درندگی کیسے ختم ہوگی ۔۔محمد نذیر ناصر

کس کو الزام دیں اور کس کی منصفی چاہیں یہ دل خراش واقعات اور یہ دلسوز داستانیں اس معاشرے کی ہے جس کا دعوٰی اسلام پسندی اور بنیاد لاالہ ہے،ہم اگر اپنے روز مرہ کے معمولات اورکوتاہیوں پر صرف نظر کریں اور وقت نکال کر ایک منٹ کیلئے سوچوں کے بھنور میں جھانکیں تو اندازہ لگانامشکل نہیں کہ ہم اپنے دائرے کے اندر درندے اور جانور واقع ہوئے ہیں۔ ہم اسلام پسندی کا دعوٰی کرتے ہیں لیکن احکام الہی سے رو گردانی اپنا وطیرہ بنالیاہے،ہم اپنی ماں،بہن، بیٹی اور بہو  کی عزت کیلئے فکرمند ہیں لیکن دوسروں کے ان مقدس رشتوں کو عزت دینے کوہی تیار نہیں ۔ہماری درندگی کا پول کھولنے کے لیے اتنی سی بات پر غور کرنا ہی کافی ہے کہ محلے کی خواتین گلی کے نکڑ پر ہماری موجودگی کی صورت میں وہاں سے گزرنا گوارا نہیں کرتیں  ، اور ہماری   نظروں سے بچنے کیلئے طویل راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں ۔ ہم مسلمان ہیں اسلام نے ہمیں سنہرے اصول عطاء کیے ہیں خواتین کیلئے پردہ اورمردوں کے لیے نظریں نیچی کرکے چلنےکا حکم دیا تاکہ مرد کی  نظروں سے عورت کو   کوئی مسئل  نہ ہو ،لیکن ہم نے دل کاپردہ ہونا چاہیے کا نعرہ ایجاد کرکے اللہ کے ان احکامات کو مذاق بنادیا ,ہم 9 سالہ بچیوں کو پردہ کرانے پر تنقید کرتے رہے ہیں اور آج 7 سالہ بچیوں سے درندگی کا سلوک ہونے پر ٹسوے بہارہے ہیں۔

ہمیں اسلام نے زنا کی روک تھام کیلئے رجم اور کوڑوں کی سزا دی، چوری سے بچنے کیلئے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی دی کہ یہ تمام انسانیت کو بچانے کیلئے ہیں ،ہم نہ کبھی اس طرف توجہ دیتے اور نہ ہی کبھی بحیثیت مسلمان کوشش کی کہ یہ ملک اسلام کے نام پر معرض وجود  میں آیا۔ اس میں پھر خدائی نظام کیوں نہیں ؟بلکہ جو بھی اس نعرے کو لیکر میدان میں آیا ناکامی اس کا مقدر بنی ؟ ایک طرف ہمارے منتخب کردہ نمائندوں اور میڈیا نے بے حیائی کو گزشتہ 15سال سے ایسے پروان چڑھایا کہ ہمیں سیکس ایجویکشن پڑھانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں ضرورت اب اس سے روکنے کی ہے ، ہمیں ضرورت اس بات کی ہے ہم مغربی تہذیب کے جال سے نکل کر اپنی تہذیب وروایات کو اس ملک میں رائج کرکے اپنے کلچر کو زندہ رکھ کر خود کو درندگی سے بچائیں ۔

ہماری ذہنی پستی کااندازہ اس بات سے لگائیں کہ قصور کے  دلخراش واقعے سے اس قوم کا ہر فرد سوگ اور غم وغصے کی کفیت میں مبتلا ہے ہر آنکھ اشکبار اوردل خون کے آنسو رورہے ہیں۔ لیکن ہمارے مقتدر حلقے اور منتخب نمائندے سوگ کو بھی سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں ۔ یہ واقعہ اور دیگر کئی واقعات رونما ہوئے ہیں سب کا تعلق شہوت اور حیوانیت سے پہلے روشن خیالی کا نعرہ لگا کر مغربی کلچر کو ہماری مشرقی اور اسلامی روایات سے ملا دیا گیا،پہلے ہی ہم معاشرتی طور پر کھوکھلے پن کا شکار   ہیں تو دوسری جانب اسی مغربی سوچ کو پروان چڑھانے کیلئے ہماری پارلیمنٹ اور ادارے بچوں میں سیکس ایجوکیشن عام کرنے کے مطالبہ کررہے ہیں تاکہ ہماری آنے والی نسل پیدا ہوتے ہی گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کےجھانسے میں آکر شادی سے پہلے تین یا چار بچوں کے ماں باپ بن جائیں اور پھر یہ معاشرہ اسی دوراہے پر کھڑا ہوجا ئے جہاں آج مغرب کھڑا ہے اورہم ماں باپ ، بہن بھائی کا باقی ماندہ تقدس بھی کھودیں ۔  اور پھر ای وقت آئے گا جب ہمارے بچوں کے مطالبے پر اس ملک کو سیکس فری کنٹری بنانے کا اعلان کردیا  جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدارا اس ملک کا نظام بدلیں ایسا نظام جس کی مثالیں آنے والی نسلیں دیں اور جو ہماری روایات کا امین ہو،قانونی اداروں کو سیاسی اور شخصیت کے دباؤ  سے آزاد کریں ، عدالت میں فیصلے امیری اور غریبی کی بنیاد پر نہ کییے جائیں بلکہ انصاف کی بنیاد پر کیے جائیں ، جرم کرنے والے کو اسلام کی تجویز کردہ سزائیں دی جائیں ، دیکھیں جرائم ودرندگی کیسے نہیں رکتی۔

Facebook Comments

محمد نذیر ناصر
جامعہ بنوریہ عالمیہ سائٹ میں پی آر او اور مقامی ایک روزنامہ میں بطور نیوز ایڈیٹر کام کررہاہوں، حقائق کی تلاش میں سرگرداں ایک مسافر جس کا مقصد انسانیت کی فلاح وبہبود کےلئے کام کرنا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”درندگی کیسے ختم ہوگی ۔۔محمد نذیر ناصر

Leave a Reply