• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جس دیش میں گنگا بہتی ہے(واپسی، ریکھا اور محمد رفیع)۔۔شکور پٹھان

جس دیش میں گنگا بہتی ہے(واپسی، ریکھا اور محمد رفیع)۔۔شکور پٹھان

آج دلی سے واپسی تھی۔ دلی کو جیسا میں دیکھنا چاہتا تھا شاید ویسا نہیں دیکھ پایا لیکن یہ بھی کیا کم تھا کہ دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب، جو کبھی میرے خیالوں میں بستا تھا ، میں دو دن وہاں رہا۔ میں جب بمبئی کے ایرپورٹ پر اترا، بلکہ اورن آنے تک میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں اورن اور بمبئی کے علاوہ کوئی اور شہر دیکھ سکوں گا۔ اور میں ہندوستان گھومنے آیا ہی کب تھا۔ میں تو یہاں اپنے پیاروں سے ملنے آیا تھا۔ یہ تو فوزان کی مہربانی تھی کہ اجمیر، جے پور، آگرہ اور دہلی جانے والے قافلے میں مجھے بھی زبردستی شامل کیا، اگر مجھے علم ہوتا تو شاید میں دلی کا ویزا ضرور لگواتا۔ لیکن پھر میں ویزا میں درج شدہ شہروں کے علاوہ کہیں اور نہیں جا پاتا کہ ویزا صرف تین شہروں کے لئے ملتا ہے۔ میں تو جیمز بانڈ بنا ممنوعہ علاقوں میں گھوم پھر آیا۔اورن ، نیوی کا بیس تھا، آگرہ بھی چھاؤنی کا علاقہ تھا اور یہاں دہلی میں آج صبح ” رکھشا بھون” میں بھی جھانک آیا تھا۔ جو کہ دفاعی اداروں کا مرکزی دفتر تھا،
اور میں دلی کو دیکھنا بھی کب چاہتا تھا۔ میں تو دلی کو محسوس کرنا چاہتا تھا۔ اس دلی کو جو محمد حسین آزاد کی، اور میرو غالب کی دلی تھی، جسے میں نے اشرف صبوحی، شاہد احمد دہلوی اور ملا واحدی کی آنکھ سے دیکھا تھا۔ جس کے تذکرے سے مولانا حالی کے دل میں ٹیس اٹھتی تھی

تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز

اور سچ تو یہ ہے کہ میں نے دلی کو چتلی قبر، چاندنی  چوک اور جامع مسجد کے آس پاس کی گلیوں میں محسوس ضرور کیا تھا۔ نئی دہلی کے علاقے بہت خوبصورت ہیں، اب شاید اور زیادہ خوبصورت ہوگئے ہوں۔ لیکن مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس سے کہیں زیادہ خوبصورت تو میری کراچی کی  سوسائیٹیوں، ڈیفنس اور کلفٹن کے علاقے تھے۔ میرا دلی تو پرانی دلی میں بستا تھا جہاں کی گالیوں سے بھر پور کرخنداری سننے میں مجھے لطف آتا تھا۔ نئی دلی میں پنجابی آباد کاروں کے سبب ایک نئی طرح کی ہندی بولی جاتی ہے۔ مثلاً آپ کسی سے حال پوچھیں گے تو جواب ملے گا’ بڑھیا جی” یا ” بہت ودھیا” ۔ مجھے یہ سکھوں والی ہندی خوش نہ آتی تھی۔
دلی میں جتنی بھی گذری بہ کار گذری۔

الوداع اے دلی!… پھر ملیں گے گر خدا لایا

مزید پڑھیں تلسی کے پتے۔مريم مجيد
ہم سب بڑے مزے میں “راجدھانی ایکسپریس ” میں بیٹھے چہچہا رہے تھے۔ اسماعیل بھائی کے رکھشا بھون والے دوست کی بدولت ہماری سیٹیں ریزرو تھیں اور ہمیں کسی قسم کی پریشانی نہ ہوئی تھی۔
میں دروازے کے پاس  کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میرے سامنے کی نشست خالی تھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ کسی کو وہاں بلالوں کہ قلی نے اوپر ایک چھوٹا سا اٹیچی کیس رکھتے ہوئے ایک سانولی سی ، دیہاتی وضع کے زرق برق کپڑے پہنے ہوئے ایک اٹھارہ انیس سالہ لڑکی کو وہاں بٹھاتے ہوئے پوچھا ” ٹھیک ہے ناں ، بہن جی” ۔ لڑکی نے گردن ہلائی اور کھڑکی کی طرف متوجہ ہوگئی جس کے باہر ایک نوجوان چپکا ہوا یہ کارروائی دیکھ رہا تھا۔
” پیٹی کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد دیکھتی رہیو” نوجوان نے ہدایات دیں۔
لڑکی نے گردن ہلا کر اقرار کیا۔
” پتا جی کو میرا پر نام کہنا”
” جی”
” ماتا جی کے چرن چھونا میری اور سے”
” جی جرور” ۔۔۔لڑکی بہت ہی کم گو تھی
” اور چٹھی جرور لکھیو” اس کا ہاتھ لڑکی کے ہاتھ پر تھا۔ یہ کوئی نوبیاہتا جوڑا تھا۔ اور شاید لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر جارہی تھی۔ لڑکا کوئی نیک فرمان بردار قسم کا جمائی نظر آتا تھا۔
لڑکی بات کم کرتی تھی لیکن اس کی آنکھ کا کاجل پھیلتا جاتا تھا۔
” ارے تو کیا ان کی باتیں سن رہا ہے” یہ سسٹر کی آواز تھی جو برتھ پر پیر لٹکائے بیٹھی میری محویت دیکھ رہی تھیں۔ سسٹر نے یہ بات کوکنی میں کہی تھی۔ انہیں بھی شاید اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کوئی نیا جوڑا ایک دوسرے سے رخصت ہورہا ہے۔
” اب تو بھی اپنی دلہن کو ایسے ہی رخصت کیا کرنا” سسٹر بدستور مجھے کوکنی میں چھیڑ رہی تھیں۔
اور مجھے اپنی منگیتر یاد آئی جسے میں نے اب تک نہیں دیکھا تھا۔ مجھے لگا کہ جب میں چھٹیاں ختم ہونے کے بعد واپس جاؤں گا تو وہ بھی یونہی نم آنکھوں سے مجھے رخصت کرے گی۔ شاید زندگی میں پہلی بار ‘ ہجر’ کے دکھ کا احساس ہوا۔ برہا کی ماریوں کے دکھ بھرے گیتوں کی کچھ کچھ سمجھ آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹرین تیز رفتاری سے چلی جارہی تھی۔ یہ بہت کم اسٹیشنوں پر رکتی تھی۔دلی سے نکلنے کے بعد اب تک صرف متھرا پر رکی تھی۔ اسٹیشن پر متھرا کی تختی دیکھ کر میرے لبوں پر ‘ کاشی دیکھی، متھرا دیکھی، دیکھے تیر تھ سارے” ” کہیں نہ من کا میت ملا تو آیا تیرے دوارے” ، بے اختیار مچلنے لگا۔
میں نے نیچے اتر کر جلد از جلد سگریٹ کے کش لئے۔ چند لمحوں کے لئے سہی، میری بھی متھرا کی یاترا ہوگئی تھی۔
نئے مسافروں کو لے کر ٹرین پھر چل پڑی۔ چاچی اور سسٹر ہماری ٹولی میں سب سے زیادہ ‘ گپ باز” تھیں۔ چاچی کے سامنے والی برتھ پر بیٹھی عورت نے وقت گذاری کے لئے چاچی سے بات چیت شروع کی۔
” کہاں جارہی ہو بہن؟”
” ہم ممبئی کے ہیں” چاچی نے جواب دینے کے بجائے اپنا فخر جتایا کہ کسی چھوٹے موٹے شہر کے نہیں ، ہم بمبئی جیسے بڑے شہر کے ہیں۔
” ارے واہ ! بمبئی تو بڑی جبر دست جگہ ہے۔ ” عورت نے متاثر کن انداز میں سراہا۔ ” وہاں تو سارے فلم والے رہتے ہیں ”
بھارت میں، بمبئی کی فلمی دنیا، بولی ووڈ ، وہاں کے لوگوں کے دل و دماغ پر چھائی رہتی ہے، اپنے ہاں کی طرح، سیاست، مذہب اور کھیل پر وہاں اتنی بات نہیں ہوتی۔ لیکن فلموں کا تذکرہ ہو تو کمپنی کا صدر ہو یا چپڑاسی، جاہل ہو یا عالم ، سب بڑے رطب السان نظر آئیں گے۔ فلمی ستاروں کے اندرونی حالات، کس کی شادی کس سے ہورہی ہے ، کون کس سے طلاق لے رہا ہے۔ کس کی کون سی فلم آنے والی ہے اور فلم میں کون کون ہے، ہر چھوٹی بڑی جانکاری بچے بچے کو ازبر ہوتی ہے۔
” فلم والے تو ملتے ہوں گے آپ کو” عورت کی آواز میں حسرت تھی۔ گویا ممبئی اتنا چھوٹا سا تھا کہ سارے ممبئی والے ایک دوسرے کو جانتے ہوں گے۔
” ہاں ملتے ہیں کبھی کبھی” چاچی موڈ میں نظر آتی تھیں۔
” زینت امان، ہیما مالنی ، ریکھا کو تو دیکھا ہوگا”
” کیوں نہیں ۔۔۔۔سب کو دیکھتے ہیں ”
” ریکھا ملی ہے کبھی”
” نہیں ہمیشہ تو نہیں ملتی” چاچی کا انداز یوں تھا کہ ہاں ! کبھی کبھی تو ملتی ہے ریکھا۔
” کہاں ملتی ہیں یہ سب ۔ ریکھا کہاں ملی آپ کو؟”
” کبھی کبھار بازار میں ملتی ہے ، جب سبزی لینے آتی ہے”
” ریکھا سبزی لینے آتی ہے؟” اس کے لہجے میں حیرت تھی
” ہاں تو کیوں نہیں۔ اس کے گھر میں کھانا نہیں پکتا کیا” چاچی نے اس کی ناسمجھی پر تبصرہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں فرعون ثانی

چاچی کا گھر بھنڈی بازار میں تھا اور وہ اپنے کراچی کے جوڑیا بازار یا جونا مارکیٹ جیسا علاقہ تھا۔ ریکھا اور ہما مالنی شاید خواب میں بھی وہاں نہیں گئی ہوں گی۔
اور نیچے بیٹھے ہوئے، باجی، دیدی، مبی اور نادی ، دوپٹوں سے منہ چھپائے اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کررہی تھیں۔ اور تھوڑی دیر بعد کھی کھی کی آواز پورے ڈبے میں گونج رہی تھی۔
” چاچی بس کریں۔ بے چاری بے ہوش ہوجائے گی” سسٹر نے چاچی کو ٹوکا۔ سسٹر اور چاچی تقریباً ہم عمر تھیں۔
اور سسٹر ان سے دو ہاتھ آگے ہی تھیں۔ یہاں وہاں بیٹھے ہوئے مسافروں پر کوکنی میں آوازے کستی تھیں۔ اور اگر کوئی مڑ کر دیکھے تو انجان بن کر دوسری طرف دیکھنے لگتیں۔ اس سفر کی جان اگر کوئی تھا تو وہ سسٹر تھیں۔ راستے بھر ہنسی مذاق چلتا رہا اور قہقہے گونجتے رہے اور اکثر قہقہے سسٹر کی باتوں پر ہی ہوتے۔
اور میرے کان اندر کی باتوں پر لگے رہتے اور میں بھی ساری گپ شپ کا حصہ رہتا لیکن میری نظر باہر تیزی سے دوڑتے مناظر پر رہتی۔
سارے راستے ہریالی، کھیت کھلیان، جنگل، اور دریا نظر آتے۔ اور ایک منظر جو میں نے کبھی پہلے نہ دیکھا تھا وہ جگہ جگہ ، کھیتوں اور سبزے پر چہل قدمی کرتے یا پر پھیلائے ہوئے مور تھے۔ میں نے اس سے پہلے مور شاید چڑیا گھر میں دیکھا تھا یا پھر مور کے پر اپنی کتابوں میں دیکھے تھے جو نجانے کہاں سے ملتے تھے۔

میں نے دہلی سے بمبئی تک کے راستے میں جو ان دنوں تقریباً تیس گھنٹے کا تھا، کوئی بھی جگہ سبزے اور کھیت کھلیان سے عاری نہ دیکھی۔ ہندوستان، باہر کی دنیا کے لئے سونے کی چڑیا یوں ہی تو نہ تھا۔ قدرت نے اسے بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے اور غذا میں ہمیشہ خود کفیل بنا یا بلکہ فاضل اجناس دساور کی بھی بھیجی جاتی تھیں۔ یہی معاملہ معدنیات کا ہے، لوہے کے بے شمار ذخائر اور نہ جانے کون کون سے خزانے یہاں کی زمین میں دبے ہوئے ہیں۔
اور پھر میں یہاں کے باسیوں کی زبوں حالی دیکھتا تو سوچ میں پڑ جاتا کہ اتنا اناج کہاں جاتا ہے کہ یہاں جگہ جگہ ننگے بھوکے نظر آتے ہیں۔ غربت پاکستان میں بھی کم نہ تھی۔ لیکن میں نے کبھی وہاں بھوک نہیں دیکھی۔ یا کم از کم میرے شہر کراچی کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔
اور اس کا جواب سیدھا سادا سا یہ تھا کہ اتنی بڑی آبادی کا عفریت اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم یہ سارے ذرائع ہڑپ کر جاتی ہے۔ ہندوستان کی آبادی ہی اس کی مصیبت تھی۔
لیکن بہت جلد ہندوستانیوں نے اپنی اسی آبادی کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے کا گر جان لیا۔ اس وقت تک ہندوستان کی منڈیاں باہر کی دنیا کے لئے شجر ممنوعہ تھی۔ وہ اپنی صنعتوں کو ترقی دینا چاہتے تھے اور اسے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو۔
اور پھر یہی ہوا۔ چند سال بعد وزیراعظم نرسمہا راؤ کے وزیر مالیات منموہن سنگھ نے ہندوستان کی مارکیٹ کو باہر کی دنیا کے لئے کھول دیا۔ دنیا تو جیسے منتظر تھی کہ کب ایسا موقع ملے، کار کی صنعت سے لے کر مشروبات اور فاسٹ فوڈ تک اور بھاری مشینری اور بجلی کی بڑی بڑی کمپنیوں اور ہر طرح کی ملٹری نیشنل کمپنیوں نے گویا بھارت پر دھاوا بول دیا۔ اب بھارت دنیا کی چند تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اب وہاں متوسط طبقے کا حجم تیزی سے بڑھتا جارہا ہے اور شہروں میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ خوشحالی نظر آتی ہے۔ گو کہ اب بھی آبادی کا ایک بڑا حصہ ایک مہذب دنیا کو مطلوبہ معیار زندگی اور خط غربت سے بہت نیچے زندگی گذار رہا ہے لیکن وہاں عمومی سفر بہتری کی جانب ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب جمہوریت کا تسلسل ہے۔
یہ میں کیا قصے لے بیٹھا۔
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ٹوٹے ہوئے خوابوں نے ہم کو یہ سکھایا ہے
دل نے جسے چاہا تھا آنکھوں نے گنوانا ہے”

Advertisements
julia rana solicitors

میں برتھ پر لیٹا نیم غنودگی کے عالم میں تھا کہ ایک انتہائی درد بھری آواز نے مجھے اٹھ بیٹھنے پر مجبور کردیا۔
ٹرین کے فرش پر گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل بیٹھے ہوئے نوجوان کی آواز میں دنیا بھر کا درد سمٹ آیا تھا۔ یہ کوئی مانگنے والا تھا جو زمین پر رینگ کر چل رہا تھا۔ ٹرین شاید ‘رتلام ‘ کے اسٹیشن پر رکی تھی اور بہت سے خوانچہ والے اور مانگنے والے بھی اندر ہر گھس آئے تھے۔
وہ معذور تھا، جیسے ہندوستان پاکستان میں لاکھوں ہاتھ پیروں سے معذور منگتے نظر آتے ہیں ۔ اللہ جانے وہ پیدائشی یا کسی حادثے کے سبب معذور ہوتے ہیں یا بنائے جاتے ہیں،
اس کی آواز میں سوز تو تھا ہی لیکن وہ بڑے سر میں گا رہا تھا۔ میں نے اسے کچھ پیسے دئے جو شاید اس کی توقع سے کچھ زیادہ تھے۔
” اور کوئی بھی گانا آتا ہے” ۔ مجھے اس کی آواز نے بڑا متاثر کیا تھا۔
” ہاں صاب۔۔۔سناؤں؟”
” بالکل۔ کوئی اچھا۔ ایسا ہی گانا سناؤ”
اب اس نے ” انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر ہے” سنانا شروع کیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ معذوری نے اسے ٹرینوں میں مانگنے پر مجبور کیا ہے ورنہ ایسی آواز کا مالک تو بڑا نام اور پیسہ کمائے۔
” چلو، نکلو یہاں سے۔ ” یہ ریلوے کا ہرکارہ تھاجو اندر کا جائزہ لے رہا تھا۔ ٹرین اب چلنے ہی والی ہے۔
گیت ادھورا چھوڑ کر وہ نیچے اتر گیا۔۔۔

 

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply