ریڈیکل اسلام بمقابلہ جدیدیت۔۔احمد ہاشمی

فرید زکریا سی این این کے مشہور اینکر ہیں -اپنے پروگرام جی پی ایس میں انھوں نے ایک اہم سوال اٹھایا کہ مسلمان امریکہ سے نفرت کیوں کرتے ہیں -مسلمانوں سے بالخصوص ان کی مراد ریڈیکل اسلام کے علمبردار تھے -یہ سوال پچھلی کئی دھائیوں سے زیر بحث ہے کہ مسلم آئیڈیالوجیز اور امریکی نظریات میں اس قدر تضاد کیوں ہے؟۔ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر مسلم امہ کے ایک بڑے گروہ نے امریکہ کو اپنا براہ راست حریف مان لیا ہے –

اسلامی شدت پسند صرف امریکہ اور مغرب سے ہی نفرت نہیں کرتے بلکہ جدید دنیا کا ہر نظام ہی ان کو طاغوت سے مماثل نظرآتا ہے اور ایسا ہر مسلمان بھی ان کے نزدیک قابل نفرت ہے جو جدید نظریا ت جیسا کہ جمہوریت ،آزادی اظہار  رائے کا حامی ہو یا کسی بھی طرح سے ان سے فائدہ اٹھا رہا ہو -کیونکہ شدت پسند کے نزدیک زندگی کی اعلی سے اعلی کامیابی انفرادی اور معاشرتی زندگی کی قرون اولی سے جس قدر مطابقت بن سکے بنانا ہے -اس لئے اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی ہوتی ہے کہ اس دنیا میں ہونے والی ہر تبدیلی انسانیت کے مفاد میں نہیں بلکہ حدود اللہ پر کمند ڈالنے کی کوشش ہے اور ان تبدیلیوں کے نتیجے میں جو بھی نظام ابھر کر سامنے  آئے گا وہ طاغوتی نظام ہوگا اور طاغوت کا خاتمہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ۔ وکلمتہ اللہ ھی العلیا کی دعوت اور اس کا قیام امت مسلمہ کا بنیادی فرض ہے -یہ ہے وہ بنیادی فکر جس کی بنیاد پر وار آن ٹیرر کی تمام عمارت قائم ہے –

اگر چہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کے مقابلے میں شدت پسند مسلمان آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت کسی نا کسی سمت میں شدت پسندی اور ایکسٹریمزم کا شکارہے -اکثر مسلمان ملکوں کے قوانین ایسے ہیں جو تمام مذاہب کی آزادانہ پریکٹس کی ممانعت کرتے ہیں لیکن پرکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ چیز کیا اسلامی روایت کے ساتھ منتقل ہوئی یا یہ بذاتِ  خود اسلام میں ایک بدعت ہے –

اسلامی تاریخ کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں جنگ اور امن کے کئی ادوار نظر آتے ہیں ۔انیسویں صدی میں بہت سے یہودیوں نے عیسائیوں کے ظلم و ستم سے تنگ  آکر نسبتاً  بہتر اور پرامن سلطنت عثمانیہ کے جھنڈے تلے پناہ لی ۔یہی وجہ تھی کہ مشرق وسطی میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد بیسویں صدی کے آغاز میں مشرق وسطی میں آباد ہوئی -لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ اسی مشرق وسطی پر اسلامی شدت پسندوں کا اثررسوخ بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں ابراہیمی مذاہب کے تمام فریقین حبسِ  بے جا کا شکارہیں –

Advertisements
julia rana solicitors

اب اپ خود فیصلہ کر لیجئے کہ کیا سلطنت عثمانیہ اسلام کو صحیح سمجھی تھی یا آج کے شدت پسند ؟
دراصل مذہبی شدت پسندی کوئی مذہبی نظریہ نہیں کہ اس کی جڑیں مذہب میں تلاش کرنے کی کوشش کی جائے -میرے نزدیک یہ مسئلہ مذہب سے زیادہ سیاسی ہے -اس پورے مسئلے میں مذہب بطور فریق شدید تنقید کا نشانہ بنتا ہے لیکن سیاسی پہلوؤں پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے -ریڈیکل اسلام دراصل مسلمانوں کی شکست خوردہ اکانومی اور سیاسی عدم استحکام کا پروڈکٹ ہے -شدت پسند گروہوں کو ریڈکلزم کے نتیجے میں ایک ایسا سراب نظر آتا ہے جس کے نتیجے  میں وہ جدید دنیا کے خلاف ایک جنگ برپا کر کے اس فردوس گم گشتہ کو پا لیں گے جو ان کے خیال میں مغرب اور امریکہ نے مسلم تہذیب کا استحصال کر کے ان سے چھین لی   ہے  -یہ نظریہ اب پورے دنیا کے مسلمانوں خاص طور پر ان طالبعلموں میں جو خاص طور پر انہی ملکوں میں زیر تعلیم ہیں میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے –
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم معاشرے اس عفریت سے کیسے چھٹکارا پاتے ہیں -کیونکہ ایک متبادل بیانیہ اس وقت اہم ضرورت ہے جس پر تمام قابل ذکر مکتبہ فکر متفق ہوں ۔مذہب صرف عقیدہ کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ پہچان کا بھی ایک اہم عنصر ہے -ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی جدت پسندوں کے بیانیے کو فروغ دیا جائے جس سے اصلاح کا ایک پہلو خواہ وہ عقائد میں ہو یا معاشرت میں ظہور پذیر ہو سکے -شدت پسند اپنے تمام استدلال کا ماخذ مذہبی مصحف کو ہی قرار دیتے ہیں اور اسی سے اپنے تمام دلائل بخوبی اخذ کرتے ہیں -مذہب کا صحیح تصور اورمعاملات کو دور اندیشی سے دیکھنے کی صلاحیت مسلمان نوجوانوں میں لانی ہوگی جس کے نتیجے میں ہمیں مذہبی نظریات کے ٹکراؤ  کو کم کرنے میں مدد ملے گی –

Facebook Comments

احمد ھاشمی
احمد ھاشمی انجئنرنگ کے آخری سال کے طالبعلم ھیں .مزھب ،فلسفہ اور سماجیات زاتی دلچسپی کے میدان ھیں .وہ موضوعات جنھیں عام طور پر زیر بحث نھیں بنایا جاتا ان پر طالبعلمانہ انداز میں روشنی ڈالنے کی کوشس کرتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply