جھوٹ بولنا کیوں ضروری ہے؟ /خواجہ مظہر صدیقی

مجھے تو ایسے لوگوں کی آج تک سمجھ نہیں آئی جو بلا وجہ اور بے سبب جھوٹ بول کر دوسروں کو متاثر کرنے اور سماج میں بڑا بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ صرف اور صرف پاور میں آنا چاہتے ہیں ۔ جھوٹ اور شارٹ کٹ کو سیڑھی بنا کر ترقی اور کامیابی پانا ان کا خواب ہوتا ہے ۔

ہم نے بچپن سے اب تک یہی سنا تھا کہ لوگ خوف اور لالچ کی وجہ سے جھوٹ بولنے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن اب جہاں خوف کا نام و نشان نہ ہو ، لالچ اور غرض سے دور تک کا واسطہ نظر نہ آتا ہو پھر بھی نا عاقبت اندیش لوگ جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔

یہاں سوال یہ بھی تو بنتا ہے کہ لوگ آخر جھوٹ کو اختیار ہی کیوں کرتے ہیں؟ جھوٹ کے عادی کیوں بن جاتے ہیں؟ جھوٹ کی بیل ایک دم کیسے پھیل جاتی ہے۔ اس کا جواب سیدھا سادہ تو یہ ہے کہ جھوٹ کی عادت کسی ایک وجہ سے پختہ و پروان نہیں چڑھتی اس کی سیکڑوں وجوہات ،اسباب اور توجیہات بیان کی جا سکتی ہیں۔

کچھ لوگ چھوٹے سے فائدے کے لیے ، بعض لوگ کسی کو دھوکا دینے کے لیے، کئی لوگ کسی سے کچھ ہتھیانے اور کسی کو بڑے اور بھاری نقصان پہنچانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔ اسی پر نہیں بلکہ جھوٹ پر سختی سے قائم رہنے کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹا حلف بھی اٹھا لیتے ہیں۔

کسی نے سچ کہا ہے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ۔ جھوٹ چھپائے چھپتا نہیں ، جھوٹ آشکار ہو ہی جاتا ہے ۔ یہ پکڑا جاتا ہے۔ جھوٹا الزام ،جھوٹا وعدہ اور جھوٹ پر مبنی پلان سبھی کے مقدر میں ذلالت آ کر رہتی ہے ۔ رسوائی کے ساتھ جگ ہنسائی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جھوٹ عارضی سہارا ہے ۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ جھوٹ لکھنے ، بولنے اور پھیلانے والے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ جھوٹ سے ملی پاکبازی اور پارسائی کا سومنات بعض اوقات ایک جھٹکے سے آ گرتا ہے۔ جھوٹ کے عادیوں اور کثرت سے جھوٹ بولنے والوں کے چہروں پر چمک اور نورانیت قریب نہیں آتی ۔ جہاں جھوٹ کے ڈیرے ہوں وہاں اندھیرے ہوتے ہیں ۔ روشنی بھاگ جاتی ہے ۔ نیکی روٹھ جاتی ہے ۔
گمان یہی ہے جھوٹ کے رسیا کے لیے زمین کانپتی ہو گی ۔ آسمان لرزتا ہو گا کیوں کہ اس کے لیے خالق کائنات کی طرف سے لعنت جو پڑتی ہوگی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مومن میں ہزار چھوٹی بڑی برائیاں اور خامیاں ہو سکتی ہیں پر وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا ۔ کوئی نامی گرامی جھوٹا اگر جھوٹ بولنے کی عادت کو ترک کر کے ، توبہ تائب ہو کر بندہ سدھار کی طرف آ جائے اور سچ کو اختیار کر لے تو میرا خیال ہے کہ اس کا رب اس کی توبہ سے بہت خوش ہو گا۔
سچ کے سفر میں سچ کو پانے کی مسرت جھوٹ سے نفرت پیدا کرتی ہے ۔ دل میں خیال آتا ہے کہ شاید جھوٹ سے کمائی ہوئی دولت ، عزت اور شہرت جہنم کا ایندھن ہی بنے گی ۔ اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ جتنی جلدی اصلاح احوال کی توفیق ملے اتنا ہی فائدے کا سودا ہے ۔ جھوٹ کی بے ذائقہ چیونگم کو نکال پھینکنے سے عافیت و خوشی اور عظمت کا سفر آسان ہو جائے گا ۔
جھوٹ کا بیج جب تناور درخت بن جاتا ہے تو پھل پھول ساتھ لاتا ہے۔ فقط ایک لمحے کو سوچیے کہ جھوٹ کی بنیاد اور کھاد سے پلنے اور پکنے والے پھل بھلا زہر کی مانند نہیں ہوں گے ۔ وباؤں ، بیماریوں اور ہلاکتوں کے سیلاب آیا کرتے ہیں جو سچے جھوٹے دونوں کو بہا لے جاتے ہیں ۔
سچ کی فصل کو سرسبز و شاداب دیکھنے کے لیے جھوٹ کا سد باب ضروری ہے۔ اس کے لیے صدیوں کی ریاضت و مشقت کی ضرورت نہیں ۔ ایک مضبوط لمحہ ، خوش بخت گھڑی اور توانا ساعت ہی کافی ہے ۔ دل و ذہن سچ پر آمادہ ہو جائیں تو پھر ڈٹ جاؤ ، بھلا جھوٹ کے بت پاش پاش کرنے میں دیر کاہے کی ۔ سچ کے مینار کھڑے کرنے اور تعمیر کرنے کے لیے اینٹ ، پتھر ، بجری ، سریا اور سیمنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ غیر معمولی اعتماد اور یقین ہی کافی ہے ۔ سچ کے سرچشمے پختہ عزم و ارادے سے پھوٹیں گے ۔
مظہر صدیقی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply