اگر میں وزیر اعلیٰ ہوتا(2)-نجم ولی خان

اگر میں وزیراعلیٰ ہوتا تو کھمبیوں کی طرح جگہ جگہ اگنے والی ہاءوسنگ سوسائیٹیوں پر پابندی عائد کر دیتا ۔ یہ بات درست ہے کہ ہاءوسنگ سوساءٹیوں کا قیام بھی ایک کاروبار ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اس سے بہت ساری دیگر صنعتیں جڑی ہوئی ہیں مگر یہ ایک کاروبار ہماری باقی صنعتوں اور کاروباروں کو ہی نہیں بلکہ ہماری معیشت کی بنیاد زراعت کو بھی کسی دیو کی طرح کھا رہا ہے ۔ پلاٹوں کی صنعت ہماری معیشت کے لئے اتنا ہی نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے جتنا کہ ڈالر یا سونے میں سرمایہ کاری ۔ سفیدے کے درخت کی طرح اس کے فائدے کم ہیں اورنقصانات زیادہ ۔ جیسے ہاءوسنگ سوساءٹیاں تیزی کے ساتھ ہماری زرعی زمین ہڑپ کرتی جار ہی ہیں ۔ میں لاہور سے جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد جاوں یا ملتان ،سڑک کے دونوں اطراف ایک ہی شے نظر آتی ہے اور وہ ہے کوئی نہ کوئی نئی ہاءوسنگ سوساءٹی ۔ میں موٹروے کے جس انٹرچینج سے باہر نکلوں سامنے چھوٹی بڑی کوئی نہ کوئی سوساءٹی کا گیٹ موجود ہوتا ہے ۔ بڑی سڑکیں چھوڑیں میں نے سمبڑیال سے سیالکوٹ ائیرپورٹ والی برسوں سے زیر تعمیر سڑک سے شہباز پور پل اور جلالپور جٹاں تک کا سفر کیا تو وہاں بھی ڈھیروں ہاءوسنگ سوساءٹیاں موجود تھیں اور یہ سب کی سب زرخیز زرعی زمین پر بن رہی ہیں ۔ میں وزیراعلی ہوتا تواس ان تمام سوسائیٹیوں پر ایک ٹیکس عائد کرتا اور جتنے سو یا ہزار ایکڑ پر ایک ہاءوسنگ سوساءٹی بن چکی اس ٹیکس سے اتنے ہی سو یا ہزار ایکڑ بنجر اور بے آباد زمین کو زرعی بنایا جائے یعنی اگرزرعی رقبے کو محفوظ کرنا میری ترجیح ہوتی ۔

میں اگر وزیراعلیٰ ہوتا توہوریزینٹل یعنی پھیلاءو کے ساتھ رہائشی تعمیرات پر فوری پابندی عائد کر دیتا ۔ میں اپنے ڈیویلپرز کا کاروبار ہرگز تباہ نہ کرتا اور نہ ہی اس امر سے انکار کرتا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کو نئے گھروں کی اشد ضرورت ہے مگر یہ نئی تعمیرات اب ورٹیکل ہونی چاہئیں تاکہ زمین کو بچایا جا سکے مگر اب تک کی حکومتوں نے اس اہم ترین مسئلے سے نہ صرف نظریں چرائی ہیں بلکہ سابق دور میں تو مجرمانہ پالسیاں اپنائی گئی ہیں ۔ ہاءوسنگ کے شعبے میں پلاٹوں اور پلازوں وغیرہ کی خریداری پر کالے دھن کے استعمال کی اجازت دی گئی جس کامطلب یہی تھا کہ آپ چوری کریں یا ڈاکا ڈالیں ، رشوت لیں یا کرائے کے قاتل بن کے کسی پلازے انویسٹمنٹ کر لیں تو آپ سے پوچھا تک نہیں جائے گا ۔ ’ روڈا‘ کا پراجیکٹ حکومتی اختیارات کے ناجائز ترین استعمال کی بدترین مثال ہے ۔ یہاں حکومت نے مجرمانہ کوشش کی کہ سونا اگلتی زرعی زمینوں کو ڈی سی ریٹ پر خریدا جائے اور پھر اسے اپنے پیارے انویسٹرز کے حوالے کر دیا جائے ۔ یہ قانون اور جمہوریت کے نام پر صریح لوٹ مار تھی جس پر لاہور ہائیکورٹ کے ایک جرات مند جج نے پابندی لگائی مگر پھر اس فیصلے کے بہت سارے معاملات پر حکم امتناعی آ گیا ۔ معیشت کی تھوڑی بہت سمجھ رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ ہاءوسنگ سوساءٹیوں کے پلاٹوں ( بلکہ فائلوں ) میں سرمایہ کاری اس سے کچھ ہی کم تباہ کن ہے جیسے آپ ڈالر خرید لیں یا سونا تاکہ پڑے پڑے آپ کے پیسے دوگنے ہوجائیں ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ میں نے فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں دیکھا ، وہاں بڑے بڑے کارخانوں کے مالکوں نے اپنے کارخانوں کو ختم کیا اور وہاں ہاءوسنگ سوساءٹیاں شروع کر لیں ۔ یہ بھی حکومتوں کی نا اہلی اور بیوروکریسی کے ظلم کے باعث ہے کہ ان سے ہزاروں محنت کشوں کا روزگار ختم ہوا ۔ ان کارخانوں سے پیدا ہونے والی مصنوعات چاہے ملک میں استعمال ہوں یا ایکسپورٹ ہو وہ سب جی ڈی پی میں اضافہ کرتی ہیں ،یہ اضافہ رک گیا ۔ جب کروڑ، دوکروڑ سے کوئی سمال انڈسٹری بھی لگے تو وہ بھی بیس، تیس لوگوں کو براہ راست روزگار دیتی ہے مگر ایک پلاٹ براہ راست روزگار نہیں دیتا اور وہ نہ کوئی کسی نئی شے کو جنم دیتا ہے صرف پڑا پڑا قیمتی ہوتا ہے ۔ ہ میں اس عوامی تصور کا خاتمہ کرنا ہے کہ گھر وہی نہیں ہوتا جس کے نیچے ضروری ایک الگ پلاٹ موجود ہو ۔ گھر افراد سے اور ماحول سے بنتا ہے ۔ ایک اچھا گھر بہت ساری سہولتوں کے ساتھ ایک اچھے اور بلند ٹاور میں بھی ہوسکتا ہے اورمقابلتا بہت کم قیمت میں ہوسکتا ہے ۔

ہمارے بیرون ملک پاکستانیوں نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ وہ اپنی بچت اپنے باپوں ، بھائیوں یا دوسرے دوستوں وغیرہ کے ذریعے کاروباروں میں استعمال نہ کریں کہ کہیں ہڑپ ہی نہ ہوجائے سو بہتر ہے کہ پلاٹ خرید کے چھوڑ دیا جائے ۔ یہاں بھی حکومت کی ہی ذمے داری ہے کہ وہ صنعتوں کے قیام اور کاروبار کے فروغ کو آسان بنائے مگر حالات یہ ہیں کہ ایف بی آر سے لے کر بلدیہ تک ہر جگہ رشوت ہی رشوت ہے ۔ ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنائے گی مگر حقیقت یہ ہے کہ ٹیکس نیٹ میں آنے والا ایک شکنجے میں پھنس جاتا ہے ۔ میں وزیر اعلیٰ ہوتا تو میری پہلی کوشش ہی یہ ہوتی ہے کہ وزارت خزانہ کی مدد سے سرمایہ کاری کی سمت کو درست کروں ۔ لوگوں کویقین دلاوں کہ ان کے ٹیکس سے اشرافیہ عیاشی نہیں کرتی بلکہ انہیں ہی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ۔ آج ہم ڈالر کے بحران میں پھنسے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود شہباز شریف جیسے انقلابی اور محنتی شخص کی حکومت ہ میں ’ میڈ ان پاکستان‘ جیسے کسی نعرے پر آمادہ کرتی نظر نہیں آتی ۔ اسحاق ڈار کی وزارت خزانہ بھی لوگوں کو انڈسٹری لگانے یا کاروبار کرنے کے لئے کوئی سہولت اور کوئی تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی دیتی نظر نہیں آتی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر میں حاکم ہوتا تو پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ ہمارے پیسے رکھنے والے عوام چھوٹی یا بڑی انڈسٹری لگائیں ، چھوٹا یا بڑا کاروبار شروع کریں تاکہ بے وسیلہ مگر ہنر مند نوجوانوں کو نوکریاں دی جا سکیں ۔ وہ یوتھ جو ہماری آبادی کے ستر فیصد کے قریب ہے مگر ہ میں کچھ علم نہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہے ۔ ہمارے پیسے والے فائلیں اور پلاٹ لے لے کر اپنے پیسے محفوظ بنا رہے ہیں ۔ میرے بس میں ہو تو میں سونے اور ڈالر ز میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کے لئے غیر معمولی اقدامات کروں ۔ کیا یہ بات افسوسناک نہیں کہ آج کل جس امیر اور طاقتور بندے کے گھر چھاپہ پڑ رہا ہے اس کے گھر سے ہزاروں ڈالر برامد ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان انہی ڈالروں کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کے سامنے ناک رگڑ رہا ہے، ہاتھ پھیلا رہا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے پاس ضروریات زندگی کی خریداری کے لئے بھی ڈالرز نہیں ہیں مگر پاکستانیوں کے پاس کئی سو ارب ڈالر موجود ہیں ۔ میں حکمران ہوتا تو اس وقت میری پہلی ترجیح ڈالر، سونے اور پلاٹوں میں سرمایہ کاری روکنے کی ہوتی ۔ پلاٹوں کی صورت ہونے والی یہ ترقی حقیقت میں ترقی نہیں ہے، یہ ہمہ جہت قسم کی تباہی اور بربادی ہے ۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply