تتھاگت نظم(9)۔۔۔۔۔دوزخ

پیش لفظ
کہا بدھ نے خود سے : مجھ کو۔ دن رہتے، شام پڑتے، سورج چھپتے، گاؤں گاؤں یاترا، ویاکھیان، اور آگے ، اور آگے۔ بھارت دیش بہت بڑا ہے، جیون بہت چھوٹا ہے، لیکن اگر ایک ہزار گاؤں میں بھی پہنچ پاؤں تو سمجھوں گا، میں سپھل ہو گیا۔ ایک گاؤں میں ایک سو لوگ بھی میری باتیں سن لیں تو میں ایک لاکھ لوگوں تک پہنچ سکوں گا۔ یہی اب میرا کام ہے ،فرض ہے ، زندگی بھر کا کرتویہ ہے۔ یہ تھا کپل وستو کے شہزادے، گوتم کا پہلا وعدہ … خود سے …اور دنیا سے۔ وہ جب اس راستے پر چلا تو چلتا ہی گیا۔اس کے ساتھ اس کا پہلا چیلا بھی تھا، جس کا نام آنند تھا۔ آنند نام کا یہ خوبرو نوجوان سانچی کے ایک متمول خاندان کا چشم و چراغ تھا، لیکن جب یہ زرد لباس پہن کر بدھ کا چیلا ہو گیا تو اپنی ساری زندگی اس نے بدھ کے دستِ راست کی طرح کاٹ دی۔ یہی آنند میرا ، یعنی ستیہ پال آنند کے خاندانی نام ’’آنند‘‘ کی بیخ وبُن کی ، ابویت کی، پہلی سیڑھی کا ذوی القربیٰ تھا۔ اسی کی نسب خویشی سے میرے جسم کا ہر ذرہ عبارت ہے۔ مکالمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان نظموں کے اردو تراجم اس میں بالاقساط شائع ہو رہے ہیں۔ اردو کے غیر آگاہ قاری کے لیے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ ’’تتھا گت‘‘، عرفِ عام میں، مہاتما بدھ کا ہی لقب تھا۔ یہ پالی زبان کا لفظ ہے جو نیپال اور ہندوستان کے درمیان ترائی کے علاقے کی بولی ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ ’’ابھی آئے اور ابھی گئے‘‘۔ مہاتما بدھ گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے ویا کھیان دیتے تھے۔ بولتے بولتے ایک گاؤں سے دوسرے کی طرف چلنے لگتے اور لوگوں کی بھیڑ ان کے عقب میں چلنے لگتی۔ آس پاس کے دیہات کے لوگ جب کچھ دیر سے کسی گاؤں پہنچتے تو پوچھتے کہ وہ کہاں ہیں، تو لوگ جواب دیتے۔ ’’تتھا گت‘‘، یعنی ابھی آئے تھے اور ابھی چلے گئے‘‘۔ یہی لقب ان کی ذات کے ساتھ منسوب ہو گیا۔ میں نے ’’لوک بولی‘‘ سے مستعار یہی نام اپنی نظموں کے لیے منتخب کیا۔ ستیہ پال آنند –

تتھاگت نظم (9)
دوزخ
’’پاپ کا کیا انجام ہے؟‘‘ اک بھکشو نے پوچھا

آنکھیں موندے
’دھیان‘ کی گہری حالت میں تھے لیِن تتھاگت ( ’دھیان ‘ : مراقبہ … لِین‘ : مستغرق)
چونک گئے
اس بچوں جیسی
بھولی بھالی بات کو سُن کر
اک لمحہ خاموش رہے
پھر آنکھیں کھولیں

بولے، ’’بھکشو، اور بھی لاکھوں سیّارے ہیں
یہ دھرتی بھی ان جیسا سیّارہ ہی ہے
کیا تم نے سوچا ہے، شاید یہ سیّارہ
اور کسی سیارے کی پاپی روحوں کو
ایذا دینے کی خاطرہی
بنا بنایا اک دوزخ ہو؟
یعنی اُن روحوں نے اپنی دھرتی پر جو پاپ کیے ہیں
اُن کی سزا اِس دھرتی پر ہی اُن کا ایک جنم لینا ہو
بنے بنائے اس دوزخ میں
اپنی قید کی عمر کاٹ کر
ان میں کچھ روحیں تو شاید
یہ ثابت کر دیتی ہوں گی
وہ پاپوں سے چھوٹ چکی ہیں
اور اگر وہ چھوٹ نہیں پاتیں تو شاید
اس سے بھی منحوس دھرتیاں، بُری زمینیں
اگلے جنم میں دیکھ رہی ہوں اُن کا رستہ!

اس مفروضے کی گہرائی تک میرا جانا تو ، بھکشو
اب بھی کچھ مشکوک ہے، دیکھو
میں خود اس دُبدھا میں اب تک پھنسا ہوا ہوں ( دُبدھا : گو مگو کی کیفیت)
’’شاید‘ …’’شاید‘‘کہہ کر میں نے
کوئی حتمی بات نہیں کی!‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

آنکھیں موندے، دھیان میں گم
جانے کس دُور کی دنیا میں پھر لوٹ گئے
خاموش تتھا گت!
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply