گونگا( حصّہ اوّل)۔۔افتخار بلوچ

گونگا( حصّہ اوّل)۔۔افتخار بلوچ/مشین کی گُھر گُھر سے پاس سے گزرنے والوں پر وہ  کڑی کیفیت بیت جاتی تھی کہ وہ پھر اُدھر سے گزرنے کا ارادہ ہی چھوڑ دیا کرتے تھے مگر کیا کرتے،ساری فیکٹری کا دارومدار ہی اسی مشین کی کارکردگی پر تھا۔ میکانکی مہارت رکھنے والے عملے نے سرتوڑ کوششیں کی تھیں کہ اس مشین کی موٹر کا شور کم کیا جائے مگر بے سود۔ بہت مرتبہ مشین کو بند کر کے اس کے پرزے نکالے گئے اُن پر نت نئی قسم کا تیل ڈالا گیا ،گرِیس ڈالی گئی، موٹر کی جگہ کو برابر کیا گیا ،غرض یہ کہ میکانکی عملے نے اپنی دسترس کا تمام علم عمل میں بدلا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ہاں نقصان ہوا ۔۔وہ یہ کہ انہیں اپنے ہی علم کی بنیادیں کھوکھلی محسوس ہونے لگیں! علم کبھی کھوکھلا محسوس نہیں ہونا چاہیے چاہے کتنا ہی سطحی کیوں نہ ہو۔ علم زندگی کا عرفان ہے اور زندگی بھی بھلا کھوکھلی محسوس ہو سکتی ہے۔

مشین چلتی رہی فیکٹری بھی چلتی رہی سیٹھ پیسہ بناتا رہا اور لوگ بھی روزی ڈھونڈتے رہے۔ شور کم نہ ہوا، نہ ہی میکانکی عملے کی کوششیں کم ہوئیں۔ جب یہ موٹر چلتی تھی تو اس میں نصب بہت سے پائپ ہلتے تھے جن میں سے کسی میں تیل، کسی میں پانی اور کسی میں سے ہوا گزرتی تھی۔مشین کے بھیانک ارتعاش سے پائپوں کے جوڑوں میں رخنے پڑ جاتے۔ پانی اور تیل حسبِ توفیق فرش پر بکھر بکھر کر ایک غلیظ اور بدبودار قسم کے ماحول کو جنم دیتے رہتے۔کوئی چھ ماہ کا وقت بیت گیا مگر میکانکی عملے کی تمام کوشش ضائع جاتی رہیں ۔ ایک دن تو سیٹھ بھی مشین کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا اور کسی اچھی کمپنی کے ماہر عملے کو معائنے کے لیے بلا لیا۔ انہوں نے آ کر صورتحال دیکھی اور ایک ضخیم رپورٹ تیار کرکے سیٹھ کو پیش کی۔ اس رپورٹ کا لب لباب یہ تھا۔

“موٹر کو بدلا جائے اور نئی موٹر نصب کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ہماری کمپنی بہت بہتر خدمات فراہم کرسکتی ہے۔ مزید یہ کہ اس بات کی گارنٹی بھی دی جائے گی کہ مشین ایک معینہ مدت تک ایسے شور اور ارتعاش سے پرہیز کرے گی اور ناگہانی صورتحال میں انشورنس کی شرائط کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا”۔

جب یہ رپورٹ سیٹھ نے پڑھی تو اسے محسوس ہونے لگا کہ جب تک اس کمپنی کو اچھے خاصے مہنگے داموں یہ ٹھیکہ نہیں دیا جائے گا یہ لوگ رپورٹ میں بھی حقائق سے پردہ پوشی کریں گے۔ اسے اچانک غصہ آیا کہ “یہ کیسا کاروباری سلسلہ ہے یہ کیسی دنیا ہے! پھر اس کا غصہ ماند پڑنے لگا کیونکہ وہ خود بھی یہی کرتا رہا تھا اور یہی تو پیسہ بنانے کا ذریعہ تھا۔ ان گنت دولت کے بعد مزدوروں کو صرف اتنی تنخواہ دینا کہ اُن کا چولہا جل سکے اور اگر وہ ستم ظریفی ء  قسمت سے بیمار ہوں تو قرض کے پیچھے ذلیل ہوتے پھریں اور جو قرض لیتا ہے وہ پھر مسلسل قرض لیتا ہے جس سے غیرت مردہ ہو جاتی ہے۔  مردہ غیرت والا تو جیسے بھی حالات ہوں کام کرے گا! ذلیل ہوگا بے عزت ہوگا مگر کام کرے گا اور اگر وہ مجبور بھی ہو تو کیا کہنے۔”

یہ سوچ کر سیٹھ کو ہلکی سی شرم محسوس ہوئی مگر وہ پھر مطمئن ہوگیا کیونکہ اسے احساس ہوا کہ” آخر یہ بھی کم ہے کیا کہ اس کی فیکٹری میں اتنے لوگ کام کرتے ہیں اُن کے گھر کا چولہا جلتا ہے یہ الگ بات کہ جیسی حالت میں جلے۔”

جیسی حالت میں جلے! چاہے اُس میں اُن کی سفید اور سیاہ آنکھوں کے خواب جل جائیں! چاہے ان میں کی جوانیاں جل جائیں! چاہے زندگی جل جائے۔

زندگی چاہے جل ہی کیوں نہ جائے مگر جب تک وہ کام آ سکتی ہے اُس سے کام لینا چاہیے اور مشین ابھی اتنی بھی خوفناک حالت میں نہیں تھی کہ کام نہ آ سکتی۔ اگلی صبح سیٹھ نے اعلیٰ افسران کی میٹنگ میں حکم دیا کہ معمول کے مطابق مشین کے تمام پُرزوں کی آواز، ارتعاش اور درجہ حرارت کا معائنہ کیا جائے اور مشین کو ہر حال میں چلتے رکھا جائے فیکٹری بند نہیں ہونی چاہیے اور اگر کچھ ایسا ہوا تو ہرجانہ تنخواہیں ہونگی! جب یہ حکم ان دوچار افسران کی سماعت تک پہنچا جو کچھ حریتِ دل رکھتے تھے وہ بھی خاموش ہوگئے اور سوچنے لگے کہ “آخر ہم سے بولا کیوں نہیں جاتا! ہم کیوں یہ نہیں بتا سکتے کہ مشین کا وقتِ سکرات قریب ہے! ہائے خواہش نے کتنا بے ضمیر کر چھوڑا ہے! زندگی کے اس مقام پر ایسی اجرت کے ساتھ ہم خواہشات ہی تو پوری کر رہے ہیں ضروریات تو بہت کم پیسے میں بھی پوری کی جاسکتی ہیں۔”

ان دوچار افسروں میں سے صرف اظہر علی ڈاہری نے یہ سوچا تھا کہ ” خواہشات کا بے جا حصول مجھے بے ضمیر بنا گیا اور وہ جن کی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں۔”
وقت گزرتا گیا اور مشین چلتی رہی۔ مشین کے پاس ہر وقت ایک آپریٹر کھڑا رہتا تھا جو ہر تھوڑی دیر بعد مشین کو مختلف زاویوں سے دیکھتا اور واپس اپنی جگہ پر آ جاتا۔ اُس آپریٹر جس کا نام زاہد تھا، کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔ اُن آنکھوں میں بھی ایک مسلسل گُھر گُھر ایک مسلسل شور اور ایک بے ہنگم ارتعاش محسوس ہوا کرتا تھا۔ مگر یہ ارتعاش یہ گُھر گُھر اور یہ شور خاموش تھا بہت خاموش۔

خاموش چیزیں جتنی پُرسکون نظر آتی ہیں اتنی خطرناک ہوا کرتی ہیں جیسے میری خاموش محبت! جیسے دامان کی خاموش شام! جیسے میری جان تمہاری خاموش آنکھیں جو زندگی کے شور سے بھرپور ہیں جن سے چھلک اٹھنے والے آنسو بھی مجسم معصومیت ہیں اور آنسو تو ہوتے ہی معصومیت ہیں! ایک وقت کی معصومیت بھی ہے جس کے آنسو انسان ہیں جو خاموش ہیں مگر ظالم ہیں ایک شور سے بھرپور ہیں۔

زاہد کی سرخ آنکھوں میں   شور شاید کسی ماتم کا شور ہو یا میکانکی عملے کی بے بسی پر اٹھنے والے قہقہوں کا شور۔ کچھ ایسا لگتا تھا مگر کوئی جانتا نہیں تھا کیونکہ نہ اُس نے کبھی کسی سے بات کی تھی نہ اُس سے کسی نے پوچھا تھا۔ مشین کے بھیانک شور میں بھی اُس کی خاموشی اتنی طاقتور تھی کہ جب کبھی دورانِ معائنہ اعلی افسران نے اُس سے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تھی تو باقی لوگ بول پڑے تھے کہ یہ کچھ نہیں بولتا اور افسران بھی سادہ لوحی سے آگے چل دیے تھے۔ کسی نے یہ نہ سوچا تھا کہ شاید خاموشی کچھ جانتی ہو اور وہ لفظوں کے بغیر سہی مگر اشاروں سے بولنا چاہتی ہو کچھ بتانا چاہتی ہو۔

جب بھی ایسا ہوتا تھا زاہد کو غصہ آتا تھا مگر وہ کیا کرتا اُسے اندازہ تھا کہ خاموشی کچھ نہیں ہے اس کے کوئی دام نہیں اور خاص کر مجھ جیسی بے بس گہری خاموشی سے یوں بھی نظر چرا لی جاتی ہے کیونکہ وہ فضول محسوس ہوتی ہے! مگر اگلے ہی لمحے اُسے سکون محسوس ہونے لگتا کیونکہ یہ احساس بھی بدرجہ اتم زاہد میں موجود تھا کہ پوری فیکٹری میں وہی واحد آدمی ہے جس کے بل بوتے پر یہ مشین چل رہی ہے یہ میکانکی عملہ تو بے بس ہے یہ افسران تو بے بس ہیں! اس سوچ کے ساتھ ہی ایک گہرا تمسخر اُس کے رگ  وپے میں بے بسی کو چیرتا ہوا گزر جاتا وہ بے بسی جو اُسے اپنی خاموشی سے متعلق محسوس ہوا کرتی تھی۔

ایک رات مشین چلتے چلتے بند ہو گئی۔ ڈیوٹی پر موجود لوگ اونگھ رہے تھے مگر زاہد جاگ رہا تھا۔ اُس کی آنکھیں مشین کے پرزوں پر دوڑنے لگیں اور وہ “ہا ہے ہو آ ای” کرنے لگا۔ چند لمحوں تک کسی کو خبر نہ ہوئی مگر پھر لوگ جاگ اٹھے۔ میکانکی اور برقی عملے کے لوگ مشین کی طرف بھاگے اور جب وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ زاہد کچھ پائپوں کو ہتھیلی سے مار رہا ہے۔ یہ تیل کے پائپ تھے جن میں موجود تیل درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے جم چکا تھا جس کے باعث مشین کام چھوڑ چکی تھی۔ زاہد کے بالوں میں گرد جمی ہوئی تھی اور اس کی تیز نگاہیں مشین کے پرزوں پر گھوم رہی تھیں۔ یہ نگاہیں اتنی تیز تھیں کہ محسوس ہوتا تھا زاہد اپنی آنکھوں سے ہی فیکٹری کو چلا دے گا! مشین بند ہوئی تھی تو جیسے زاہد بھی اس کے ساتھ بند ہو گیا تھا۔ اُسے مشین سے ہرگز محبت نہیں تھی کیونکہ اس مشین کے وجود میں اس کا اپنا وجود دب چکا تھا۔ زاہد اب کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا کچھ بھی نہیں مگر اُس کا ایک دھڑکتا ہوا دل کبھی اس بات پر راضی نہ ہوا تھا کہ  اُسے  کچھ بھی محسوس نہ ہو۔ اُسے مشین سے آزادی بھی چاہیے تھی مگر وہ قید بھی بہت تھا۔ ایسی قید سے آزادی بھی نہیں ملتی جیسے محبت نارسا ہو جائے جسے انسان چھوڑ بھی نہ سکے اور جی بھی نہ سکے۔

میکانکی عملہ کام میں مصروف ہو گیا تھوڑے ہی لمحات کے بعد اُن میں سے ایک آدمی نے زاہد کو کندھے سے ہلایا۔ اس سے پہلے کہ زاہد سے سوال کیا جاتا زاہد کے ہونٹ ہلے ” ہا ہے ہو آ ای آں!” اور ٹوٹے ہوئے بکھرے ہوئے آواز کے سائے ابھرے۔ اتنے گھمبیر سائے کہ ہلانے والا ڈر گیا اور ایسے اشارے اُس نے زاہد کے جوان ہاتھوں سے برآمد ہوتے ہوئے دیکھے کہ جن میں شدید بیزاری، بے اعتباری اور بغاوت عیاں تھی۔ زاہد کی شرابور پیشانی سے پسینے کی چند بوندیں یوں ٹپکیں کہ جنہیں وہ مکھیاں سمجھا اور اُس نے بڑے زور سے ان مکھیوں کو ہٹانے کے لیے ہاتھ چلایا مگر اُس کی نظریں سامنے موجود شخص پر جمی رہی تھیں جن میں غصہ اور اضطراب عیاں تھا۔ زاہد کا کندھا ہلانے والے آدمی نے زاہد کا کندھا تھپکا اور پیچھے ہٹ گیا۔ زاہد دوبارہ مشین کے پرزے دیکھنے لگا اور میکانکی عملے کے لوگ بھی کام میں مصروف رہے۔ کوئی تین گھنٹے کی محنت کے بعد مشین چل پڑی کچھ دیر تو لوگ کھڑے دیکھتے رہے اور پھر چل دیے مگر زاہد وہیں کھڑا رہا خاموش اور بے چین!
میکانکی عملے کے لوگ جب واپس اپنے دفتر پہنچے تو زاہد کو ٹٹولنے والا آدمی اپنے ایک ساتھی سے کہنے لگا کہ
“زاہد کو کام کے وقت چھیڑنا مناسب نہیں ایسے لگتا ہے جیسے ابھی کافر سمجھ کر ہم پر ٹوٹ پڑے گا”
“ہاں صحیح بات ہے یہ جو کر رہا ہو اسے کرنے دیا جائے ایسے لوگ من چاہی آزادی سے محرومی کا ازالہ کیا کرتے ہیں” دوسرے نے پُر فکر انداز میں کہا۔
” میں نے دیکھا ہے اسے یہ اکثر ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بھی یہیں کھڑا رہتا ہے کیا اسے اضافی پیسے ملتے ہیں۔”
زاہد کو ٹٹولنے والے کی اب تک حیرانی قائم تھی۔۔
“ہاں پیسے تو ملتے ہیں مگر اتنے پھر بھی نہیں ملتے کہ جس سے کم ترین درجے کی خواہش ہی پوری کر لی جائے اور ایک بات سنا دوں اور وہ یہ ہے کہ سب سے کم درجے کی خواہش بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ آدمی سکون سے جی جائے” دوسرے نے ہاتھ میں اوزار تھام کر فلسفیانہ انداز میں کہا۔۔
“مگر یہ اتنا کام کیوں کرتا ہے؟  کیا اس فیکٹری سے باہر اس کے لیے زندگی کی سبھی رعنائیاں ختم ہو چکی ہیں” سائنٹیفک فلسفی سے پھر سوال ہوا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply