گولڈن ایج (10) ۔ ابن الہیثم/وہاراامباکرا

 ابن الہیثم ایک زبردست تجرباتی سائنسدان تھے۔ امیر اور بااثر خاندان سے تھے۔ ریاضی اور سائنس کا شوق ابتدا سے تھا۔ بصرہ میں سرکاری ملازمت ملی جہاں کی انتظامی ذمہ داریوں سے جلد اکتا گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انہوں نے ایک بہت بڑے اور دلچسپ سول انجینرنگ پراجیکٹ پر مقالہ لکھا۔ دریائے نیل کی اہمیت مصر کی خوشحالی میں مرکزی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس بڑے دریا میں ایسے بند بنائے جا سکتے ہیں جو خشک سالی اور سیلاب کے دہرے مسئلے کو اکٹھا ہی حل کر دیں۔ نہروں اور جھیلوں کا نظام اضافی پانی کو ذخیرہ کرے اور گرمیوں کے خشک وقت میں اسے ضرورت کے مطابق استعمال کیا جا سکے۔
ابن الہیثم کے اس کام کی خبر مصر کے نوجوان فاطمی خلیفہ الحاکم تک پہنچ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمی 909 میں اقتدار میں آئے تھے اور ان کی خلافت شمالی افریقہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنا نیا دارالخلافہ قاہرہ بنایا تھا۔ اور یہ بغداد کے مقابلے کا شہر تھا۔ الحاکم بامر اللہ ان کے ایک مشہور خلیفہ تھے۔ یہ گیارہ سال کی عمر میں 996 میں تخت افروز ہوئے تھے۔ ان کی شہرت سائنس کے سرپرست کے طور پر ہے۔ انہوں نے بغداد کے دارالحکمہ کےمقابلے میں بیت الحکمہ قائم کیا تھا۔ اور دنیا کے بہترین دماغ اکٹھا کرنے کا شوق تھا۔ ان میں ابنِ یونس جیسے نام بھی تھے۔
دریائے نیل کے پراجیکٹ کے لئے خلیفہ نے الہیثم کو 1010 میں قاہرہ آ جانے کی دعوت دی۔
موجودہ اسوان ڈیم کی جگہ پر اسے بنانے کا کام الہیثم کے سپرد کیا گیا۔ ابتدائی جائزے اور تجزیے کے بعد الہیثم کو اندازہ ہو گیا کہ یہ کام نہیں کیا جا سکے گا۔ اس ناکامی کا نتیجہ ان کی اسیری کی صورت میں نکلا جو کہ خلیفہ کی 1021 میں ہونے والی وفات تک رہی۔ اس کے بعد الہیثم نے رہائی پائی اور قاہرہ میں مسجد الازہر کے پاس ایک چھوٹا سا کمرہ رہائش کو مل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ میں بہت سے بڑے سکالرز کو تنہائی اور یکسوئی کا طویل وقت درکار رہا ہے۔ الہیثم کے اسیری کے برس ویسا وقت تھا۔ اور انہوں نے اس کے بعد بہت تیزرفتاری سے کام شروع کر دیا۔ اپنی گزربسر استاد کے طور پر کرتے جبکہ توجہ تجربات پر تھی۔
ان کا بڑا کام “کتاب المناظر” ہے جو سات جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ آپٹکس کی تاریخ میں بہت اہم رہا ہے۔ اور اس میں مبالغہ نہیں کہ یہ نیوٹن کے پرنسپیا کے مقابلے کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوٹن کو جدید آپٹکس کا بانی کہا جاتا ہے (یا کم از کم سکول میں ایسا بتایا جاتا ہے)۔ ان کے عدسوں اور پرزم کے تجربات کا ذکر ہوتا ہے جس سے انہوں نے روشنی، اس کی نیچر انعکاس اور رنگوں پر کام کیا۔ اگر کوئی مورخ نیوٹن سے پیچھے جائے بھی تو ڈیکارٹ، سنیل یا کیپلر پر رک جاتا ہے۔ لیکن روشنی کی خاصیتیں ۔۔۔ خاص طور پر catoptrics (آئینے سے انعکاس) اور dioptrics (عدسے سے انعطاف) اس سے بہت پرانے ہیں۔ قدیم یونان، بابل، مصر اور اسیریا میں عدسوں پر کام ہوا ہے۔ اس کے اصول افلاطین اور اقلیدس نے رکھے تھے۔ جبکہ اسلامی دنیا میں الکندی نے اس میں بڑا حصہ ڈالا تھا۔
روشنی کو سمجھنے کے ابن الہیثم کی کتاب اسی سلسلے کی کڑٰ ہے۔ لیکن اس کی اہمیت محض روشنی ہی نہیں۔ یہ دنیا کو جاننے کے ایک نئے طریقے پر روشنی ڈالتی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply