خیر مُکالمہ ایک کوشش ہے، جس کے بہت سے پہلو ؤں میں سے ایک پہلو یقین پیدا کرنا بھی ہے۔ اگر میں کامیابی کا کہوں تو ابھی تو سفر کا آغاز ہے، کئی بار مایوسی بھی طاری ہوتی ہے مگر پھر کسی کا ایک جملہ دوبارہ امید کی جوت جگا دیتا ہے۔مُکالمہ نے بہت سے نئے رائٹرز متعارف کروائے، دوستو کو مذہبی، مسلکی اور سیاسی وابستگیوں سے بے نیاز ایک پلیٹ فارم دیا، سنسنی خیزی کے بغیر اپنی جگہ بنائی اور اہم ایشو پر سوچ کو پروان چڑھایا، سو کم از کم سفر رائیگاں تو نہیں ہے۔ ہاں البتہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت باقی ہے
اسی طور ہم اپنی مذہبی، مسلکی اور سیاسی عصبیت کے ہاتھوں بھی مجبور ہیں۔ ہمارا مذہب، ہمارا مسلک، ہماری سیاسی پارٹی سب سے اچھی ہے اور ہر برائی دوسرے میں ہے یا ہمارے خلاف سازش ہے۔
اسی وجہ سے ہم مذہب اور سیاست کے فوائد سے بہت حد تک فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ وہ جمہوریت جو دنیا میں مسائل کا حل بنی، ہمارے ہاں بذات خود اک مسئلہ ہے۔ مذہب، ہماری اصلاح کرنے میں ناکام رہا ہے اور الٹا ہم مذہب کی بدنامی کا باعث بن چکے ہیں۔ شاید قبائلی عصبیت سے جان چھڑائے بنا فوائد کا حصول ممکن نہیں ہو گا
میری خوش قسمتی ہے کہ میں جسٹس قیوم کا شاگرد تھا۔ سو شروع سے ہی محنت کی عادت پڑ گئی۔ دوسرا اگر میں آٹھ بجے سے پہلے گھر چلا جاتا تو والد کو لگتا تھا کہ یہ محنت نہیں کر رہا اور میرا نام ڈبوئے گا۔ سو مجبوراً بھی محنت کرنا پڑی اور جسٹس قیوم نے پالش کیا۔ یہاں ایک جملہ شاید غیر متعلقہ مگر اہم عرض کروں کہ مجھے لگتا ہے کہ زندگی میں بہت کچھ اچھا میں نے بس اپنے والد کو خوش کرنے کے لیے کیا اور پھر وہ فطرت ثانیہ بن گیا۔ سو کسی بھی رشتہ کو خوش کرنے کے لیے اچھے کام اور محنت کی عادت ڈالنا اچھا فارمولا ہے۔
سائرہ ممتاز:میں اس بات سے سو فیصد متفق ہوں والدین کو خوش کرنے کے لیے اپنی عادت بدل کر بھی اگر کام کرنا پڑے تو کیجئے بعد میں یہ سعادت بن جاتا ہے۔
انعام رانا:پاکستان میں سب سے پہلے قانون کی تعلیم کو بدلنا ہو گا۔ دوسرا ہم جو دھڑادھڑ وکیل پیدا کر رہے ہیں یہ سخت نقصاندہ ہے۔ ہمیں کوالٹی پر زور دے کر کوانٹیٹی کم کرنا ہو گی۔ پھر ضروری ہے کہ وکلا اور جج پروفیشنل کورسز کریں۔ جیسے یہاں وکیل کو ہر سال سولہ گھنٹے کے پروفیشنل کورس کرنا ہوتے ہیں۔ مزید ازاں بار کونسلز کو سیاست سے نکال کر پروفیشنل بنانے کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا یقیناً اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ابتدا تو شعور و آگہی کی مہم سے ہو اور پھر مقتدر صاحبان سے رابطہ کر کے اصلاحات لانے کی بات کی جائے۔ ہمارا نظام عدل بدبودار ہو چکا ہے اور عوام اب خود انصاف کرنے کی بات کرنے لگے ہیں۔ اس سے معاشرہ مزید برباد ہو گا۔ اس وقت نظام عدل ہی پاکستانی معاشرے کو بچانے میں اہم ترین کردار ادا کر سکتا ہے مگر اس کے لیے پہلے اسے اوورآل کرنا ہو گا۔
انعام رانا: مُکالمہ کا ہر فرد اہم تھا اور ہے۔ موسیو کا ایک مقام ہمیشہ رہا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جو فقط میری دوستی پر یقین کر کے اندھیرے میں کود گیا۔ مگر ہر ساتھی ہر لکھاری ہر قاری اس سفر کا حصہ دار تھا اور ہے۔ وہ لوگ جو کبھی تھے اور اب نہیں ہیں، وہ بھی بہت اہم تھے اور اپنے وقت میں اپنے حصے کا کام بہت بہتر انداز میں کر کے گئے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر رابعہ خرم، وہ کچھ عرصہ ایڈیٹر رہیں پھر ان کو علیحدہ ہونا پڑا۔ مگر جتنا عرصہ وہ تھیں، انتہائی اہم کنٹریبیوشنز کیں بلکہ وہ ابتدائی ایڈیٹر تھیں تو مُکالمہ کی شکل شاید وہ نہ بن پاتی ،اگر وہ نہ ہوتیں۔
ڈاکٹر رابعہ خرم:الله اس بہو کے حال پر رحم کرے جس کے سر پر تین تین ساسیں اپنا آپ منوانے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھی ہوں . بہادر سسر کون ہے.۔۔
زندگی میں ناکامیاں ایک سے زیادہ ہوئیں۔ مگر انھیں میں نے ہمیشہ کامیابی کی جانب سفر کا ایک اہم پڑاؤ سمجھا اور مایوس نہیں ہوا۔ وقتی افسردگی ہوتی ہے، مگر پھر کوئی وزن سے خالی شاعری کر کے ڈپریشن دور کر لیتا ہوں اور سفر دوبارہ شروع کر دیتا ہوں۔
سائرہ ممتاز:خیر یہ معاشقوں والی بات نے کافی مایوس کیا میں تو آپ کو اس معاملے میں بھی موحد سمجھتی تھی پر آپ نے مشرکوں والا کام ہی کیا ۔
ظفیر اقبال سیال:میرے بھی سارے معاشقے میری بڑی بہن کو پتا چل جاتے تھے۔ اور پھر جو تواضع ہوتی تھی، آہاہا۔۔۔ لیکن
انعام رانا:جو انسان زندگی بھر ایک ہی عشق کرے بہت خطرناک ہوتا ہے
ظفیر اقبال سیال:انعام بھائی اپنے مشاہدات اور تجربات کی بناء پر آپ کیا سمجھتے ہیں پاکستانی معاشرے کی بہتری کے لیے کون کون سے اقدام فوری اٹھانے ناگزیر ہیں؟
1- نظام تعلیم بدلنا ہو گا
2- نظام تعلیم میں طبقاتی تقسیم ختم کرنا ہو گی
3۔ مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ بنانا ہو گا۔ مسلم اکثریتی ملک میں اسلام کی اقدار کے خلاف قانون سازی ہو ہی نہیں سکتی۔ مگر ہر بات پر مذہب کو استعمال کرنے کو بند کرنا ہو گا۔
– 4ہمیں سیاستدانوں سے زیادہ ریفارمرز تلاش کرنا ہوں گے۔ ہمارے معاشرے کو لیڈر کی نہیں ریفارمر کی ضرورت ہے۔
ظفیر اقبال سیال:کیا ایک تھوڑا سا تیکھا سوال پوچھ سکتا ہوں؟
انعام رانا: جی ،بالکل!
سائرہ ممتاز:یہ بتائیے ، مکالمہ کانفرنس دوبارہ کیوں نہیں ہوئی؟ کوئی خاص وجہ یا وجوہات ہیں؟
سائرہ ممتاز:اب کچھ مادری زبان کی طرف آتے ہیں کسی بھی انسان کی زندگی میں مادری زبان، تہذیب و ثقافت کیا اہمیت رکھتے ہیں اور ہمیں اپنی اقدار بچانے کے لیے اس وقت کن اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔
انعام رانا:مادری زبان بہت اہم ہے۔ مگر افسوس ہم مادری زبان پر شرمندہ ہیں، کم از کم پنجاب والے۔آپ یہی دیکھیے کہ میں نے پنجابی اپنی دادی سے سیکھی، میرے والدین بچپن میں ہم سے پنجابی بولنا شاید اسے ہماری کلاس کی زبان نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہ اور بات کہ پچاس سے اوپر جاتے ہی میرے والد سوائے پنجابی بولتے ہی کچھ نہ تھے اور میں چونکہ عادت پڑ چکی تھی تو ساری دنیا سے پنجابی بولتا ہوں مگر والدین سے نہیں بول پاتا۔ہمیں اپنا یہ احساس شرمندگی ختم کرنا ہو گا۔ ایک مزاحیہ جملہ عرض کروں کہ میری دلی خواہش ہے کہ مجھے کسی سکھنی سے محبت ہو جائے۔ کیونکہ جو عشق اپنی زبان میں ہوتا ہے شاید وہ سب سے سچا ہوتا ہے، تصنع سے پاک۔
لا علم ہو۔اب دیکھیے ہم میں بہترین انڈرسٹینڈنگ ہے مگر میں آپ کے متعلق کچھ خاص نہیں جانتا سوائے جو آپ خود اپنے متعلق لکھ چکے۔اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس انٹرویو سے آپ کی ذات شخصیت کردار پروفیشن مشاغل بچپن لڑکپن موجودہ زندگی کے پہلو مختصر اً سامنے آتے اس طرح قارئین کے ذہن میں آپ کی شخصیت کا خاکہ سامنے آجاتا۔
انعام رانا:میں آپ کا ممنون ہوں کہ آ پ نے مجھے اس قابل سمجھا میں بس اتنی عرض کر وں گا۔۔
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں