عہد نامہ قدیم/مبشر حسن

The Old Testament
اندازاً 1500 قبل مسیح
عقائد کے اساسی صحائف کے سلسلے میں عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید  دو بالکل مختلف کتا بیں ہیں۔ عیسائی کلیسیا کے مطابق عہد نامہ قدیم ہمیں جدید کی جانب لے جاتا ہے۔ بائبل کے کچھ معتقد آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں عہد ناموں پر مشتمل جلد خدا کا پیغام اور تخلیق کا بالکل سچا بیان بھی ہے۔ یہ چیز عقیدے کی تاریخ کا حصہ تو ہے مگر دانشورانہ تحقیق کا نہیں۔ لفظ بائبل یونانی لفظ biblia یعنی ”کتابیں” سے ماخوذ ہے۔ عبرانی زبانی میں کتابوں کے لیے لفظ Sepharim ہے ۔ بائبلی ادب کے لیے عبرانی لفظ تمام اصطلاحات کی نسبت قدیم ترین ہے ۔
سیفا ریم کو عبرانی میں عموماً تناخ (Tanakh) کہتے ہیں۔ لفظ تناخ ہمیں اس میں شامل چیزوں کے بارے میں یاد دِلاتا ہے : توریت (شریعت)، نیویم (پیغمبر) اور کیتو ویم ( تحریریں ) یعنی Ketuvim, Neviim, Torah یہ صرف عیسائیوں کے لیے عہد نامہ قدیم ہے۔ اس کی تدوین یہودیوں نے تقریباً ایک ہزار سال کے دوران کی اور اس میں حکایات، قصے، تاریخ ، شاعری ، ضرب الامثال، دعا ، شریعت، گنتی اور پیشگوئی شامل ہے۔ یہ اب تک مغرب میں سب سے زیادہ مشہور کتاب ہے اور اس نے نہایت نیک اور بد دونوں قسم کے افعال کو تحریک دلائی ۔ سترھویں صدی میں ڈچ ۔ پرتگیزی یہودی فلسفی سپینوزا نے اس مجموعہ تحریر پر تاریخی اور موزوں تنقید کی۔ جس کے نتیجے میں اس کے ہم عقیدہ یہودیوں نے مذہب سے خارج کر دیا۔ بائبل کے چند ایک حصوں کے سوا تمام متن عبرانی میں تھے۔ بائبل کی موجودہ شکل اختیار کرنے کی تاریخ بہت پیچیدہ اور نہایت متنازعہ بھی ہے۔ عیسائی عہد سے قبل اس مجموعے کا ترجمہ یونانی میں ہو چکا تھا اور یہ بالخصوص یونانی زبان بولنے والے یہودیوں کے لیے تھا۔ اس کے بعد تقریباً 30 عیسوی میں فلسطین میں مخصوص واقعات کے باعث عیسائی اسے اپنے لیے موزوں سمجھنے لگے ۔ دوسری صدی عیسوی میں عیسائیوں کے ہاں اس کی واحد مد مقابل سینو پے کے عظیم” کافر” مارسیون کی تحریریں تھیں جو 160 ء میں فوت ہوا اور جس کی غناسطی قسم کی تحریروں کو تلف کر دیا گیا۔
پہلی صدی کے یہودی فریسی جوزیفس کی تحریروں سے مورخین کو بہت مدد ملی۔ وہ ایک رومن شہری تھا۔ اس نے اپنا یہودی عقیدہ کبھی نہ چھوڑا ۔ ( وہ اپنی چالاکی کے باعث جان بچانے کے قابل ہو سکا۔ اس نے پیشگوئی کی تھی ویسپاسین شہنشاہ بنے گا ، لہذا ویسپاسیئن نے صلہ رحمی کی ۔ ) اسے روم میں رہنے اور لکھنے کی اجازت مل گئی اور اس نے اپنی ” یہودی جنگیں 77ء میں اور یہودیوں کے قدیم ریکارڈ ز 94 ء میں مکمل کی ۔ جوزیفس ایک جانی پہچانی کہانی سے آغاز کرتا ہے! اس دور میں سدومی (اہل سدوم ) اپنی دولت اور خزانوں کی وجہ سے مغرور ہو گئے :
وہ انسانوں کے ساتھ غیر منصفانہ اور خدا کے معاملے میں ناپاک ہو گئے ، یہاں تک کہ وہ اس کی عطا کردہ نعمتوں کا ذکر کرنا بھی بھول گئے ۔ انہوں نے مسافروں سے نفرت کی اور سدومی روایات کی گمراہی اختیار کی ۔ چنانچہ خدا ان سے بہت نا خوش ہوا۔
چوتھی صدی عیسوی کے آخری عشرے میں پائی جانے والی گڑ بڑ اور تنازعات نے سینٹ جیروم (420-342 ء ) کے لیے یہ لازمی بنا دیا کہ وہ ایک لاطینی ترجمہ کرے۔ اس میں چار انا جیل کے ۔ بارے میں سینٹ جیروم کی اپنی رائے بھی شامل تھی ۔ اسے ولگیٹ (Vulgate) کا نام دیا گیا اور چھٹی صدی میں واحد جلد میں اکٹھا کیا گیا ۔ لیکن ولگیٹ کا قدیم ترین معلوم مسودہ ‏Jarrow کے مقام پر راہبوں نے تحریر کیا تھا۔ اس کی تین نقول تیار کی گئیں جن کے لیے 1500 بچھڑوں کی کھالوں کی ضرورت پڑی۔ سیولفرتھ 716ء میں یہ نسخہ روم میں گریگوری دوم کو پیش کرنے جا رہا تھا کہ راستے میں ہی مر گیا۔
انگریزی زبان میں بائبل کے اولین تراجم اینگو ساکسن ادوار میں کیے گئے، لیکن کوئی مکمل اینگلوساکسن بائبل موجود نہیں ۔ اولین مکمل یا تقریباً مکمل ورژن Wycliffet“ کہلاتے ہیں کیونکہ لولارڈ ڈز کے رہنما اور انگریزی فلسفی جان ویکلف کو ان کا الہام ہوا۔ لولارڈ ز اولین انگریزی بولنے والا گروپ تھا جس نے کیتھولک کلیسیا پر اعتراضات اٹھائے ۔ زیادہ تر ترجمہ نثر نگار ولیم ‏Tyndale (1494ء تا 1536 ء) نے کیا جو 1611ء کے مقبول عام مستند متن کی بنیاد بنا۔ ولیم بروسلز کے نزدیک Vilvorde کے مقام پر کھال کھینچنے کے بعد جلا دیا گیا کیونکہ اس نے بائبل کا ترجمہ کیا تھا۔
انگریزی بولنے والے علاقوں میں آج بھی بائبل سب سے زیادہ مقبول اور عزیز رکھی جانے والی کتاب ہے۔ جہاں تک قارئین کا تعلق ہے تو جدید نئی انگلش بائبل ایک نا قابل اعتبار جانشین ہونے کے ساتھ مذہب کے تمام جو ہر کی توہین بھی ہے۔ ایملی ڈکنسن نے تقریباً 1882 ء میں ایک نظم لکھی جس میں عیسائی بائبل کے متعلق لوگوں کے انداز فکر کا ذکر کیا:
بائبل ایک قدیم جلد ہے.
جسے نا معلوم آدمیوں نے لکھا
پاک روحوں کے کہنے پر ،
موضوعات ۔۔ بیت اللحم ،
عدن ۔۔قدیم مسكن ،
شیطان بریگیڈیئر
یہوداہ گناہگار عظیم .
گناہ … ایک نمایاں چٹان
دیگر نے لازماً مدافعت کی ،
یقین رکھنے والے لڑکے بہت تنہا ہیں
کچھ دوسرے لڑکے کھوئے ہوئے ہیں ،
بس ایک Warbling قصہ گو کی کہانی ہوتی ،
تمام لڑ کے آتے اور فیئس کا خطبہ مسحور کن تھا ،
اس میں لعنت ملامت نہیں تھی ۔بلا شبہ اور فیئس افسانوی پاگان ہے۔ ایک یونانی گویا جو اپنے بربط کے ذریعہ مویشیوں اور حتیٰ کہ پتھروں کو مسحور کر لیتا تھا اور اس کا سر ٹکڑے ہونے کے بعد بھی گاتا رہا نظم میں واضح طور پر بائبل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ اس میں گناہگاروں کی جانب عیسائی خدا کی بجائے یہودی خدا والا بے رحم رویہ اختیار کیا گیا ہے ۔ ایملی ڈکنسن اس امر پر نوحہ کناں تھی کہ کتاب مقدس مسحور کن کی بجائے ملامتی انداز میں تحریر کی گئی تھی۔ وہ افسوس کا اظہار کرتی ہے کہ عہد نامہ قدیم کا غضبناک یہودی خدا اور فیئس جیسا نرم خو نہ بن سکا۔
درحقیقت ہمارے عہد میں تحقیق گہری ہونے کے نتیجہ میں عموماً کہا جاتا ہے کہ عیسائی مذہب یہودی مذہب کی ہی ایک صورت ہے۔ یہاں تک کہ رومن کیتھولک چرچ نے اپنے حقیقی اصولوں کو چھوڑتے ہوئے (حالیہ ادوار میں ) یہودیوں کو مسیح کے صلیب پر چڑھانے کے الزام سے بری کر دیا ۔
اس سارے معاملے نے جدید کلیسیائیوں کو نہایت غیر منطقی رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے جو آج کے دور میں بہت عجیب اور غیر موزوں ہے۔ اس کے باعث روایت پسندوں اور حقیقت پسندوں کے درمیان بھی شدید لڑائی ہوئی ۔ یہ تنازعہ عموماً گھٹیا عقلی سطح پر گھسے پٹے دلائل کے ساتھ جاری رہا۔ خطرہ یہ ہے کہ کلیسیا سیکولر ہو جائے گا لیکن یہ ساری تاریخ میں کافی سیکولر رہا ہے۔ مذہب ہمیشہ سے ہی خدا کی تعظیم اور سیاست کا ایک غیر موزوں ملغوبہ ہے۔ قابل معلوم حقائق بھی مذہب کے پیروکاروں کی راہ میں حائل نہیں ہوتے ، کیونکہ مذہب تلاش حق کی جانب دلالت کرتا ہے اور کسی کو بھی صداقت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اگر سچائی اہل مذہب کے منصوبوں میں مداخلت کرے تو وہ خوفزدہ ضرور ہوتے ہیں ۔
تنقیدی رویہ کو تر جیح نہ دینے والوں کے ساتھ دلائل بازی کرنا خطرناک اور غیر دانشمندانہ ہے، لیکن ایسے لوگوں کے ساتھ استدلال موزوں ہے جو حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے تنقیدی ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں ۔ حقائق اتنی دیر تک ہی اہم رہتے ہیں جب تک کہ انہیں نظر انداز نہ کر دیا جائے ۔ آج عیسائیوں کے لیے بائبل کی اصل اہمیت اس کے وجدانی اور ادبی وصائف کی وجہ سے ہونی چاہیے۔ تاریخ کے چند غیر معمولی افراد میں سے ایک حضرت مسیح کسی طرح بھی فوت نہیں ہوئے۔ لیکن دو ہزار سال سے اختیار کی ہوئی عیسائیت مردہ ہو گئی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ عیسائیت صرف اپنے ماضی کے مخصوص ادوار میں ہی زندہ ہے۔ عیسی مسیح اور ان   کے نام پر جاری مذہب کے درمیان واضح امتیاز کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ نہ صرف ایک یہودی بلکہ غناسطی بھی تھے۔ غناسطیت نے ہی عیسائی کلیسیا کو غناسطی مخالف بنا دیا ۔ اس نے عہد نامہ قدیم میں بیان کردہ یہودی مذہب کی وحدانیت کو شدت سے مسترد کر دیا ۔ جس دور میں مارسیون نے چیلنج دیا تو معدودے چند سچے عیسائی ہی باقی رہ گئے ۔
آج کل ہم جسے عہد نامہ قدیم کہتے ہیں۔ یعنی خمسہ سوئی یا پہلی پانچ کتب .. وہ یہودی مذہب کا سنگ بنیاد ہے۔ عیسائی کلیسیا کا اسرائیل کے جائز وارث ہونے کا دعویٰ غیر تاریخی اور گمراہ کن ہے۔ (عہد نامہ جدید بہت مختلف معاملہ ہے ) ۔ خمسہ موسیٰ پر زور دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کوہ سینا پر موسیٰ کے ذریعہ یہودی خدا کا نہایت براہ راست مکاشفہ شامل ہے۔ لیکن اس حقیقت نے بہت سے مسائل کھڑے کیے کہ دراصل یہ ایک مخصوص عوام سے خطاب ہے۔ عیسائی عقیدے میں پرورش پانے والا بدترین قسم کا شخص یا عیسائی بدستور ایک یہودی خدا کو موزوں بنانے کی کوشش کرتا ہے جس کی انہیں بطور اینٹی یہودی خدا عبادت کرنے کی تعلیم دی گئی تھی ۔ دوسری طرف عیسائیوں کے ہاں یہ قابل فہم احساس موجود رہا ہے : ” خدا نے یہودیوں کو کیسے منتخب کر لیا ۔ عیسائی کلیسیا کے اندر ایک غناسطیت نے ہی مذہب کو ایک داخلی معاملہ بنایا اور اسے سختی سے کچل دیا گیا؟ قرون وسطیٰ میں جب لوگوں نے یہودی مذہب کی تفسیر کرنے کی کوشش شروع کی تو زیادہ حقیقت پسند، زیادہ شہوانی قبالہ نے انسانوں کے ذریعہ خدا کی نجات کو بھی خدا کے وسیلہ سے انسان کی نجات جتنا ہی اہم بنا دیا۔ انجام کار جدید استدلال پسند یہودیوں نے اسے بھی تو ہمات پرستی کے طور پر مسترد کر دیا۔ لیکن دونوں ہی مسالک موجودر ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply