کیا یہی حُب الوطنی ہے؟-پروفیسر رفعت مظہر

بِلاشبہ موجودہ عام انتخابات میں عمران خاں کے پیروکاروں کی کثیر تعداد ووٹ کا سٹ کرنے کے لیے نکلی اورنہ صرف پختونخوا میں واحد اکثریتی جماعت بن کر اُبھری بلکہ مرکزاور پنجاب میں بھی اُس کے ارکان کی قابلِ ذکر تعداد منتخب ہوئی۔ حسبِ سابق اِس بار بھی دھاندلی کاشور اُٹھا۔ اِس شورسے قطع نظر ہمارا تحریکِ انصاف کی پیروی کرنے والوں سے سوال ہے کہ کیا بانی پی ٹی آئی نے اپنے دَورِحکومت میں یا اُس سے پہلے استحکامِ پاکستان کی خاطر کوئی ایک قدم بھی اُٹھایا؟۔

2013ء کے عام انتخابات کے بعد اگست 2014ء کاڈی چوک اسلام آباد میں 126 روزہ دھرناتو سبھی کویاد ہوگا جس کی وجہ سے چینی صدرکا دورہ مؤخر ہوااور سی پیک کا گیم چینجر منصوبہ ایک سال بعد شروع کیاجا سکا۔ اُس دھرنے میں عمران خاں نے ملکی سلامتی کے خلاف جو اقدام کیے وہ اب تاریخ کاحصہ ہیں۔ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف سے رجوع کیاکیونکہ اُس وقت تحریکِ انصاف کی غلط پالیسیوں اور کرپشن کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ کے کنارے پہنچ چکا تھا۔ اُدھرآئی ایم ایف پاکستان سے نالاں ہوچکا تھا کیونکہ تحریکِ انصاف کی حکومت اُس سے معاہدہ کرکے مُکرچکی تھی اور وہ اگلی قسط دینے کو مطلق تیار نہیں تھا۔ آئی ایم ایف کو منانے کے لیے اتحادی حکومت کو دانتوں پسینہ آگیا اور عین اُس وقت جب آئی ایم ایف اگلی قسط جاری کرنے کے لیے تیارتھی تو عمران خاں کے حکم پر سابق وزیرِخزانہ شوکت ترین نے پنجاب اور پختونخوا کی تحریکِ انصاف کی حکومتوں کے وزرائے خزانہ کو ٹیلی فونک کال کی جو لیک ہوگئی۔ اِس کال میں شوکت ترین پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کویہ ہدایات دیتے ہوئے پائے گئے کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھ کر متنبہ کردیں کہ مرکز کے ساتھ کیے گئے کسی بھی معاہدے کے وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ پختونخوا کے وزیرِخزانہ تیمورجھگڑا نے توخط لکھنے کی حامی بھرلی لیکن پنجاب کے وزیرِخزانہ محسن لغاری نے شوکت ترین کوکہا کہ اِس طرح سے تو پاکستان کا نقصان ہوجائے گا۔ جواباََ شوکت ترین نے کہاکہ نقصان ہوتاہے تو ہوجائے، اتحادی حکومت نے ہمارے وزیرِاعظم کے ساتھ کون سااچھا سلوک کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیاہم مادرِوطن کی سلامتی پرکسی بھی سیاسی رَہنماء کو ترجیح دے سکتے ہیں؟۔ کیا تاریخِ وطن میں کوئی ایسا سیاسی رَہنماء بھی گزراہے جس نے یوں کھُلم کھُلا ملکی سلامتی کے خلاف قدم اُٹھایا ہو؟۔ ہمارا بانی پی ٹی آئی سے کوئی جھگڑاہے نہ نوازلیگ سے اندھی عقیدت۔ ہمیں محبت ہے توصرف ارضِ وطن سے جس کی مٹی میں ہمارے لاکھوں شہیدوں کالہو شامل ہے اور جہاں ہمارے اجدادکی قبریں ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ”حبِ وطن لکھا، پڑھا اور سمجھالیکن بدقسمتی سے اب وطنِ عزیز ایسی مسموم ہواؤں کی زَدمیں ہے جہاں ”حبِ وطن“ کی جگہ ”حبِ عمران“ نے لے لی ہے۔

2024ء کے عام انتخابات کے بعد تحریکِ انصاف نے ایک دفعہ پھر ملکی بربادیوں کی داستان رقم کرنے کی کوشش کی ہے۔ پی ٹی آئی کے رَہنماء علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خاں آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے جس میں مطالبہ کیا جائے گا کہ انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے پاکستان کی حمایت بند کی جائے. شیرافضل مروت کا یہ احمقانہ بیان بھی سامنے آیا ”آئی ایم ایف ہمارا سب کچھ طے کررہا ہے تو الیکشن آڈٹ بھی طے کرے“۔ جمعہ 23فروری کو عمران خاں نے عدالت میں میڈیاکے نمائندوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا ”آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا ہے۔ آج خط چلاگیا ہوگا۔ وہ خط اِس لیے لکھا ہے کہ اگر ایسے حالات میں ملک کو قرضہ ملاتو واپس کون کرے گا؟“۔ حقیقت یہ کہ پاکستان کو کسی بھی نئی سہولت کی توسیع روکنے کے لیے آئی ایم ایف کو خط بھیجنے کی کوشش سے صورتِ حال مزید خراب ہوسکتی ہے کیونکہ اِس وقت نئے قرض کی اشد ضرورت ہے۔ اِس مالی بحران سے نکلنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضے کی آخری قسط 1.9ارب ڈالرکی اشد ضرورت ہے۔ سابق وزیرِخزانہ اسحاق ڈارنے کہاکہ ایسا خط لکھنے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا لیکن یہ ملک وقوم سے غداری کے مترادف ضرور ہے۔

ولسن سینٹرمیں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے22 فروری کو ایک بیان میں کہا”عمران خاں کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھے گئے مجوزہ خط کو نظرانداز کردیا جائے گا اور اِس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، تاہم یہ ایک خوفناک آئیڈیا ہے“۔ آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن جولی کوزیک کو جب عمران خاں کے خط پر تبصرے کے لیے کہاگیا تو اُس نے تبصرے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بانی پی ٹی آئی کا آئی ایم ایف کو خط لکھنا سیاسی معاملہ ہے۔ وہ اِس پر بات نہیں کریں گی۔ آئی ایم ایف پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں بیان نہیں دیتا۔ اُنہوں نے کہا سٹینڈبائی ارینجمنٹ کے تحت پاکستان کو 1.9ارب ڈالر جاری ہوں گے۔ جولی کوزیک نے میڈیا بریفنگ میں کہا ”نگران حکومت کے دَور میں حکام نے معاشی استحکام کوبرقرار رکھا، مہنگائی قابو میں رکھنے اور زرِمبادلہ بڑھانے کے لیے حکام نے سخت مانیٹری پالیسی پرعمل کیا۔ پاکستان میں میکرواکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے لیے نئی حکومت کے ساتھ پالیسی پرکام کرنے کے منتظر ہیں تاکہ وسیع تر اقتصادی استحکام اور پاکستانی شہریوں کی خوشحالی یقینی بنائی جائے“۔ جولی کوزیک نے یہ اُمیدافزا پیغام تو دے دیا سوال مگر یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی اِس مذموم کوشش کوکِس خانے میں فِٹ کریں گے؟۔ کیایہی نئے پاکستان کا خواب ہے، کیا یہی ریاستِ مدینہ ہے اور کیا یہی حب الوطنی ہے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

تحریکِ انصاف نے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قراردینے کے لیے ایک اور ڈرامہ سٹیج کیا۔ 17فروری کی دوپہر پاکستان سُپرلیگ کے میچوں کی تفصیل سے متعلق کمشنر راولپنڈی کی طرف سے بلائی گئی پریس کانفرنس میں کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے اُس وقت دھماکہ کردیا جب اُس نے کہا ”میں نے راولپنڈی ڈویژن کے ہارے ہوئے اُمیدواروں کو 50,50 ہزار کی لیڈ میں تبدیل کردیا۔ میں انتخابی دھاندلی کی ذمہ داری قبول کرتاہوں اور اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرتا ہوں۔ مجھے راولپنڈی کے کچہری چوک میں سزائے موت دی جائے“۔ لیاقت چٹھہ نے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر کو بھی انتخابی دھاندلی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اُس کے اِس بیان سے پورے ملک میں کھلبلی مچ گئی۔ الیکشن کمیشن نے فوری ایکشن لیتے ہوئے انکوائری کمیٹی قائم کردی۔ حقیقت یہ کہ کمشنر کا انتخابات سے براہِ راست کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ وہ ڈی آراو ہوتاہے نہ آراو۔ راولپنڈی ڈویژن کے تمام ڈی آراوز اور آراوز نے انکوائری کمیٹی کوبیان ریکارڈ کرواتے ہوئے شفاف انتخابات کادعویٰ کیا۔ یہ ڈرامہ 23فروری کو اُس وقت فلاپ ہواجب لیاقت چٹھہ نے انکوائری کمیٹی کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ اُس کا پہلا بیان صریحاََ غیرذمہ دارانہ اور غلط بیانی پر مبنی تھا۔لیاقت چٹھہ نے ایک سیاسی جماعت کے عہدیدار کے کہنے پرایسا عمل کیا۔ یہ عہدیدار 9مئی کے واقعات میں ملوث ہونے پرمفرور ہوگیا تھا۔ ہمارا سوال پھر وہی کہ کیا حب الوطنی اِسی کانام ہے؟۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply