واقعی مسئلہ دیوبندی ہیں ؟

واقعی مسئلہ دیوبندی ہیں ؟
عامر ہزاروی

سیہون شریف پہ حملے کے بعد ایک بار پھر یہ بحث چل نکلی کہ دہشت گردی کا حل جوابی بیانیہ ہے اور دوسرا حل یہ ہے کہ دیوبندی ان گروہوں کی نفی کریں انکے خلاف جلوس نکالیں وغیرہ وغیرہ_

پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ واقعی ان دو کاموں کے ذریعے مسئلہ حل ہو جائے گا ؟

جہاں تک بات ہے جوابی بیانیے کی تو یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ جوابی بیانیے کو مذہبی لوگ ہی سامنے لائیں گے تو بات بنے گی_ جو لوگ ٹی وی پہ بیٹھ کے جوابی بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں اس کا خاطر خواہ حل نہیں نکل رہا اس لیے کہ مدارس کی نفسیات جاننے والے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مدارس کے طلباء و علماء کی ان لوگوں کے بارے میں کیا رائے ہے جو غامدی صاحب کی سوچ رکھتے ہیں_ ٹی وی پہ بیٹھ کے بات کرنا یا بند ہوٹلوں میں باتیں کرنا آسان ہے لیکن پبلک میں جا کے بات کرنا مشکل ہے پبلک میں مدارس کی جڑیں گہری ہیں جس خوبصورتی سے مدارس شدت پسندی کو کم کر سکتے ہیں دیگر لوگ نہیں کر سکتے اس لیےریاست کو چاہیے کہ وہ وفاق المدارس کو استعمال کرے_ مدارس کے ساتھ تعاون کرے اور مدارس سے تعاون لے_

ٹھیک ہے اس وقت خوف کی وجہ سے مدارس یا اہل مذہب خاموش ہیں لیکن یہ حل نہیں_ مولانا زاہدالراشدی صاحب اور تقی عثمانی صاحب جیسے لوگوں کو سامنے آنا ہو گا ریاست کو بھی مدارس کے لیے ایسی پالیسی بنانا ہوگی کہ انہیں یہ خوف لاحق نہ ہو کہ حکومت مدارس ختم کرنا چاہتی ہے_ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی علماء نے حکومت کے سر پہ مدارس کا خوف سوار رکھا اور مدارس کے سر پہ حکومتی خوف سوار رکھا_ اس خوف کو ختم کرنا ہو گا مدارس ملک کے بہترین دوست ثابت ہو سکتے ہیں نئی نسل کو اچھا ماحول مل سکتا ہے_ مدارس کے طلباء و علماء کو اس بات پہ قائل کیا جائے کہ جمہوری جدوجہد ہی سے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو وہ قائل ہو جائینگے_ مدارس کے طلباء میں فہم کا مادہ زیادہ ہوتا ہے بس حکمت کی ضرورت ہے آپ بہترین حکمت عملی سامنے لائیں پھر دیکھیں کہ یہ لوگ نئے بیانیے کو کیسے قبول کرتے ہیں؟ جن لوگوں سے جہاد جیسا مشکل کام لیا جا سکتا ہے وہ امن اورپیار جیسا آسان کام کیوں نہیں کرینگے ؟

دوسری چیز جو بہت زیادہ اچھالی جاتی ہے وہ ہے کہ ان تنظیموں سے لاتعلقی اور انکا رد_

میرا خیال ہے کہ یہ کام ہو چکا ہے قارئین کو یاد ہو گا کہ لال مسجد والوں نے جب حدود سے تجاوز کیا تھا تو وفاق نے ان کا الحاق ختم کر دیا تھا اسی طرح تحریک طالبان پاکستان نے جب مسلح جنگ شروع کی تو پاکستان کے تمام دیوبندی مکتبہ فکر کے علماء نے متفقہ طور پر یہ فتوی دیا کہ خود کش حملے و مسلح جنگ ناجائز ہے_ ان فتاوی جات کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہوا_ آخر کوئی وجہ تو ہوگی ہمیں ان وجوہات کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی_ اب مسئلہ لاتعلقی و فتاوی جات سے آگے بڑھ چکا ہے_

اب یہ جنگ انتقام کی جنگ بن چکی ہے انتقام کے توڑ کے لیے دینی چیزیں کم ہی کام آتی ہیں لڑنے والے لوگوں کو علماء پہ اعتماد نہیں رہا وہ جب امام کعبہ کو ایجنٹ کہتے ہیں تو پھر مولانا فضل الرحمن پہ حملے بھی کرتے ہیں_ وہ کہتے ہیں کہ پہلے ان کو ختم کرنا ضروری ہے_ یہ لوگ اب علماء کے قابو میں نہیں رہے یہ انتقام کی آگ بجھانے کے لیے بھارتی حکومت و افغان حکومت سے مل چکے ہیں_

اب ریاست کی ذمہ داری ہے اس مسئلے کا حل نکالے_ اب معاملہ ملکوں کا ہے پاکستان نے افغانستان سے احتجاج بھی کیا ہے اور طالبان کے کئی ٹھکانوں پہ حملہ بھی_ پاکستان کہہ رہا ہے کہ یہاں جو بدامنی ہوتی ہے اس کے پیچھے بھارت و افغانستان ہے_ یہی شور بھارت و افغانستان بھی کرتے ہیں وہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے ملکوں میں پاکستان مداخلت کر رہا ہے_ جب ہم افغانستان کو لسٹیں دیتے ہیں تو وہ ہمیں بھی لسٹیں تھما دیتا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ تینوں ریاستیں پرائیویٹ لوگوں کے ذریعے کام جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں_

جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستان نے اثاثے سنبھال کے رکھے ہوئے ہیں انہیں یقینا یہ بھی معلوم ہوگا کہ بھارت نے بھی ہندو دہشت گرد پال کے رکھے ہوئے ہیں افغانستان نے بھی داعش بلوچ اور طالبان کو پناہ دے رکھی ہے_

مسئلہ ایک طرف سے نہیں تینوں اطراف سے ہے اب ملکوں کو سوچنا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے ؟ گروہوں کو استعمال کرنا ہے یا روکنا ہے ؟ اگر روکنا ہے تو پھر سبھی روکیں_ پاکستان حافظ سعید و مسعود اظہر کو پھڑکا دیتا ہے لیکن کیا دوسری طرف سے بھی ایسا ہی ہو گا ؟ کیا گارنٹی ہے کہ پاکستان میں پراکسی وار نہیں لڑی جائے گی ؟ مسئلہ دیوبندیوں بریلویوں کا نہیں مسئلہ ریاستوں کے مفادات کا ہے ریاستیں یہ مسئلہ کس طرح حل کرتی ہیں یہ بہت بڑا چیلنج ہے_ اگر اس معاملے کو نہ روکا گیا تو بات آگے بڑھے گی_

Advertisements
julia rana solicitors london

اس صورتحال سے بچنے کا ایک ہی راستہ بے اور وہ یہ کہ تینوں ملک بیٹھ کے یہ طے کریں کہ ہم نے جنگ فوجوں کے ذریعے لڑنی ہے کسی گروہ کے ذریعے نہیں_ درمیان میں چائنہ روس امریکہ کو ضامن بنایا جائے_ تینوں ملک اس معاہدے کی پاسداری کریں_ یہ کام آج ہی کریں اس لیے کہ ایک دن ٹیبل پہ بیٹھنا ہوگا_ سب جانتے ہیں کہ جنگ مستقل نہیں ہوتی امن مستقل ہوتا ہے امن کے لیے کڑوے گھونٹ پینے ہونگے_ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر یہ جنگ جاری رہے گی مزید حملے ہونگے ملک اپنے مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے اس لیے کہ تجارت امن چاہتی ہے سرمایہ دار سرمایہ بچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرے گا_ کل کو کیا ہو گا پھر یہ خدا ہی جانتا ہے_

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply