پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم موڑ وہ تھا جب 2015 میں سعودی عرب یمن کے ساتھ جنگ کر رہا تھا اور ایران یمن کے حوثی باغیوں کی مدد کر رہا تھا اس وقت خبروں کے مطابق سعودی عرب نے پاکستان سے اپنی فوجوں کو سعودی عرب کی مدد کے لیے بھیجنے کی درخواست کی تھی اور اس وقت پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف تھے جن پر سعودی حکومت کے ذاتی احسانات بھی تھے ،جب سعودی حکومت نے انہیں جیل سے نکلوا کے اپنے ملک میں رکھا تھا اور انکی خوب دیکھ بھال کی تھی۔
اس وقت معاملہ مگر ذاتی احسانات کا بدلہ ملکی مفادات کا سودا کر کے چکانے کا نہیں تھا یہ ایک ایسا فیصلہ ہوتا جس سے پاکستانی فوج پر کرائے کی فوج ہونے کا ٹھپہ لگ جاتا اور پاکستانی فوجیوں کی حیثیت mercenaries جیسی ہو جاتی جسکی خدمات بعد میں کوئی بھی ملک اپنی طاقت یا پیسے کے عوض حاصل کر سکتا تھا۔
نواز شریف اس وقت اپنے ملک میں کافی مشکلات میں گھرے ہوئے تھے اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے خلاف ملک میں کوئی اور ہی کھیل کھیل رہی تھی اور انہیں اقتدار سے الگ کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی تھی ،مگر اس پریشر کے عالم میں بھی نواز شریف نے جو فیصلہ کیا وہ آج پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکز بن چکا ہے اور جس کی وجہ سے آج پاکستان خارجہ محاذ پر کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔
نواز شریف نے سعودی حکومت کی درخواست پر انہیں جواب دیا کہ ہم اس پر پارلیمنٹ سے رائے لیں گے اور اسکے مطابق فیصلہ کریں گے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ خبریں موجود تھیں کہ اسٹیبلشمنٹ بھی سعودی درخواست کو منظور کرنے کے حق میں تھی ظاہر ہے اسکا کوئی ٹھوس ثبوت تو موجود نہیں مگر کہا یہی جا رہا تھا۔
سعودی حکومت کی درخواست کو پارلیمنٹ میں لایا گیا جہاں فیصلہ یہ کیا گیا کہ پاکستان حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے ہر وقت سعودی حکومت کے ساتھ کھڑا ہے مگر کسی دوسرے ملک سے جنگ کے لیے اپنی فوجیں نہیں بھیج سکتا۔
اس فیصلے سے سعودی حکومت کے ساتھ ساتھ یو اے ای جو کہ سعودیہ کا اہم پارٹنر ہے دونوں نواز شریف سےسخت ناراض ہوئے اور بعد میں اقامہ والے کیس میں یو اے ای کی حکومت کا کردار بھی سب نے دیکھ رکھا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ نواز شریف کا ایک ایسا کام تھا جس میں دانائی اور حکمت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔
بعض اوقات ملک کے لیے کچھ فیصلے اپنی ذات سے اٹھ کے بی کرنے پڑتے ہیں نواز شریف کا یہ فیصلہ ایسے ہی فیصلوں میں شمار ہوتا ہے اور آج پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی اسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔
بھارت پاکستان پر حملہ آور ہوا تو ایران نے بھارت کی مذمت میں چند الفاظ تک نہ کہے بلکہ اگلے دن بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ ایم او یوز سائن کر رہا تھا جبکہ پاکستان نے ایران پر حملے کی مذمت کی، سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی قرارداد پیش کی اور سلامتی کونسل اجلاس میں ایران کی بھرپور حمایت کے ساتھ ساتھ اسرا ئیل کی بدمعاشی کو خوب لتاڑا بھی ہے پاکستان سے اس سے زیادہ کا تقاضا ایک فضول بات ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں