• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہتھیار بیچنے والے کیوں چاہیں گے کہ انڈیا – پاکستان تنازعہ ختم ہو؟— غیور شاہ ترمذی

ہتھیار بیچنے والے کیوں چاہیں گے کہ انڈیا – پاکستان تنازعہ ختم ہو؟— غیور شاہ ترمذی

سنہ 1947ء میں ہونے والی تقسیم ہند کی بنیاد محبت کی بجائے نفرت پر رکھی گئی تھی- اسے دو قومی نظریہ کہہ لیجئیے یا کچھ اور مگر دنیا بھر کی ڈکشنریوں میں تقسیم ہند کو کسی بھی طرح نفرت کی کیٹیگری سے نکال کر صلح, امن, دوستی اور محبت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا- یہ وہ حقیقت ہے جسے ہمیں بہر صورت تسلیم کرنا ہے- یہ ہماری مٹی کا خمیر ہے کہ ہمیں ہر وقت ایک ہیرو, ایک ولن اور ایک کافر کی تلاش رہتی ہے- یہ چاہے انڈیا ہو یا پاکستان, ہم اس وقت تک بستر پر سکون کی نیند بھی نہیں لیتے جب تک ہمیں یہ اطمنیان نہ ہو کہ ہمارا کم از کم ایک دشمن اس دنیا میں موجود ہے جسے ہم کافر, مشرک, منکر قرار دیں اور نفرت کرنے کے لئے بھی کوئی شخص, قبیلہ, فرقہ یا ملک بھی موجود ہے جسے ہم ولن قرار دے سکیں- ہماری نفرت اور ہمارے خود پیدا کردہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ایک ہیرو بھی چاہئے ہوتا ہے جسے ہم زیادہ تر عسکری وردی میں ڈھونڈھ رہے ہوتے ہیں یا پھر کسی ایسے شخص, راہنما کو جو مرنے, مارنے کی تبلیغ کرتا ہو- انڈیا, پاکستان میں کسی بھی جگہ ہم لوگ ایسے مخلصین کو اپنا ہیرو نہیں بناتے جو جنگ کی بجائے امن, تعلیم, صحت کی باتیں کرتا ہو جیسا کہ عبدالستار ایدھی, عاصمہ جہانگیر, مدر ٹریسا, مدر رتھ فاؤ, ڈاکٹر ادیب رضوی, ملالہ یوسف زئی اور کئی دوسرے نامور اور گمنام ہیروز.

کشمیر ایک ایسا معاملہ ہے جسے تقسیم ہند کے وقت انگریز سرکار کی نالائقی کا جیتا جاگتا ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے- کشمیر کی واضح اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی جبکہ اس کا حکمران ہندو راجہ تھا۔عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے مگر راجہ نے عوام کی خواہشات کے خلاف انڈیا کے ساتھ الحاق کر دیا اور انگریز سرکار نے یہ معامل حل کرنے کی بجائے اسے ‘جہاں ہے, جیسے ہے’ کی بنیاد پر چھوڑ دیا- نتیجہ ظاہر ہے کہ منطقی ہی ہوا, ریاست جموں و کشمیر میں جنگ چھڑ گئی اور کچھ حصہ پاکستان کے حصہ میں جبکہ بڑا حصہ انڈیا کے پاس چلا گیا۔آج 71 سال بعد بھی کشمیر کے ہی معاملہ پر دونوں ملکوں میں شدید ترین جنگی ماحول بنا ہوا ہے- کشمیر جس کے لئے انڈیا اور پاکستان پچھلے 71 سالوں سے نفرت و دشمنی پال رہے ہیں, اب تک 4 جنگیں لڑ چکے ہیں, اپنے ہزاروں فوجیوں کی جانوں کی قربانی دے چکے ہیں- اربوں, کهربوں ڈالرز ہتھیاروں پر برباد کرچکے ہیں اور پتہ نہیں مستقبل میں اس دشمنی کے چکر میں کتنے کھرب خرچ کر کے، اپنے ہزاروں جوانوں کی قربانی دے کر، کیا کچھ حاصل کرلیں گے؟ کیا اس پر ابھی بھی غور کرنے کا وقت نہیں آیا ہے؟

آج کی تاریخ میں انڈیا نے لائن آف کنٹرول پر چلنے والی کبھی کبھار گولہ باری کو شدید کر دیا ہے- پاکستان بھی دھڑا دھڑ جواب دے رہا ہے- ایسے حالات میں عالمی طاقتیں ابھی تک اس مؤثر پیرائے میں جنگ بندی کے لئے آگے نہیں بڑھیں جس کی توقع کی جا رہی تھی- امریکی صدر ڈونڈ ٹرمپ ہوانا میں سرکس کے مداری کے تماشے دیکھ رہے ہیں جبکہ دو مسلمہ نیوکلئیر طاقتیں حالت جنگ میں پہنچ چکی ہیں- اب بات بیانات تک محدود نہیں رہی بلکہ انڈین میڈیا بھارتی پائیلٹ کی پاکستان میں گرفتاری کو ہیروشپ قرار دے رہا ہے کہ اس کے پائیلٹ ابھےنندن نے “دہشت گردوں” کے ٹھکانہ کو تباہ کر دیا اور بعد میں گرفتار ہوا- دوسری طرف پاکستان کو انڈین طیارہ تباہ کر کے اس کے پائیلٹ کو گرفتار کرنے والی جو کامیابی ملی ہے اس کی وجہ سے پاکستانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے کشمیر میں حوصلے بہت بلند ہو چکے ہیں-

ابھی تک دونوں ممالک کی طرف سے حالیہ کشیدگی کا سبب بننے والے پلوامہ واقعہ پر خصوصاًًً  تفتیش کا باضابطہ آغاز نہیں کیا- اور کشمیر میں پرتشدد واقعات میں خاطر خواہ اضافہ پر کسی سنجیدہ گفتگو اور تحقیقات کا آغاز بھی نہیں ہو سکا- انڈین حکومت کے حمایت شدہ ادارے ساوتھ ایشیا ٹیرریزم پورٹ (ایس اے ٹی پی) کی ویب سائیٹ پر موجود سنہ 2014ء سے سنہ 2018ء تک کے ڈیٹا کے تجزیہ کے مطابق وادی کے حالات 2018ء کے بعد پہلے سے مزید کشیدہ ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال 2018ء میں چھوٹے بڑے ملا کر کشمیری حریت پسندوں نے کل 205 حملے کئے۔ تاہم سنہ 2017ء میں تشدد کے کل 164، سنہ 2016ء میں 112، سنہ 2015ء میں 88 اور سنہ 2014ء میں 90 معاملے سامنے آئے تھے۔ وہیں سنہ 2019ء کے دو مہینے میں انڈین سیکورٹی فورسز پر اب تک 16 حملے ہو چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں پلوامہ واقعہ سے متعلق کچھ نقاط پر غور کیجئیے :۔

1) :۔ تشدد کے اتنے واقعات میں یہ ناممکن ہے کہ پاکستان سے اتنی بڑی تعداد میں تربیت یافتہ مجاہدین کی کشمیر میں دراندازی ہوتی ہو کیونکہ انڈین مقبوضہ کشمیر میں 6 لاکھ انڈین فوجی جگہ جگہ ناکے لگائے ہوئے ہیں- انڈین ذرائع کہتے ہیں کہ ہر 20 کشمیریوں پر ایک انڈین فوجی تعنیات ہے-

2) :۔ پلوامہ خود کش بم دھماکہ جس بس پر ہوا, انڈین میڈیا کے مطابق اس میں صرف دلت یعنی اچھوت ہندو قوم سے تعلق رکھنے والے فوجی ہی سوار تھے- جبکہ اس کانوائے کا انچارج بھی دلت قوم سے تعلق رکھنے والا ایک صوبیدار میجر ہی تھا- سنجیدہ انڈین میڈیا کی طرف سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ انڈین اسٹیبلشمنٹ نے دلت قوم سے تعلق رکھنے والے 42 فوجیوں کی قربانی دے کر چند ہفتوں بعد ہونے والے عام انتخابات کی 300 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے-

3) :۔ پلوامہ حملہ کے بعد اس کے فدائی خود کش بمبار عادل احمد ڈار ولد غلام حسن ڈار عرف وقاص کمانڈو ساکن گنڈی باغ کاکا پورہ پلوامہ کے والد نے کہا کہ عادل کو سنہ 2016ء میں قابض بھارتی فوجیوں نے سکول سے واپسی پر روکا، تشدد کیا اور اُس سے ناک زمین پر رگڑوائی تھی۔ اس کے بعد عادل کو 2017ء میں دوبارہ گرفتار کیا گیا, جس کے بعد سے اس کی کوئی خبر نہیں تھی- جبکہ عادل کی ماں فہمیدہ کا کہنا ہے بھارتی فوجیوں کے تشدد کے بعد ہی شاید عادل ایسے انتہائی قدم پر مجبور ہوا ہو گا- فہمیدہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہر کشمیری آج بھی انڈین افواج کے ہاتھوں ایسی ذلت بھری تکلیفیں سہتے ہیں۔

4) :۔ خود کش بمبار عادل ڈار کی جو آخری ویڈیو سامنے آئی ہے, اس کا بغور تجزیہ کیا جائے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ وہ بہت نروس انداز میں اپنا پیغام ایسے ریکارڈ کروا رہا ہے جیسا کہ وہ کسی کا پیش کردہ بیان زبردستی پڑھنے پر مجبور ہو جبکہ اس سے پہلے خودکش بمباروں کی جتنی بھی ویڈیوز سامنے لائی گئی ہیں, ان میں خود کش بمبار ہمیشہ خوش باش, مطمئن اور حوصلہ میں ہوتا ہے- سنجیدہ حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ عادل ڈار کو کسی ایسی طاقت نے استعمال کیا ہو جو بذات خود ہی انڈین ہو اور الیکشن میں 300 سیٹوں کے حصول کی بڑی کامیابی کے لئے 42 دلت فوجیوں کی چھوٹی موٹی قربانی دے کر مقصد کے حصول کی طرف گامزن ہو-

5) :۔ پلوامہ خود کش حملہ جس مقام پر ہوا وہ لائن آف کنٹرول سے 150 کلو میٹر اندر واقع ہے۔ لائن آف کنٹرول بارڈر سے لے کر اتنی دور اندر تک جگہ جگہ لگے بھارتی فوج کے ناکوں سے بچ کر کسی بھی پاکستانی درانداز کا وہاں تک پہنچنا ناممکن ہے۔

6) :۔ حملے میں آئی ای ڈی سے بھری گاڑی استعمال کی گئی جس کی تیاری میں مہینوں لگتے ہیں اور وادی کے چپہ چپہ پر بھارتی فوج کی موجودگی کے باوجود اتنے لمبے عرصے تک ایسی گاڑی کی تیاری اور حملے کی منصوبہ بندی کیسے ہوتی رہی؟

ان حقائق سے واضح ہے کہ انڈیا پاکستان کشیدگی میں پلوامہ جیسے مشکوک واقعات کروانے کے پیچھے کسی ایسی طاقت کا ہاتھ ہونا بعید از قیاس نہیں جو دونوں ممالک کو گرم کرکے اس توے پر اپنی روٹی سینکنا چاہتے ہیں- گزشتہ 30 سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو بات سمجھنے میں مزید آسانی ہو سکتی ہے- 1990ء کی دہائی میں سب سے گرم معاملہ عراق پر امریکی حملہ تھا جب امریکہ میں صدر بش سینئیر کی حکومت تھی جو ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھتے تھے- اسی طرح سنہ 2000ء کی دہائی کے شروع میں امریکہ پر صدر بش جونئیر کی حکومت رہی اور وہ بھی ری پبلیکن پارٹی سے ہی تعلق رکھتے تھے جبکہ ان کے دور میں بڑے واقعات میں عراق اور افغانستان پر امریکی یلغاریں تھیں- آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں اور وہ بھی ری پبلیکن پارٹی سے ہی تعلق رکھتے ہیں- ذرا تحقیق کیجئیے تو پتہ چلے گا کہ جب بھی امریکہ میں ری پبلیکن پارٹی برسراقتدار رہتی ہے تو دنیا کے کسی نہ کسی خطہ میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں- ان 30 سالوں کے علاوہ اس سے پیچھے بھی افغانستان پر سوویت یونین کے حملہ کے دوران ری پبلیکن کے صدر ریگن برسراقتدار تھے. امریکی جرائد کہتے ہیں کہ ری پبلیکن پارٹی کے انتخابات میں مالی مدد فراہم کرنے والے سب سے بڑے عطیہ کنندگان ہتھیار بنانے والے سرمایہ دار ہوا کرتے ہیں-

یمن پر سعودیہ اور اس کے اتحادیوں کی یلغار کے بعد امریکی کمپنیوں کو 400 ارب ڈالرز کے اسلحہ کی فروخت کے آرڈرز مل چکے- اب چونکہ یمن معاملہ ختم ہونے کی طرف گامزن ہے تو ہتھیار بیچنے والوں کی ساری دلچسپی اس میں ہو گی کہ انڈیا – پاکستان اپنے کشیدہ معاملات کو بڑھائیں اور امن کی بجائے جنگ کریں تاکہ ان کا اسلحہ فروخت ہو- صرف امریکہ ہی نہیں روس اور چین بھی اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک میں اس طرح شامل ہیں کہ وہ انڈیا – پاکستان دونوں کو اسلحہ فروخت کر کے خوب پیسہ کما رہے ہیں- ہمارا مشکل وقت میں سب سے بہترین دوست چین دنیا میں 5واں بڑا ہتھیار بنانے والا ملک ہے جس کی کل ہتھیاروں کی پیداوار کا 35% کا خریدار پاکستان ہے- پاکستان نے پچھلے سال 8 ارب ڈالرز ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کئے یعنی 11 کھرب 20 ارب پاکستانی روپے- اگر ایک سال کے لئے پاکستان اپنے ہتھیاروں کی خریداری نہ کرے تو وہ اپنے آزاد جموں و کشمیر کی تقریبا” 40 لاکھ آبادی کے ہر کشمیری کو 2 لاکھ 80 ہزار روپے دے سکتا ہے-

دوسری طرف انڈیا دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خریداری کا سب سے بڑا گاہگ ہے جس نے پچھلے سال 60 ارب ڈالرز یعنی 84 کھرب پاکستانی روپے ہتھیار خریدنے میں جھونک دئیے۔ اگر صرف ایک سال کے لئے انڈیا ہتھیار نہ خریدے تو وہ اپنے ایک کروڑ 25 لاکھ آبادی والے انڈین جموں و کشمیر میں ہر کشمیری کو 6 لاکھ 72 ہزار روپے دے سکتا ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

ہم انڈیا – پاکستان کے تقریبا” ڈیڑھ ارب عوام، چھوٹے سے علاقہ کشمیر کے دو حصوں کو اپنے اپنے قبضے میں لئے، اپنے اپنے قبضے والے حصہ میں، تجارتی مقصد ہی سے، وقتی سرمایہ کاری کر کے، صنعتی تجارتی انقلاب لاتے ہوئے، اس حصے میں رہنے والے کشمیریوں کو خوشحال کرتے ہوئے، خود بھی مستفیض ہونے کے بجائے ،ایک دوسرے کے کشمیر کے حصے کو ہڑپنے کی منصوبہ بندی میں،اپنے اپنے علاقوں کی ترقیاتی کاموں میں خرچ کی جانے والی رقوم کو، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں، جنگی تیاریوں میں اور مہلک ہتھیاروں کی خریداری میں اربوں ڈالر خرچ کرنے میں لگے ہوئے ہیں- جبکہ ہتھیار بیچنے والی طاقتیں ہی انڈیا و پاکستان کے  لوگوں  کو بےوقوف بنا کر اپنے ہتھیار بیچ کر ہم سے ہماری دولت لوٹ کر ہمیں کنگال کئے جا رہی ہیں-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply