ملزم کے باپ کو بچا لیں /سیّد بدر سعید

یہ کہانی پنجاب کے ہر ضلع کی کہانی ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ پنجاب ہی نہیں بلکہ پاکستان بھر میں ایسا ہوتا ہے تو شاید بے جا نہ ہو گا۔ مجھے جس شخص نے یہ کہانی سنائی اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا تھا لیکن میں یہاں پہ اس کا نام اس لیے نہیں لکھ رہا کہ یہ کسی ایک شخص یا ایک ضلع کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر جگہ پہ عموماً ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ بظاہر یہ ایک عام سا معاملہ ہے کہ کوئی شخص پولیس کو مطلوب ہو تو پولیس اس کو گرفتار کرنے کے لیے اس کے گھر چھاپے مارتی ہے، اگر وہ شخص پولیس کو نہیں ملتا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو حراست میں لے لیا جاتا ہے تا کہ ملزم پر اخلاقی اور معاشرتی دباؤ پڑے اور وہ اپنے پیاروں کو پولیس حراست سے بچانے کے لیے خود گرفتاری پیش کر دے۔ یہ بھی ایسی ہی ایک کہانی ہے، ایسی ہر کہانی کی طرح اس شخص کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس کے کزن کو مخالفین نے پولیس کے ساتھ مل کر جعلی کیس میں پھنسا دیا تھا۔ وہ لڑکا جس پر مقدمات درج کیے گئے اس کی ضمانت ہوئی لیکن اس کے بعد اس پر مزید مقدمات درج ہوتے چلے گئے۔ ملزم پولیس کے خوف سے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر کراچی چلا گیا اور وہاں پہ مزدوری کر رہا ہے۔ دوسری جانب روایتی انداز میں پولیس اس کے گھر چھاپے مار رہی ہے اور اہل خانہ کو پریشان کر رہی ہے۔ یہاں تک کی کہانی معمول کی ہے۔ ظاہر ہے پولیس نے جب کسی کو گرفتار کرنا ہے تو اس کے گھر چھاپہ مارا جاتا ہے اور اس کے اہل خانہ سے اس کے بارے پوچھا جاتا ہے۔ پاکستان کے اندر عموماً گھر کے کسی شخص کو حراست میں لے لیا جاتا ہے کہ ہمیں بندہ برآمد کر کے دیا جائے۔
اسی طریقہ کار کے مطابق پولیس اہلکار ایک دن اس شخص کے گھر گئے اور انہوں نے اس کے بوڑھے والد اور بھائی کو گاڑی میں بٹھا لیا کہ آپ کو ہم تھانے لے کر جا رہے ہیں۔ آپ نے لڑکے کو خود چھپایا ہوا ہے۔ ملزم کے بوڑھے باپ کو خوف سے اور دکھ کے عالم میں ہارٹ اٹیک ہوتا ہے اور وہ وہیں پر گر جاتا ہے۔ پولیس اہلکاروں نے جب دیکھا کہ بوڑھا شخص بے جان حالت میں گر گیا ہے تو انہوں نے اس کو گاڑی سے نیچے پھینکا اور اس کے بیٹے کو پولیس سٹیشن لے گئے۔ اسے اہل خانہ ہسپتال لے کر گئے لیکن ڈاکٹروں کے مطابق وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی وفات پا چکا تھا۔ پولیس سٹیشن میں جب یہ اطلاع پہنچی تو انہوں نے اس کے بیٹے کو بھی چھوڑ دیا تا کہ وہ اپنے والد کی تدفین کر سکے۔ مجھ سے رابطہ کرنے والے شخص کا یہ کہنا تھا کہ پولیس کے اس رویے پر انہوں نے پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی تو پولیس والے میت کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال لے گئے اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی اجازت کے بغیر میت ان کے حوالے نہیں کی جائے گی۔ اس کے بقول پولیس کا کہنا ہے کہ پہلے صلح نامہ کیا جائے۔
یہ المیہ صرف ایک گھر یا ایک ضلع کا نہیں پاکستان کے تقریباً ہر ضلع اور خاص طور پر پنجاب میں ایسی کئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ کسی شخص کو گرفتار کرنے کے لیے اس کے اہل خانہ کو ہراساں کیا جاتا ہے، گھر میں چھاپے مارے جاتے ہیں اور اکثر گھر کے کسی بے گناہ فرد کو پولیس حراست میں لے لیتی ہے تاکہ ملزم اخلاقی اور معاشرتی دباؤ کا شکار ہو اور اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے خود گرفتاری پیش کرے یا پھر اس کے اہل خانہ پولیس کے خوف سے یہ بتا دیں کہ وہ کہاں پر موجود ہے۔ اس کیس میں ایک شخص اپنی جان سے چلا گیا اس سے پہلے بھی متعدد واقعات میں پولیس کے چھاپوں کی وجہ سے بہت سے لوگ خوف کا شکار ہو کر حرکت قلب بند ہونے سے مر جاتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو ایسے افراد کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی ویلفیئر اور فلاح کے لیے بے پناہ اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے پولیس اہلکاروں کو اچھے رویے اور پروفیشنلزم کی بھی ہدایت کی ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ جتنی ترقیاں انہوں نے پولیس اہلکاروں کو دیں اور پولیس اہلکاروں کو جتنے میڈلز دیے اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے پولیس اہلکاروں کو شہادت اور بہادری کے میڈلز بھی دیے۔ پولیس ویلفیئر پر اتنا کام اس سے پہلے آج تک نہیں کیا جا سکا جتنا انہوں نے کیا ہے۔ اگر آئی جی پنجاب اپنی فورس کو یہ ہدایت دے دیں اور یا ایسا کوئی قانون بنا دیا جائے کہ پولیس کے کسی چھاپے کے دوران کسی شخص کو ہارٹ اٹیک ہو یا کسی کی طبیعت خراب ہو تو پولیس اہلکار اس کو وہاں چھوڑ کر جانے کے بجائے فوری طور پر طبی امداد مہیا کرنے کا بندوبست کریں، پولیس اہلکار یا تو ہسپتال سے ایمبولینس منگوائیں یا اس شخص کو فوری طور پر ہسپتال پہنچا دیا جائے تاکہ اس کی جان بچائی جا سکے۔ کسی بھی شخص کا ملزم یا مجرم ہونا الگ معاملہ ہے لیکن زندگی بچانے کا حق مجرم کے لیے بھی ہے۔ سزا دلانا لازم ہے لیکن انسانی زندگیوں کو بچانا ناگزیر ہے۔ کسی شخص نے کوئی جرم کیا ہے تو اسے سب سے پہلے قانونی گرفت میں لایا جائے۔ پولیس اپنا کام کرتی رہے لیکن اس کے دوران اگر ایسی ہدایات بھی شامل کر دی جائیں تو ایسے کئی باپ بے بسی کی موت مرنے سے بچ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

سيد بدر سعید
سب ایڈیٹر/فیچر رائیٹر: نوائے وقت گروپ ، سکرپٹ رائیٹر ، جوائنٹ سیکرٹری: پنجاب یونین آف جرنلسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply