یوں بھی ہوسکتا ہے؟۔۔اشفاق احمد

انہیں میری پھوپھی کہہ لیں کہ وہ میرے والد کی کزن ہیں۔ شانگلہ کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں وہ پہلی معلمہ ہیں۔ گھر اور خاندان میں اُن کو پکارے جانے والے تین نام مماں، بی بی گل اور بھابھی اُن کے مزاج اور کردار کی وجہ سے گھر سے یوں نکلے ہیں کہ ہزاروں کے لبوں سے اب یہ نام پکارے جاتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ  ہو؟ بچپن سے ہم نے اُن کو جس کردار میں دیکھا ہے، وہ بس دو لفظوں کا مرکب ہے، وقار اور محبتیں۔

ان کو غصہ بہت آتا ہے لیکن ان کے غصے پر ہمیشہ اداکاری کا گمان ہوا ،کیونکہ لمحوں میں وہ ہنس کر یوں منا لیتی ہیں کہ اگلا حیران رہ جاۓ۔ ان کے ہنسنے اور منانے پر البتہ کبھی اداکاری کا گمان نہ ہوا کہ یہ کام وہ دل سے کرتی ہیں۔

اُن کے شوہر بھی کمال اور ملنسار انسان ہیں۔ وہ بھی تعلیم کے شعبے سے منسلک معلم ہیں۔ علاقے میں دو ناموں سپین دادا اور بھائی  جان سے جانے جاتے ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے سے دور کسی نے کم ہی دیکھا ہے۔ خاندان یا خاندان سے باہر کی ہر خوشی میں اور ہر غم میں دونوں کا ایک ساتھ جانا ہوتا ہے۔

کچھ ماہ قبل بی بی گل بیمار پڑ گئیں۔ تشخیص ہوئ تو پتہ چلا کہ اُن کے گردے کام چھوڑ چکے ہیں۔ بھائ جان کی کیفیت دیکھ کر ہر کوئی  اندازہ لگا گیا کہ وہ آدھے رہ گئے۔ بھائی  جان نے لیکن ہمت نہیں ہاری۔ ہر ہر جگہ ان کو لے کر گئے لیکن آخری حل بس ڈائیلائسس ٹھہرا یا پھر گردے کی تبدیلی۔ ڈائیلائسس تو خیر شروع ہو گیا لیکن بھائی  جان گردے کی تبدیلی کے لیے جان لڑانے میں جت گئے۔ ڈائیلائسس ہمارے گھر کے قریب ایک کڈنی ہسپتال میں ہونا طے پایا۔ ہم جب ایک ایکبار اُن کے ساتھ تھے تو پتہ چلا کہ بی بی گل ایک شدید تکلیف دہ کیفیت سے گزری تھیں، اِس قدر تکلیف دہ کہ اس کا احساس کرنا مشکل تھا لیکن بی بی گل کے کیا کہنے کہ وہ ہمیں یہ تکلیف دہ قصہ لفظ بہ لفظ سنا کر خود پر بے اختیار ہنس رہی تھیں۔

بھائی  جان اِس پورے عرصے میں اُن سے جدا نہ ہوۓ۔ ہم نے لاکھ سمجھایا کہ خدارا بچے سبھی موجود ہیں، آپ گھر جاکر آرام کرلیں لیکن وہ ماننے پر راضی نہ تھے۔ بی بی گل کے بیڈ کا سرہانہ، وارڈ کے باہر پڑا بینچ اور ہسپتال میں موجود مسجد ان کا ٹھکانہ تھا۔ باہر بے چینی بڑھ جاتی تو اندر بیڈ کے قریب جاکر بی بی گل سے باتیں کرنا شروع کر دیتے۔ ہسپتال کے قریب ہی “گلی باغ” نام کا ایک علاقہ رستے میں پڑتا ہے۔ بی بی گل کو وہ جگہ بہت پسند تھی۔ بھائی  جان ایک دن گئے اور وہاں کرائے پر شاندار گھر لے دیا کہ وہ جب صحت یاب ہو جائیں تو اُن کی پسند کی جگہ پر اُن کے لیے گھر موجود ہو۔
—————————-
آج سے ایک ہفتہ پہلے بی بی گُل دنیا چھوڑ گئیں۔ شانگلہ میں تعزیت کے لیے آنے والے مہمانوں کا تانتا بندھ گیا۔ بھائی  جان کھوۓ کھوۓ سے لیکن ہر ہر مہمان کی خاطر مدارت میں دل و جان سے مصروف تھے۔ کافی لوگوں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ پل کے لیے سب سے الگ جاکر کچھ آنسو بہا کر من کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔

جس طرح کی زندگی ہم نے بچپن سے اِن دونوں کی دیکھی تھی، ایک سوال رہ رہ کر پریشان کر رہا تھا کہ بھائی  جان بی بی گل کے بناء جی کیسے پائیں گے؟ اس سوال کا جواب چوتھے دن مل گیا۔
بی بی گل کے جانے کے چار دن بعد بھائی  جان بھی رخصت ہوگئے۔ یہ سب پچھلے ایک ہفتے کے اندر اندر ہوگیا۔

میں نے شروع میں حال کا صیغہ اس لیے استعمال کیا کہ یہ کہانی کسی صورت مجھے ختم ہوتے محسوس نہیں ہو رہی۔ وہ جیتے جاگتے کردار محبت اور خوش مزاجی کا استعارہ ہیں۔ بچپن سے ہی میں نے اُن دونوں کو خاندان کی محفلوں کی جان بنتے دیکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بی بی گل کے بھائی  قاسم ایک محفل میں بی بی گل کی علاقے کے لیے خدمات پر بات کر رہے تھے تو قریب بیٹھے ایک صاحب افسردہ سے لہجے میں کہنے لگے کہ یہ بھی تو کہو کہ ہم نے بھائی  جان کی صورت انسان کیسا دیا تھا؟ جو چار دن بعد ہی اُن کے پاس پہنچ گیا۔ ماحول میں افسردہ سی خاموشی چھا گئی  اور قاسم نے مسکرا کر اس کے کاندھے پر ہاتھ کر کہا، ” تم جیت گئے یار، یہ بات کہہ کر تم جیت گئے”۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ دونوں کردار جیت کر امر ہوگئے۔
ہم سب تاحال افسردہ ہونے کے ساتھ ساتھ حیرت زدہ ہیں کہ یوں بھی ہو سکتا ہے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply