آپ کے والدین بم بناتے ہیں؟۔۔کومل زیدی

بھارت میں مسلم طالب علم اسکولوں میں بھی تعصب کے نشانے پر ہیں۔ ان سے نہایت حساس اور تعصبانہ سوالات کیے جاتے ہیں جیسے کہ کیا آپ کے والدین بم بناتے ہیں؟ حالانکہ ان بچوں کو بم کا مطلب بھی معلوم نہیں۔

بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق دہلی کے ایک اسکول میں ٹیچر نے دوران کلاس پچھلے دنوں یورپ میں ہونے والے بم دھماکے کا ذکر اس طرح سے کیا کہ اس کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا۔ ایک طالب علم نے جماعت میں موجود ’سعد‘ نامی مسلم بچے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کے والدین بم بناتے ہیں…………… ؟‘

رپورٹ میں پچھلی دو دہائیوں میں ہونے والے بم دھماکوں کا ذمے دار طالبان کو ٹھہرایا گیا ہے تاہم طالبان تمام مسلمانوں کے ترجمان نہیں نا ہی ان جیسی سوچ تمام مسلمانوں کے نظریات سے ملتی ہے۔

رپورٹ میں بھارت کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے ’بھارت کے اسکولوں میں ان باتون کا ذکر نہیں ہوتا اور نہ ہی پاکستان بھارت کے آپسی مسئلوں کو زیر بحث لایا جاتا ہے لیکن پھر بھی ہندو بچوں اور نوجوانوں میں مسلمانوں کے لیے نفرت دکھائی دیتی ہے۔‘

ایک جانب رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اس نفرت کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ بھارت میں مسلم بچے کس طرح سے پرورش پائیں گے؟؟

یہ بھی پڑھیں ‘  http://میں کندیرا کا رقاص ہوں۔۔۔ انعام رانا

بھارت کی رہائشی نازیہ ارم نامی خاتون نے بھارت کی مسلم مائوں کے لیے ایک کتاب لکھی جس میں اس بات پر خاص توجہ دی گئی کہ ایسے ماحول میں بچوں کی پرورش کس طرح کی جائے۔ نازیہ کی جانب سے یہ کتاب 2014 میں ان کی بیٹی کی پیدائش کے بعد لکھی گئی جب انہیں بھی دوسری مائوں کی طرح تعصب کاسامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ کے مطابق مسلم بچوں سے اسکولوں میں تعصبانہ سوالات پوچھنے کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے کہ ’تمہارا داعش سے تعلق ہے؟ تمہارے والدین بم بناتے ہیں؟ تمہارے ابو مجھے گولی تو نہیں مار دیں گے؟‘ یہ اور اس جیسے کئی سوالات روز انہ کی بنیاد پر ان بچوں سے پوچھے جاتے ہیں۔

ساحل نامی لڑکے نے بتایا کہ جب اس نے ہائیر اسکول میں داخلہ لیا تو اسے بھی ’دہشت گرد‘ کہہ کر پکارا جانے لگا۔ صرف اس بنیاد پر کہ وہ مسلمان ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ یہاں اور بھی مسلم طالب علموں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے لیکن وہ ڈر کی وجہ سےخاموش رہتے ہیں۔

ان تمام متاثرہ افراد سے بات کرنے کے بعد نازیہ نے یہ کتاب لکھی جس میں ان سب کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسکولوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسکولوں میں کس طرح کی تعلیم فراہم کی جارہی ہے جہاں بچوں کو بھائی چارے اور صلح رحمی کا درس دیا جاتا ہے وہاں ہندو مسلم کے نام پر بچے آپس میں لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اسکول بچے کو بنانے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور تب ہی اسکولوں میں خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ اس بارے میں ایک نجی اسکول کی پرنسپل ’عینی کوشی‘ کا کہنا تھا کہ ’اگر بچے مذہب پرستی کی طرف جارہے ہیں تو اس میں اسکول نہیں بلکہ معاشرے کا ہاتھ ہے، جو بچےسنتے ہیں اسی پرعمل کرتے ہیں اور وہی کہتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ جنگ

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply