• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ”حافظ“ کا ملتانی سوہن حلوہ ، اور پی ٹی آئی/علی نقوی

”حافظ“ کا ملتانی سوہن حلوہ ، اور پی ٹی آئی/علی نقوی

ملتان کئی نسبتوں سے معروف ہے ولیوں کے دربار، گرمی، چونسہ، بلیو پوٹری، سوئی دھاگے کے کڑہائی والے سوٹ، گول گپے، کھسے، پراندے اور سب سے الگ سوہن حلوہ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

کہا جاتا ہے کہ انور رٹول نامی چھوٹے سائز کا چوس کر کھانے والا آم ملتان کے مالیوں کی دین ہے، اسی طرح جو سوہن حلوہ ملتان میں دستیاب ہے وہ ذائقہ ملتان کے نواح میں بھی میسر نہیں ہے، ویسے تو ملتان شہر کے ہر چوک، بس اور ریلوے اسٹیشن یہاں تک کہ ائیرپورٹ پر بھی سوہن حلوہ مل جاتا ہے لیکن ملتان میں ایک علاقہ ہے جو کہ شہر کے وسط میں واقع ہے اس کو قدیر آباد کہتے ہیں اس کو دو راستے جاتے ہیں ایک اسٹیٹ بینک کے سامنے کی سڑک جو باغ لانگے خان پبلک لائبریری کے سامنے سے گزر کر وہاں آن نکلتی ہے اور ایک سڑک چوک فوارہ سے جو کہ سول ہسپتال کے عقب سے ہوتی ہوئی وہاں پہنچتی ہے، اس علاقے میں سوہن حلوے کی درجنوں دکانیں ہیں۔۔۔
ملتان میں سوہن حلوے کا سب سے بڑا برانڈ ”حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ“ ہے اس علاقے قدیر آباد میں ہر ایک دوکان کے باہر یہ لکھا ملے گا کہ
اور جہاں تک میرا اندازہ ہے اب شاید ہی کوئی ملتانی یہ بتا سکے کہ اصلی حافظ کی دوکان کون سی ہے ۔۔
اسی سے ملتی جلتی صورتحال سے اس وقت پی ٹی آئی دوچار ہے پورے ملک کے ہر حلقے سے دسیوں امیدوار اس دعوے کے ساتھ میدان میں ہیں کہ وہ ہی اصل پی ٹی آئی امیدوار ہیں وہ ہی ہیں جو کہ عمران خان کے حمایت یافتہ ہیں اور ووٹرز پریشان ہیں کہ کس کا بھروسہ کریں اور کس کا نہ کریں۔۔
پی ٹی آئی کے ووٹرز کی پریشانی اس لیے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ پہلے بھی دیکھ چکے کہ کیسے رہبرانِ انقلاب ایک ہفتے کی جیل سے نکلے تو انہوں نے کس سہولت سے پریس کانفرنسز کر کے نو مئی سے بَرات کا اظہار کیا اور کس عجب غضب انداز سے نو مئی کا تمام الزام عمران خان پر ڈال کر خود نکل لیے یہ وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے ساڑھے تین سال عمران خان کی حکومت میں عیاشیاں کیں تھیں، جو دن رات ٹاک شوز میں بیٹھ کر عمران خان کو ایک دیوتا کا، کسی اوتار کا روپ بتاتے تھے اور جیسے ہی مشکل وقت آیا انہوں نے ایک ساعت میں عمران خان کو کرپٹ، ملک دشمن اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیا۔۔
اسٹیبلشمنٹ اور حریف سیاسی جماعتیں یہ جانتی ہیں کہ اس وقت عمران خان اپنی شہرت کی ان بلندیوں پر ہے جو خود انہوں نے کبھی اپنے لیے نہیں سوچی تھی، لیکن پارٹی کا حال یہ ہے کہ اول تو پارٹی ہے ہی نہیں اور انتخابی نشان چلے جانے کے بعد اب تو یہ ایک کھلا احاطہ ہے کہ جس کا دل کرے اپنے مال کی چھابڑی یہاں لگا کر میلہ لوٹ لے، کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ بیرسٹر گوہر جو ابھی کل تک پیپلز پارٹی میں تھے ایکدم سے پی ٹی آئی کے چیئرمین بن جائیں گے کون جانتا ہے کہ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ جیسے منجھے ہوئے پیپلز پارٹی کے تربیت یافتہ پی ٹی آئی کی اس درجہ حمایت کیوں اور کس ایجنڈے کے تحت کر رہے ہیں ؟؟ اور کیا معلوم کہ بیرسٹر گوہر خود کسی کے کہنے پر پی ٹی آئی میں نہیں آئے؟؟ لیکن ہم نے دیکھا کہ کتنی آسانی سے بیرسٹر گوہر کو چیئرمین مان لیا گیا، کس طرح پی ٹی آئی کے حامیوں نے اعتزاز احسن اور کھوسہ کو ویلکم کیا اور کس طرح وہ بیانیہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے پھیلایا کہ جو اعتزاز اور لطیف کھوسہ ساتھ لائے ہیں ، پی ٹی آئی کے لوگ یہ بات کر رہے ہیں کہ اگر تمام آزاد جیت بھی جائیں تو حکومت کس طرح تشکیل پا سکے گی؟؟ کون ہے جو قیادت کرے گا؟؟ بیانیہ کیا ہو گا؟؟ کیونکہ اب تک تین کیسز میں عمران خان کو تیس سال کے لگ بھگ سزائیں سنائی جا چکی ہیں اسی طرح سائفر میں شاہ محمود بھی اچھی خاصی طویل جیل میں ہیں، ایسے میں بھانت بھانت کے امیدواروں کا میدان میں ہونا معاملے کو مزید الجھا دیتا ہے۔۔
جہاں تک مجھے نظر آتا ہے ہو گا یہ کہ یہ امیدوار عمران خان کے نام پر ووٹ لیں گے اور جب حکومت سازی کا عمل شروع ہو گا تو جس جماعت کی پوزیشن حکومت بنانے کی ہو گی اس میں شامل ہو جائیں گے کیونکہ اس ملک میں ایسا کوئی نہیں کہ جو دس بیس کروڑ لگا کر الیکشن جیتے اور پھر حکومت میں جا کر کچھ حاصل کرنے کے بجائے اس طرف نکل جائے کہ یہاں اپنی ضمانت بھی ضبط کر ا لے، اور اب جبکہ مسلم لیگ نواز کو جہانگیر ترین جہاز سمیت میسر ہیں تو معاملہ اور بھی زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔۔
جس طرح آپ ملتان کے قدیر آباد کے بازار کی کسی بھی دوکان کے بارے میں وثوق سے نہیں بتا سکتے تو وہ اصلی ”حافظ“ ہے یا جعلی اسی طرح اس وقت یہ بتانا مشکل ہے کہ آزادوں میں سے کون عمران خان کا ٹکٹ یافتہ ہے کون نہیں؟؟
کم از کم ہر حافظ کی دکان کے ڈبے سے نکلتا تو حلوہ ہی ہے لیکن یہاں تو حالات اس سے بھی برے ہیں۔۔
اگر آپ پی ٹی آئی کے دوستوں سے پوچھیں تو وہ اپنے آپ اور اپنی پارٹی کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں ان کا دعویٰ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر اسٹیبلشمنٹ کو ہرایا جا سکتا ہے جبکہ بلے کے نشان کے چھن جانے کے بعد صورتحال یہ نہیں رہی اگر یہ تمام آزاد جیت بھی جائیں تب بھی یہ ایک منظم پارٹی کے طور پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں کبھی نہیں آ سکیں گے ہو گا یہ کہ عمران خان کو پڑنے والا ووٹ مسلم لیگ نواز کو حکومت کی تشکیل میں مدد فراہم کرے گا جہانگیر ترین جہاز اڑائیں گے اور کونوں کھدروں سے بھی آزاد امیدوار میاں نواز شریف کی جھولی میں لا کر ڈالیں گے جیسے 2018 میں پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی اکثریت کو انہوں نے جہاز اڑا کر اقلیت میں تبدیل کر دیا تھا…. اب سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی گیم کو فلاپ کیسے کیا جائے؟؟ کیسے مسلم لیگ نواز کا ایوانِ اقتدار تک کا راستہ روکا جائے ؟؟ وہ کون سی جماعت ہے کہ جو کم از کم ایک صوبے اور وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے ؟؟ تو اسکا ایک ہی جواب ہے وہ ہے
”پاکستان پیپلز پارٹی“ اگر پی ٹی آئی کے دوست دانشمندی سے کام لیں اور اس کو ذاتی انا کا مسئلہ نہ بنا لیں اور پیپلز پارٹی کے واضح تیر کے نشان پر مہر لگائیں تو صرف پیپلز پارٹی ہی ہے جو اس پوزیشن میں ہے کہ سندھ کے ساتھ بلوچستان، کے پی کے اور جنوبی پنجاب میں اچھا خاصا ڈینٹ ڈال سکتی ہے اور صرف پیپلز پارٹی ہی ہے کہ جس کے دل میں تھوڑی بہت جگہ تحریک انصاف کے لیے بھی ہے اور ابھی تک جس طرح کی الیکشن کیمپین بلاول بھٹو کر رہے ہیں ان کا نشانہ صرف مسلم لیگ نواز اور میاں نواز شریف ہیں اور پی ٹی آئی کے موجودہ قیادت ایسی ہے کہ جس کے ساتھ زرداری صاحب کام کر سکتے ہیں۔۔
اگر سچ پوچھیں تو اس وقت وہ تمام لوگ جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں انکے لیے دانشمندی یہی ہے کہ وہ ان آزاد پرندوں کی بجائے پیپلز پارٹی کے واضح نشان پر مہر لگائیں جیسے گزشتہ الیکشنز میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ووٹرز نے مسلم لیگ نواز کو صرف اس لیے ووٹ دئیے تھے کہ عمران خان کا راستہ روکنا تھا اسی طرح اگر تحریک انصاف کے ووٹرز میاں نواز شریف کا راستہ روکنا چاہتے ہیں تو یہ کام آزادوں کے بس کا نہیں ہے یاد رہے کہ اگر اس بار آپ میاں نواز شریف کا راستہ روک لیتے ہیں تو آئیندہ الیکشن میں غالب امکان یہی ہے کہ میاں صاحب سیاست سے ریٹائر ہو چکے ہونگے
لہذا ”تقدیر آباد“ میں ”حافظ“ کی سجائی ہوئی سوہن حلوے کی ہر دوکان میں جھانکنے سے کہیں بہتر ہے کہ نرالا یا گورمے کی کنفرم مٹھائی کھا لی جائے ورنہ آنے والی نسلیں اسی ”حافظ“ کے حلوے کو ہی واحد ذائقہ مان لیں گی ۔۔اب آپ حافظ کا کوئی معنی نکال لیں تو الگ بات میں تو حافظ حلوے والے کی بات کر رہا ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply