش (رحمة الله) کی بات سے مجھے اس خود کلامی کا خلاصہ ملا
آپ لکھتے ہیں کہ۔۔
جس تن اندر عشق نا رچیا ، کتے اس تھیں چنگے
مالک دے گھر راکھی کردے ، صابر،بھکےننگے

Facebook Comments

احمد رضا
آئٹی پروفیشنل

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply