انعام رانا سے مکالمہ۔۔سائرہ ممتاز/انٹر ویو

انعام رانا: السلام علیکم !وقت کے تفاوت کی وجہ  سے کچھ تاخیر ہوئی،معذرت خواہ ہوں!
سائرہ ممتاز:  (سلام کا جواب دیتے ہوئے) و علیکم السلام ، خیر خیریت سے تو ہیں ہی۔۔ یہ وقت بھی کیا عجب ہے کتنے سال ہوئے آپ کو برطانیہ میں؟
انعام رانا:جی الحمداللہ۔ مجھے برطانیہ میں گیارہ سال ہو گئے۔ یعنی زندگی کا ایک حصہ!
 سائرہ ممتاز:اگر عارفہ رانا ہوتیں  تو یہ انٹرویو لائیو ہوتا لیکن مجھے افسوس ہے، فی الحال تو آپ کو لکھنا ہی پڑے گا، ویسے اس طرح کا انٹرویو پہلے کبھی نہیں دیا ہوگا آپ نے ۔
انعام رانا:جی بالکل پہلا تجربہ ہے۔ مگر زندگی کا ہر پہلا تجربہ مزیدار ہوتا ہے۔ویسے بھی لکھتے ہوئے انسان شاید خود کو زیادہ اچھا کمیونیکیٹ کر سکتا ہے۔
 سائرہ ممتاز: خلیل جبران کہتا ہے قابل رحم ہے وہ قوم جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں لیکن دل یقین سے خالی ہیں۔ مکالمہ کیا یہ سوچ بیدار کرنے میں کامیاب ہوا ہے ؟
انعام رانا:خلیل کو ہمیشہ بہت سراہا گیا ہے،  یقیناً  وہ دانشمند انسان تھا۔ عقائد کا ہونا مگر یقین کی غیر موجودگی یقیناً  ایک dilemma ہے۔
خیر مُکالمہ ایک کوشش ہے، جس کے بہت سے پہلو ؤں  میں سے  ایک پہلو یقین پیدا کرنا بھی ہے۔ اگر میں کامیابی کا کہوں تو ابھی تو سفر کا آغاز ہے، کئی بار مایوسی بھی طاری ہوتی ہے مگر پھر کسی کا ایک جملہ دوبارہ امید کی جوت جگا دیتا ہے۔مُکالمہ نے بہت سے نئے رائٹرز متعارف کروائے، دوستو کو مذہبی، مسلکی اور سیاسی وابستگیوں سے بے نیاز ایک پلیٹ فارم دیا، سنسنی خیزی کے  بغیر  اپنی جگہ بنائی اور اہم ایشو پر سوچ کو پروان چڑھایا، سو کم از کم سفر رائیگاں تو نہیں ہے۔ ہاں البتہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت باقی ہے
( سائر ہ ممتاز:یقیناً ہر کامیاب انسان دعوے سے دور اور کوشش سے نزدیک رہتا ہے یہی کامیابی کا راز ہے)بہت سے ساتھی آپ سے  ہمکلام ہونے کے خواہشمند ہیں ،آپ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں !
اچھا رانا صاحب ہمارے ملک میں سیاست اور مذہب دو ایسے مہرے بن چکے ہیں جن کی بنیاد پر اس ملک میں کسی بھی وقت کسی کے ساتھ کچھ بھی کیا جا سکتا ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں ہم  بطور قوم، مذہب اور سیاست کی اخلاقی اقدار آخر کس طرح سیکھ سکیں گے
 انعام رانا:یہ سوال ذرا تفصیل طلب ہے،میرے خیال سے ہم ذہنی طور پر اب بھی ہزاروں سال قبل کے قبائلی معاشرے میں زندہ ہیں۔ اور اسی رویے کی جھلک ہمارے مذہبی، سیاسی اور معاشرتی رویے  میں بھی جھلکتی ہے۔ مثلا ً راجپوتوں کو لیجئے،یہ ہزاروں سال قبل ہماری ایک قبائلی شناخت تھی۔ اکیسویں صدی میں تمام تر تعلیم کے باوجود اب بھی ہم خوامخواہ اس پہ نازاں ہیں۔ انعام اگر رانا کے بجائے ملک یا سید یا انصاری یا کچھ بھی ہوتا، تب بھی اس کی شخصیت اور تحریر پر کیا فرق پڑتا ؟
اسی طور ہم اپنی مذہبی، مسلکی اور سیاسی عصبیت کے ہاتھوں بھی مجبور ہیں۔ ہمارا مذہب، ہمارا مسلک، ہماری سیاسی پارٹی سب سے اچھی ہے اور ہر برائی دوسرے میں ہے یا ہمارے خلاف سازش ہے۔
اسی وجہ سے ہم مذہب اور سیاست کے فوائد سے بہت حد تک فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ وہ جمہوریت جو دنیا میں مسائل کا حل بنی، ہمارے ہاں بذات خود اک مسئلہ ہے۔ مذہب، ہماری اصلاح کرنے میں ناکام رہا ہے اور الٹا ہم مذہب کی بدنامی کا باعث بن چکے ہیں۔ شاید قبائلی عصبیت سے جان چھڑائے بنا فوائد کا حصول ممکن نہیں ہو گا
سائرہ ممتاز:میں نے تو خیر ہلکی پھلکی تفریح کی غرض سے یہ سوال پوچھا تھا،  لیکن  آپ کی بات سو فیصد درست ہے، لیکن کیا یہ صرف عصبیت ہے؟ یا اس کے علاوہ کچھ اور محرکات بھی ہیں جو یقیناً  ہیں؟
 انعام رانا:عصبیت ایک اہم پہلو ہے جو ہمیں مذہب اور سیاست کی اخلاقی اقدار سے فائدہ نہیں اٹھانے دیتی۔ دیگر وجوہات بھی موجود ہیں یقیناً  مگر ان کی اہمیت یا ان کا جرم اس قبائلی سوچ سے کم ہے۔
 عارفہ رانا(سائرہ ممتاز کی ساتھی،انٹرویو میں شامل ہوتے ہوئے)
میں وکیل ہوں اور ویسے ہی سوال کروں گی۔ پہلے تو یہ بتائیے کہ ۔۔
پریکٹس کہاں سے شروع کی۔ پاکستان میں قانون تھوڑی بہت توڑ پھوڑ کر کے انگلستان والے ہی استعمال ہوتے ہیں ، کیا فرق ہے یہاں اور وہاں کی پریکٹس میں؟
انعام رانا:میں نے بہت کم عمری میں 2003ء میں وکالت شروع کی۔ میرے والد جج تھے تو گھر کا ماحول شروع ہی سے “قانونی” تھا۔ میرے والد مجھے وکیل نہیں بنانا چاہتے تھے مگر مجھے ہمیشہ سے وکیل بننے کا شوق تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ جو آزادی اور جو سماج خدمت کی طاقت وکیل کے پاس ہے وہ کم  ہی دیگر پیشوں میں ہے۔ سو شاید والد مرحوم کی واحد نافرمانی یہی کی کہ وکیل بنا۔
میری خوش قسمتی ہے کہ میں جسٹس قیوم کا شاگرد تھا۔ سو شروع سے ہی محنت کی عادت پڑ گئی۔ دوسرا اگر میں آٹھ بجے سے پہلے گھر چلا جاتا تو والد کو لگتا تھا کہ یہ محنت نہیں کر رہا اور میرا نام ڈبوئے گا۔ سو  مجبوراً بھی محنت کرنا پڑی اور جسٹس قیوم نے پالش کیا۔ یہاں ایک جملہ شاید غیر متعلقہ مگر اہم عرض کروں کہ مجھے لگتا ہے کہ زندگی  میں بہت کچھ اچھا میں نے بس اپنے  والد  کو خوش کرنے کے لیے کیا اور پھر وہ فطرت ثانیہ بن گیا۔ سو کسی بھی رشتہ کو خوش کرنے کے لیے اچھے کام اور محنت کی عادت ڈالنا اچھا فارمولا ہے۔

سائرہ ممتاز:میں اس بات سے سو فیصد متفق ہوں والدین کو خوش کرنے کے لیے اپنی عادت بدل کر بھی اگر کام کرنا پڑے تو کیجئے بعد میں یہ سعادت بن جاتا ہے۔

عارفہ رانا:چونکہ آپ دو الگ الگ لیگل سسٹم کو جانتے ہیں ان میں کام کر چکے ہیں۔( پاکستان کے لیگل سسٹم پر کم ہی لوگوں کو اعتماد ہے ) ۔ پاکستان کا جسٹس سسٹم کس حد تک سیاست کا شکار ہے۔ اور اس کی درستی کے کوئی امکانات ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو اس میں سوشل میڈیا کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ کیونکہ آج کل تحریک چلانے کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے؟
انعام رانا:پاکستان میں سب سے پہلے قانون کی تعلیم کو بدلنا ہو گا۔ دوسرا ہم جو دھڑادھڑ  وکیل پیدا  کر رہے ہیں یہ سخت نقصاندہ ہے۔ ہمیں کوالٹی پر زور دے کر کوانٹیٹی کم کرنا ہو گی۔ پھر ضروری ہے کہ وکلا اور جج پروفیشنل کورسز کریں۔ جیسے یہاں وکیل کو ہر سال سولہ گھنٹے کے پروفیشنل کورس کرنا ہوتے ہیں۔ مزید ازاں بار کونسلز کو سیاست سے نکال کر پروفیشنل بنانے کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا یقیناً  اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ابتدا تو شعور و آگہی کی مہم سے ہو اور پھر مقتدر صاحبان سے رابطہ کر کے اصلاحات لانے کی بات کی جائے۔ ہمارا نظام عدل بدبودار ہو چکا ہے اور عوام اب خود انصاف کرنے کی بات کرنے لگے ہیں۔ اس سے معاشرہ مزید برباد ہو گا۔ اس وقت نظام عدل ہی پاکستانی معاشرے کو بچانے میں اہم ترین کردار ادا کر سکتا ہے مگر اس کے لیے پہلے اسے اوورآل کرنا ہو گا۔
سائرہ ممتاز:مکالمہ کی ابتداء سے اب تک کون سے لوگ ایسے ملے جن کی وجہ سے آپ کو لگا ہو کہ اگر یہ نہ  ہوتے تو آپ اس مشن میں کامیاب نہیں ہو  سکتے تھے؟

 انعام رانا: مُکالمہ کا ہر فرد اہم تھا اور ہے۔ موسیو کا ایک مقام ہمیشہ رہا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جو فقط میری دوستی پر یقین کر کے اندھیرے میں کود گیا۔ مگر ہر ساتھی ہر لکھاری ہر قاری اس سفر کا حصہ دار تھا اور ہے۔ وہ لوگ جو کبھی تھے اور اب نہیں ہیں، وہ بھی بہت اہم تھے اور اپنے وقت میں اپنے حصے کا کام بہت بہتر انداز میں کر کے گئے۔   مثال  کے طور پر  ڈاکٹر رابعہ خرم،  وہ کچھ عرصہ ایڈیٹر رہیں پھر ان کو علیحدہ ہونا پڑا۔ مگر جتنا عرصہ وہ تھیں، انتہائی اہم کنٹریبیوشنز کیں بلکہ وہ ابتدائی ایڈیٹر تھیں تو مُکالمہ کی شکل شاید وہ نہ   بن پاتی  ،اگر وہ نہ  ہوتیں۔

اسی طرح  جو  باقی لوگ ہیں وہ مشعل لیے آگے کو دوڑ رہے ہیں۔ البتہ اب سمجھیے کہ مُکالمہ سائیٹ ا حمد  رضوان اور  اسماء     ہی چلاتے ہیں۔ میں، موسیو یا حافظ صاحب تو بس وہ ساس ہیں جو کھانا پکاتی بہو کو خوامخواہ کی ہدایت دیتی ہے تاکہ اسے احساس رہے کہ ساس ابھی زندہ ہے۔
سائرہ ممتاز:(مسکراتے ہوئے)جی ڈاکٹر صاحبہ اور موسیو کے علمی اور فکری کام  کو میں خود بھی مقدم رکھتی ہوں پھر آپ کا تو کام کے حوالے سے براہ راست رابطہ بھی تھا۔اسماء بھی بلاشبہ بہت سلجھی ہوئی اور نہایت قابل و محنتی خاتون ہیں. ایسے ہی رضوان صاحب بھی ،خوش قسمتی تو واقعی ہی ہے۔

 ڈاکٹر رابعہ خرم:الله اس بہو کے حال پر رحم کرے جس کے سر پر تین تین ساسیں اپنا آپ منوانے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھی ہوں . بہادر سسر کون ہے.۔۔

مزاح برطرف ،انعام ایک محترم دوست، بھائی اور لکھاری ہے جو نوجوانوں کو خواب دیکھنا اور اس کی تعبیر کی جد و جہد کرنا سکھاتے ہیں ،
انعام رانا:میرے خیال سے مکالمہ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ یہ کسی ایک شخص کا نہیں ہے۔ یہ سب دوستوں کا مشترکہ اثاثہ بننے میں کامیاب رہا۔ آج ہمارا قاری تک خود کو مُکالمہ کا اہم حصہ تصور کرتے ہوئے کسی غلطی پر ٹوک دیتا ہے اور ہم اس کے اس حق کو قبول کرتے ہیں۔
 منزہ احتشام گوندل:رانا صاحب یہ بتائیے کہ یورپ میں   پاکستانیوں کے دکھ  کیا ہیں؟
انعام رانا:یورپ میں مائیگرینٹس کے سکھ کم اور دکھ زیادہ ہیں۔ شاید اسی لیے آپ کو اکثر مائیگرنٹ عمر بھر واپس آنے کی سوچ لیے ہوئے دکھائی دیں گے۔ یہ اور بات کہ پردیس ایک ایسی میٹھی جیل ہے کہ نہ  رہا جائے نہ  چھوڑا جائے،وقت کے ساتھ انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ فقط پیسے کما لینا ہی زندگی کی کامیابی نہیں ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب اس کے پاس پیسے تو ہوتے ہیں مگر رشتوں سے ہاتھ دھو چکا ہوتا ہے۔ اور اکثر مائیگرنٹس کا یہ اہم ترین مسئلہ ہے۔
ظفیر اقبال سیال: انعام بھائی یہ بتائیے ، آپ کا لب و لہجہ خداداد ہے یا کوئی خصوصی محنت کی ہے اس کے لیے؟ کیونکہ آپ کے لہجے میں ضیاء محی الدین صاحب  کی جھلک دکھائی پڑتی ہے؟
انعام رانا:(صرف مسکراہٹ پر اکتفا)
سائرہ ممتاز: زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ کون سا تھا ؟اور زندگی کی سب سے اہم کامیابی اور ناکامی کیا تھی ؟ اس سے کیا سبق سیکھا ؟
انعام رانا:زندگی کا مشکل ترین مرحلہ والد کی موت تھا۔ اس ایک واقعہ نے زندگی کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ اگر وہ ہوتے تو شاید آج بھی پاکستان ہوتا، شاید شادی شدہ اور بچوں والا ہوتا۔ شاید وہ بہت کچھ نہ ہوتا جو ہوا۔ مگر یہی قسمت ہے۔ کرنے کو  تو بس یہ ہے کہ وہ سوہنا جس آزمائش میں ڈالے، جو تیری مرضی کہہ  کر کوشش میں لگے رہیں۔ آزمائش کے وقت میں بھی کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوا۔ اللہ سے جذباتی ڈائیلاگ مارنے کی عادت بچپن سے تھی۔ سو اکثر لندن کی سڑکوں پر تھڈے کھاتا اسے کہتا تھا، “یار اب اتنی دور لا کر مجھے ذلیل تو نہ  کروا نا”۔ بس ہمت نہیں ہاری اور شاید یہی ادا اس کو پسند آئی۔
زندگی میں ناکامیاں ایک سے زیادہ ہوئیں۔ مگر انھیں میں نے ہمیشہ کامیابی کی جانب سفر کا ایک اہم پڑاؤ سمجھا اور مایوس نہیں ہوا۔ وقتی افسردگی ہوتی ہے، مگر پھر کوئی وزن  سے خالی شاعری کر کے ڈپریشن دور کر لیتا ہوں اور سفر دوبارہ شروع کر دیتا ہوں۔
سائرہ ممتاز:اچھا رانا صاحب کچھ قانون سے ہٹ کر بات کرتے ہیں شاعری اور  نثر نگاری میں سے کون سی  صنف پسند ہے اور کیوں؟
انعام رانا:میرے قانون کے استاد ہمایوں احسان صاحب نے اک بار کہا تھا، یہ سن کر کہ میں شاعری کرتا ہوں، پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ اور شاعر سوا اٹھارہ کروڑ ہیں۔ دیکھیے شاعری شاید بہت آسان کام ہے مگر اچھی شاعری بہت مشکل۔ ذاتی طور پہ مجھے شاعری بس خود سے باتیں لگتی ہے جو اکثر دوسروں کے لیے نہیں ہوتیں۔نثر البتہ مشکل کام ہے کیونکہ اس کے لیے وسیع مطالعہ، صبر اور انداز بہت زیادہ ضروری ہیں۔ کسی قاری کو ایک نظم پہ باندھنا یا ایک پورے مضمون پہ باندھنا بہت مختلف ہے۔ سو نثر میں محنت زیادہ ہے۔
سائرہ ممتاز:یہ پہلا جواب ہے جو توقع کے عین مطابق آیا البتہ آپ کی پنجابی شاعری کافی پابند ہے اور بہت ہی عمدہ، کئی بار مجھے حیران کیا آپ  کی شاعری نے۔
ظفیر اقبال سیال:آپ کافی عرصہ سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ وہاں موجود پاکستانیوں کی سوچ اور رویوں میں کتنی تبدیلی یا بہتری محسوس کرتے ہیں بہ نسبت پاکستان میں مقیم لوگوں کے؟اور اگر انگلینڈ میں مقیم جنوبی ایشیائی خاص کر بھارتیوں اور بنگالیوں کے ساتھ موازنہ کریں تو وہاں کی پاکستانی کمیونیٹی کو کیسا پاتے ہیں؟
 منزہ احتشام گوندل:اہم سوال ہے.میں بھی پوچھنا چاہ رہی تھی ۔دراصل یورپ میں مقیم اکثر لوگ ہم وطن خواتین کو جذباتی طور پہ بے وقوف بناتے ہیں.ایسے کئی واقعات میں نوٹ کر چکی ہوں۔شادی کا وعدہ کیا اور عرصے تک رابطہ بنائے رکھا۔جب وقت موعود آیا آرام سے رابطے ختم کیے اور واپس چلے گئے۔میں نہیں کہتی کہ یہاں ایسا نہیں۔مگر یہاں بندہ  پھر بھی  پکڑا جاتا ہے ۔تو آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ جذباتی حوالے سے فرسٹریشن کا شکار ہیں اور دوسروں کو بھی کرتے ہیں
انعام رانا:پاکستانیوں کی اکثریت اپنی تمام عمر فقط ایک سوچ میں یہاں بسر کر دیتی ہے کہ میں نے پیسے کمانے ہیں، گھر والے سیٹل کرنے ہیں، مکان پکا کرنا ہے۔ سو ان کی فطرت میں لالچ اور فراڈ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہی حال ہندوستانی اور بنگلہ دیشی کمیونٹی کا ہے۔ ذاتی طور پہ مجھے لگتا ہے کہ یہاں موجود اکثریت پاکستانی معاشرے کے بدترین پہلو بہترین مثال ہے۔
البتہ یہ مسئلہ شاید ہمیشہ مائگرینٹس کو پیش آتا ہے۔ اور یہ مسئلہ عموماً  تیسری جنریشن میں جاکر  بہتر ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی دھرتی ماں اسی سرزمین کو سمجھتی ہے۔ اسی لیے یہاں تھرڈ جنریشن پاکستانی کافی بہتر ہیں۔
 سائرہ ممتاز: والد کے بعد والدہ اللہ انھیں زندگی اور صحت عطا فرمائے وہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں یا پاکستان اور اگر یہاں ہیں تو کمی تو شدت سے محسوس ہوتی ہوگی؟
انعام رانا:میرا اپنی والدہ کے ساتھ ہمیشہ سے بہت قریبی تعلق رہا۔ ایک تو وہ مجھ سے فقط اٹھارہ سال بڑی ہیں سو ہماری دوستی بھی بہت رہی۔ میرے تمام معاشقے سب سے پہلے ان کے ہی علم میں آتے تھے۔ یہ اور بات کہ ہر لڑکی انھوں نے ریجیکٹ ہی کی۔ جو سال ان کے بنا یہاں گزارے مشکل تھے۔ والدہ کو دو سال قبل اپنے پاس لے آیا تھا۔ اب وہ انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان وقت تقسیم کرتی ہیں۔ جب نہ  ہوں تو میں بھی پاکستان بھاگ جاتا ہوں

سائرہ ممتاز:خیر یہ معاشقوں والی بات نے کافی مایوس کیا میں تو آپ کو اس معاملے میں بھی موحد سمجھتی تھی پر  آپ نے مشرکوں والا کام  ہی کیا ۔

ظفیر اقبال سیال:میرے بھی سارے  معاشقے  میری بڑی بہن کو پتا چل جاتے تھے۔ اور پھر جو تواضع ہوتی تھی، آہاہا۔۔۔ لیکن

ان جوتیوں سے ڈرنے والے اے بہن نہیں ہم(تمام ساتھیوں کا مشترکہ قہقہ)

انعام رانا:جو انسان زندگی بھر ایک ہی عشق کرے بہت خطرناک ہوتا ہے

 سائرہ ممتاز:اس پر پھر کبھی دماغ کھاؤں گی

ظفیر اقبال سیال:انعام بھائی اپنے مشاہدات اور تجربات کی بناء پر آپ کیا سمجھتے ہیں پاکستانی معاشرے کی بہتری کے لیے  کون کون سے اقدام فوری اٹھانے ناگزیر ہیں؟

انعام رانا:پاکستان میں فوری طور پر۔۔
1- نظام تعلیم   بدلنا ہو گا
2- نظام تعلیم میں طبقاتی تقسیم ختم کرنا ہو گی
3۔ مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ بنانا ہو گا۔ مسلم اکثریتی ملک میں اسلام کی اقدار کے خلاف قانون سازی ہو ہی نہیں سکتی۔ مگر ہر بات پر مذہب کو استعمال کرنے کو بند کرنا ہو گا۔
4ہمیں سیاستدانوں سے زیادہ ریفارمرز تلاش کرنا ہوں گے۔ ہمارے معاشرے کو لیڈر کی نہیں ریفارمر کی ضرورت ہے۔

 سائرہ ممتاز:بے شک
 سائرہ ممتاز:آپ کو سب سے زیادہ کون سی فلم  پسند ہے، ہالی وڈ ،بالی وڈ اور لالی وڈ میں سے اور تینوں کی الگ الگ وجہ بھی بیان کریں؟
انعام رانا:فلم کب کون سی پسند آئے یہ اس وقت کے موڈ پر منحصر ہے۔ کئی فلمیں البتہ تمام عمر تاثر قائم رکھتی ہیں۔ کیوں کا جواب تو مشکل ہے ۔مثلا ہندوستانی فلم ہے “ہزاروں خواہشیں ایسی” اور دوسری “رین کوٹ”۔ دونوں کمرشل فلمز نہیں ہیں مگر آج بھی ان کا تاثر مجھ پہ قائم ہے۔اسی طور ایک فرنچ فلم ہے “up for love “.

ظفیر اقبال سیال:کیا ایک تھوڑا سا تیکھا سوال پوچھ سکتا ہوں؟

انعام رانا: جی ،بالکل!

ظفیر اقبال سیال:جب آپ نےمکالمہ لانچ کی تو آپ کا کہنا تھا کہ اس کامقصد بحث کی بجاۓ مکالمہ کو فروغ دینا ہے، اور یقیناً ایسا ہی ہوگا۔لیکن بعد میں ہم نے دیکھا کہ مکالمہ پر تحاریر کا انبار لگ گیا اور ویب سائٹ تحریروں کا جمعہ بازار لگنے لگی (بصد معذرت) جس سے تحریروں کو پڑھنے والوں کی ایوریج تعداد بہت کم ہوگئی ،کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ rating+earning کے چکر میں پڑ گئے اور ویب سائٹ کا بنیادی مقصد کہیں گم ہوگیا۔
انعام رانا:پہلی بات تو میں عرض کروں کہ خدا گواہ ہے کہ  آج تک ایک پینس بھی اگر مُکالمہ سے کمایا ہو تو۔ اشتہار لگائے ہیں مگر انکی آمدنی ابھی تک نہیں آئی۔ ویسے بھی ایک ماہ اچھے اشتہار چلیں تو جو آمدنی ہو گی وہ اس سے کم محنت میں مَیں وکالت سے کما سکتا ہوں۔ سو آمدنی کے لیے تو کبھی کچھ نہیں کیا۔ الٹا ہر ماہ جیب سے لگائے ہیں۔دوسرا ریٹنگ بھی مقصد نہیں ورنہ وہ حرکتیں کی جاتیں جو کچھ دیگر سائیٹس کرتی ہیں۔ ہم نے مُکالمہ کو اس سے ہمیشہ بے نیاز رکھا ہے کیونکہ ہمارے لیے مُکالمہ سوچ کی تبدیلی اورمیسج   پہنچانے کا اک  ذریعہ ہے، ٹاپ ویب سائیٹ بننا ہمارا مقصد ہی نہیں ہے۔ سو نوائے وقت ہمارے اوپر ہو یا نیچے، ہم میڈیا منڈی کا بھاؤ کبھی نہیں نکالتے۔
سائرہ ممتاز:آپ نے محنت تو کی ہو گی یہ ہو ہی  نہیں سکتا ایک بندہ احمد راہی، استاد دامن اور بلھے شاہ کی زبان بولتا ہو اور اسے عشق کی بھٹی سے گزرنا نہ پڑا ہو۔۔
انعام رانا:محنت یا محبت؟(ہنستے ہوئے)
ظفیر اقبال سیال:محبت کے لیے بھی بہت محنت کرنا پڑتی ہے(شرارتی قہقہ)
سائرہ ممتاز:جی  محنت ہی ہے کبھی کبھی تو بالکل ہی لا حاصل بھی ہوجاتی ہے
انعام رانا:محبت کی ہے اور کئی بار کی ہے۔ عشق البتہ دو بار ہی ہوا۔ مگر عشق یا محبت میرے لیے ہمیشہ ہمت دینے کا باعث بنا ہے، کمزوری اور ناکامی کا نہیں۔ میرے نزدیک محبت یا عشق وہ پر ہیں جن کو لگا کر آپ کائنات کے بلند مقامات تک پرواز کر سکتے ہیں
 سائرہ ممتاز:اور شادیاں کتنی کرنے کا ارادہ ہے؟ (ویسے بندے کو   توحید پرست ہونا چاہے میرا ووٹ اپنی جنس کے ساتھ ہے)
انعام رانا:پہلی شادی یہی سوچ کر کی تھی کہ تمام عمر کے لیے کافی ہو گی۔ بدقسمتی سے وہ برقرار نہ  رہ سکی۔ اب اگر کی تو یہی سوچ  کر کروں  گا کہ دوبارہ نہ  کرنی پڑے۔
سائرہ ممتاز(مجھے سچ  میں ہنسی آگئی حالانکہ اس پر آپ کے لیے دل سے دعائیں  ہیں۔۔ ہنسی کی وجہ کچھ غیر متعلقہ  اور شدید سیاسی ہےعمران خان   بھی یہی سوچ کر  شادی   کرتا ہے۔ حالانکہ میرے بھائی جو تحریک انصاف کے ایکٹو  رکن ہیں ضامن  علی شیرازی انہوں نے پڑھ لیا  یہ  کمنٹ تو  میری  کلاس لگے گی پھر بھی رہا نہیں گیا،قہقہ،دعا کریں کپتان کی یہ والی شادی مستقل اور کامیاب ہو،میری بھائی انعام  کے لیے بھی یہی دعا ہے انسان ایک  وقت میں زندگی کے ساتھی کی کمی محسوس کرتا  ہے اور اللہ ہر ایک کو اچھا نصیب اور نیک زوج عطا فرمائے)

سائرہ ممتاز:یہ بتائیے ،  مکالمہ کانفرنس دوبارہ کیوں نہیں ہوئی؟ کوئی خاص وجہ یا وجوہات ہیں؟

 انعام رانا:مُکالمہ کانفرنس ایک اچھا قدم تھا۔ میں شخصیت سے زیادہ ادارہ بنانے پر یقین رکھتا ہوں۔ میرا خیال تھا کہ میں نے رستے پر ڈال دیا ہے تو لوگ اب خود چلیں گے۔ افسوس ایسا نہ  ہوا۔ ہمارے ہاں لوگ کہتے ہیں  روٹی پکاؤ  بھی اور پھر ہمارے منہ میں بھی ڈالو۔ سو اسی لیے اب مُکالمہ کانفرنس نہیں ہو رہی کیونکہ میں ذاتی مصروفیات کی وجہ سے پاکستان نہیں جا پا رہا۔ کاش کچھ دوست ہمت کریں اور یہ مشعل میرے ہاتھ سے لے لیں اور باقیوں کی رہبری کریں۔
سائرہ ممتاز:ہاں یہ بھی ہے لیکن اس کے لیے دوست کے دل میں خلوص اور وہی جذبہ چاہیے جو  کسی بھی انسان یا آپ کے دل میں ہوتا ہے ہم  دعاگو ہیں

سائرہ ممتاز:اب کچھ مادری زبان کی طرف آتے ہیں کسی بھی انسان کی  زندگی میں مادری زبان، تہذیب و ثقافت کیا اہمیت رکھتے ہیں اور  ہمیں اپنی اقدار بچانے کے لیے اس وقت کن اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انعام رانا:مادری زبان بہت اہم ہے۔ مگر افسوس ہم مادری زبان پر شرمندہ ہیں، کم از کم پنجاب والے۔آپ یہی دیکھیے کہ میں نے پنجابی اپنی دادی سے سیکھی، میرے والدین بچپن میں ہم سے پنجابی بولنا شاید اسے ہماری کلاس کی زبان نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہ اور بات کہ پچاس سے اوپر جاتے ہی میرے والد سوائے پنجابی بولتے ہی کچھ نہ  تھے اور میں چونکہ عادت پڑ چکی تھی تو ساری دنیا سے پنجابی بولتا ہوں مگر والدین سے نہیں بول پاتا۔ہمیں اپنا یہ احساس شرمندگی ختم کرنا ہو گا۔ ایک مزاحیہ جملہ عرض کروں کہ میری دلی خواہش ہے کہ مجھے کسی سکھنی سے محبت ہو جائے۔ کیونکہ جو عشق اپنی زبان میں ہوتا ہے شاید وہ سب سے سچا ہوتا ہے، تصنع سے پاک۔

 سائرہ ممتاز: (ہنستے ہوئے ) جیسے مجھے رنجیت سنگھ کھوکھر سے ہے اللہ سے خیر کی   دعا کریں۔ایسے عشق بہت مہنگے پڑتے ہیں پھر بندے کو سات آٹھ سو صفحات کا ناول لکھنا پڑ جاتا ہے۔
انعام رانا:ناول کے بارے میں میرا یہ خیال ہے کہ اب اسے کسی صورت تین سو صفحات سے زیادہ نہیں  ہونا چاہیے۔ زمانہ بدل گیا اور لمبے ناول اب بورنگ ہیں۔
ظفیر اقبال سیال:کیا ہم سب والوں(ویب سائٹ) کی طرف سے کبھی واپسی کی دعوت ملی؟ یا اگر مستقبل میں ملی تو کیا آپ مثبت جواب دیں گے؟
انعام رانا:ہم سب میرا اولین پلیٹ فارم تھا۔ وہیں  سے بطور باقاعدہ لکھاری مجھے شناخت ملی اور وہاں کے دوستوں سے بہت اچھا تعلق ہے۔ مگر مُکالمہ کی سوچ اور انداز ان سے بہت مختلف ہے۔ سو ان کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں مگر سفر میں اک پڑاؤ تھا جو گزر چکا، منزل مختلف ہے۔
گل افشاں :ہمارے یہاں آج کل بہت سی خواتین کو  مذاق کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،اس  کی وجہ؟
انعام رانا:اس کی وجہ  تربیت کا فقدان،اور یہ ماؤں کی ناکامی ہے،
گُل ساج:مجھے کافی تاخیر ہوئی ۔۔۔
انعام رانا: آپ اب سوال کر لیجئے
گل ساج:شکریہ برادرم!دراصل انٹرویو ایسا ہونا چاہیے جس میں شخصیت کے وہ پہلو سامنے آئیں جن سے اکثریت
لا علم ہو۔اب دیکھیے ہم  میں بہترین انڈرسٹینڈنگ ہے مگر میں آپ کے متعلق کچھ خاص  نہیں جانتا سوائے جو آپ خود اپنے متعلق لکھ چکے۔اب ہونا تو یہ  چاہیے تھا کہ اس انٹرویو سے آپ کی ذات شخصیت کردار پروفیشن مشاغل بچپن لڑکپن موجودہ زندگی کے پہلو مختصر اً سامنے آتے اس طرح قارئین کے ذہن میں آپ کی شخصیت کا خاکہ سامنے آجاتا۔
انعام رانا:آپ مکالمہ کے لیے میرا انٹر ویو کرلیجئے(ویسے ضرور میری شخصیت سے پردہ اٹھا کر مجھے شرمندہ کرانا ہے)
گل ساج:آپ کا انٹر ویو میرے لیے اعزاز ہوگا(برگِ صحرا کی اس بہترین کاوش پر مبارکباد)
سائرہ ممتاز :جاتے جاتے کوئی اچھی سی بات کوئی شعر یا اپنی پسند کا اقتباس لکھتے جائیے،آپ کو ہمارے سوالات پسند آئے ہوں گے،آپ کے لیے دعا گو ہیں،

انعام رانا:میں آپ کا ممنون ہوں کہ آ پ نے مجھے اس قابل سمجھا  میں بس اتنی عرض کر وں گا۔۔

یہ  بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں!
ظفیر اقبال سیال:بہت سی نیک خواہشات انعام بھائی!

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply