ترقی کے چودہ زینے۔۔۔محمد نصیر زندہ

1: آبادی اور وسائل میں عدم ِ توازن ہو تو بھوک کا عفریت جنم لیتا ہے۔ اگر آبادی بڑھ رہی ہے اور وسائل کم ہو رہے ہیں تو افلاس گھنائونے جرائم کی افزائش کرے گا۔ آبادی کو وسائل سے مشروط کر کے ایک سخت گیر ضاطبے کا اطلاق کرنا ہو گا۔ انسان کی مقدار کم کر کے اُس کی کوالٹی کو بہتر بنانا ہو گا۔بے ہنگم ہجوم سماجی نا ہمواری کے ساتھ ساتھ انسان دشمن اور اعلیٰ انسانی شعور سے دور ہوتا ہے۔ کسی بھی حکومت کا اولیں فرض ہے کہ وہ آبادی اور وسائل کے تناسب میں توازن قائم کرے۔
2:مسائل بالواسطہ یا بلا واسطہ ظلم کی پیداوار ہیں۔جب چیزیں اپنی جگہ پر نہیں ہوتی ہیں تو نالائق لوگ لائق لوگوں کے منصب پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ واقعات جب انصاف کے مطابق نہیں ہو رہے ہوتے تو حادثات رونما ہوتے ہیں۔ظلم کی ضد عدل ہے۔عدل کا سورج ظلم کے اندھیروں کو جلا دیتا ہے۔عدلیہ کسی قوم یا ملک کے زوال و عروج کی ذمہ دار ہوتی ہے۔اگر کوئی ملک ترقی کے زینے طے کر رہا ہے تو اس کی وجہ عدلیہ کا انصاف پذیر ہونا ہے۔ اگر کوئی قوم انحطاط پذٰر ہے تو اس کے زوال کا بڑا سبب عدلیہ کا ظلم پرور ہونا ہے۔عدلیہ میں انساف پسند اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ کسی بھی سطح پر ججز کا تقرر غیر سیاسی اور میرٹ پر ہو۔فیصلوں میں تاخیر بھی نا انصافی ہے۔ظلم پروف عدلیہ ترقی کی ضامن ہے۔
3:فوج قوم کی ڈھال ہوتی ہے۔جارحیت کے رستے میں لوہے کی دیوار،جس کی تعمیر میں قومی امنگوں کا خون خرچ ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک کی فوج اور اس کی عوام میں فاصلہ بڑھ جائے تو نہ صرف محاذِ جنگ پر شکست ہوتی ہے،بلکہ عسکری قوت بے وقار ہو کر رہ جاتی ہے۔دنیا میں جہاں جہاں فوج حکومت کرتی ہے یا وسائل پر نا جائز قبضہ کرتی ہے یا اُن کا عمل دخل بڑھ جاتا ہے تو وہ ملک معاشی طور پر کنگال ہو کے رہ جاتا ہے۔عسکری عہدہ داروں اور عوام کے طرز ِ حیات میں ایک نمایاں فرق نظر آنے لگتا ہے۔جب زیادہ وسائل فوج پر خرچ ہوں تو اُس وقت فوج میں اصلاحت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے پہلے اسٹیٹس کو،کی دیوار گرانا پڑتی ہے کہ فوج اور عوام ایک صفحہ پر ہو کر ملکی نظریے کا دفاع کریں۔فوج میں اصلاحات کوئی صاحب ِ فراست سپہ سالار یا خالص لیڈر ہی کر سکتا ہے۔
4:بدعنوانی عدلیہ کا ذیلی مسئلہ ہے۔لیکن اسکی جڑیں ظالم سماج کے پاتال تک جاتی ہیں۔بد عنوانی جب کسی معاشرے کی عادت بن جائے تو علم اُس معاشرے سے اٹھ جاتا ہے۔عزت کا معیار روپیہ پیسہ بن جاتا ہے۔کامیابی یہ سمجھی جاتی ہے کہ کسی کی معاشی سلطنت کتنی وسیع ہے۔ وہ کتنا ظالم ہے یہ کوئی نہیں دیکھتا۔بد عنوانی کا علاج سخت تادیبی قوانین کا نفاذ ہے جہاں شک کا فائدہ بھی مجرم کو نہ ملے۔کرپشن نہ فوج کا سپاہی کرتا ہے نہ کسی ادارے کا چپڑاسی۔یہ گناہ صرف صاحب ِ اقتدار طبقہ ہی سرانجام دیتا ہے۔کرپشن کے خاتمے کے لیے نہ صرف قانون سازی کی ضرورت ہے بلکہ اصلاحات کا ایک آہنی جال بچھانے سے ہی بدعنوان عناصر پر ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے۔
5:سرمایہ دارانہ نظام میں قرض دے کر قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے۔نالائق حکمران اور جعلی لیڈر آسانی سے اس میں پھنس جاتے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بڑے بڑے معاشی منصوبے شروع کر کے قوم اور ملک کو ایک لمبے عرصے کے لیئ سامراجی قوتوں کا آلہ کار بنا دیتے ہیں۔قرض دار ممالک کی آزادی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔حکمرانوں میں احساس ِ غیرت کے ساتھ ساتھ عقل و فراست بھی مر جاتی ہے۔ وہ قرض لینے کو کامیابی سمجھ لیتے ہیں۔ مالیاتی اداروں کے قرض پر سود کی اذیت عام آدمی بھی محسوس کرتا ہے۔ قرض سے پرہیز ہی مرض سے بہتر ہے۔قرض صرف ایسے صنعتی یونٹس کے لیے لینا چاہیے جو ملک کی بر آمدات میں اضافہ کر سکیں۔
6: تعلیم اور جہالت کے درمیان ایک فاصلہ ہے۔ اگر یہ فاصلہ ختم ہو جائے تو تعلیم سے ابدی جہالت پیدا ہوتی ہے۔اگر تعلیم کی روح مادی ہے تو تعلیم تجارت کی شکل اختیار کر لے گی۔جس سے طبقاتی نظام ِ تعلیم تجارت کی شکل اختیار کر لے گا۔جس سے طبقاتی نظام ِ تعلیم ایک مافیا کی صورت میں نمودار ہو کر سارے بے ضمیر انسانوں کو مفادات کی چھتری کے نیچے کھڑا کر دے گا۔ایسے نظام ِ تعلیم سے تحقیق و تالیف سے بھاگنے والے مقالہ چور سکالرز اور مال بنانے والے اساتذہ و پروفیسر جنم لیتے ہیں۔ اس قسم کی تعلیم سے سب سے بڑا نقصان ہر سطح پر قحط ِ قیادت کا پیدا ہونا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے طبقاتی نظام ِ تعلیم کو ختم کر کے ایک نساب پوری قوم کے لیے مرتب کرے۔ تعلیم کی تجارتی نوعیت کو کمزور کرنے کے لیے گورنمنٹ سیکٹر میں مفت تعلیم کو خوب رواج دیا جائے۔ ایک طالب علم جب تعلیم پر خرچ کرتا ہے تو وہ اس کی قیمت معاشرے سے وصول کرتا ہے۔ تعلیم کا قبلہ درست کیے بغیر کوئی قوم منزل نہیں پا سکتی۔
7:معاشی منصوبہ بندی کا نہ ہونا کس ملک کو اللوں تللوں کے حوالے کرتا ہے۔ جن کے پاس صرف خرچ کا گوشوارہ ہوتا ہے۔بجٹ خسارا اور معاشی ابتری ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔آپ نے اپنے وسائل کو منافع بخش کس طرح بنانا ہے اور انھیں کہان کہاں خرچ کرنا ہے،زر ِ مبادلہ کی بچت کیسے کرنی ہے،پیسے کے بہائو کو منصفانہ کیسے بنانا ہے،معاشی منصوبہ بندی سے ہی ملک کو سامراجی غلامی سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔
8:عہد ِ نو میں معاشی بقا کے لیے صنعت سازی نہایت ضروری ہے۔ دنیا اب ایک معاشی میدان ِ جنگ ہے۔یہ جنگ وہی جیتے گا جس کی اشیا اعلیٰ معیار کی ہوں گی۔حکومت کا فرض ہے کہ صنعتوں کے قیام کے لیے اصلاحات نافذ کرے گھٹیا اشیا بنانے والوں کی گرفت کرے۔ اپنے ملک کی مصنوعات استعمال کرنے کا رواج ڈالے۔
9: اگر قیامت کے آنے میں تاخیر ہوئی تو آںے والے زمانے میں وہی ملک جنت نظیر ہو گا جس میں جنگلات عام ہوں گے اور درخت تقدس کی علامت سمجھا جائے گا۔ درختوں اور باغات سے گھری ہوئی سڑکیں جگہ جگہ پھل دار بوٹے روش روش کھِلے ہوئے پھول انسانی روح اور جسم کو صحت کے خزانے عطا کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ہر تحصیل میں ایک جنگل ہو۔سڑکوں کے کنارے پھل دار درخت لگائے جائیں۔ایک انسان ایک پودا کا قانون نافذ کیا جائے۔درخت کاٹنے والے کو نہ صرف سزا دی جائے بلکہ اس عادت کو جڑ سے کاٹا جائے۔
10:اسمبلیوں میں کوئی ایک ایسا شخص ہے؟ جو فطین ہو،جس کے ماتھے پر بصیرت کا ستارا چمک رہا ہو،اور وہ سیاست میں پیسہ بنانے کے لیے نہ آیا ہو۔ لالچ خواہ اقتدار کا ہو یا دولت کا، انسان کو بے وقار بنا کے چھوڑتا ہے۔قومی خزانے سے کسی فنڈ کا اجرا کسی سیاسی نمائندے کی صوابدید پر نہیں ہونا چاہیے۔ جب سیاست دانوں کے ذاتی مفادات قومی مفادات سے افضل ہوں جہان سیاست دان کک بیکز کی صورت میں کمیشن لیتے ہوں تو ایسا طرزِ سیاست عوام کی زندگی جہنم بنا دیتا ہے۔اس روش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
11:ہائوسنگ سوسائٹیاں زمین پر ناسور کی طرح اُگ رہی ہیں۔جنگلات کاٹ کر لوہے اور سیمنٹ کو کاشت کیا جا رہا ہے۔غریبوں کی زمینیں لینڈ مافیا اونے پونے میں ہتھیا رہا ہے۔زرعی زمین سکڑتی جا رہی ہے۔دولت کا بہائو غریبوں سے امیروں کی طرف بہہ رہا ہے۔آج کا امیر قارون کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔سرمایہ چند ہاتھوں میں آ کر بیرون ِ ملک منتقل ہو رہا ہے۔زرعی زمین پر کسی کو گھر بنانے کی اجازت نہ دی جائے۔جہاں معاملات خود بخود آگے بڑھتے ہوں اور کوئی قانونی روک ٹوک نہ ہو وہاں ظلم بویا جاتا ہے اور بھوک کاٹی جاتی ہے۔
12:تعصب انسانیت کے خلاف ایک جنگ ہے۔متعصب شخص انسان کہلانے کا حق دار نہیں کیونکہ وہ رنگ و نسل، مذہب و ملت کی بنیاد پر دوسرے انسان کو برداشت نہیں کرتا۔وہ معاشرہ کیا ترقی کرے گا جہاں مختلف قسم کے لوگ موت کے خوف سے دوچار ہوں۔عصبیت بڑا دماغ پیدا نہیں کر سکتی۔ہر قسم کے انسان کو زندگی کا حق دینا کسی قوم کا اخلاقی اور ملک کا آئینی فرض ہے۔
13: توانائی کا بحران ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بیرونی کمپنیوں سے تیل اور گیس سے بجلی فراہم کرنے کا معاہدہ عوام کے لیے اذیت ناک ہے۔انھیں خطیر زر ِ مبادلہ دے کر ملک اور قوم کو کنگال کرنے کا سفر یہیں سے شروع ہوتا ہے۔پانی ہوا اور سورج سے بجلی پیدا کرنے کے چھوٹے منصوبے شروع کیے جائیں۔لوگوں کو اپنی بجلی خود پیدا کرنے کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔
14:مسائل کتنے ہی مشکل ہوں ایک لیڈر کے لیے ان کا حل نا ممکن نہیں ہوتا۔لیڈر خدا کی وہ عظیم نعمت ہے جس کے سامنے مشکلیں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔کیونکہ وہ ہر قسم کے منصوبہ ساز خیالات سے لیس ہوتا ہے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی لیڈر ہو اور مسائل کے حل کا نسخہء اکسیر پاس نہ رکھتا ہو۔تو ثابت ہوا کہ قحط ِ قیادت کس قوم کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔اس درد کا علاج یہ ہے کہ کوئی قوم سال ہا سال اپنے نونہالوں کو سچائی ، اخلاق،پاکبازی،دیانت داری اور اخلاص کا سبق دے۔ یہ کام قوم کے اساتذہ کر سکتے ہیں۔ وہ ہر روز نئے عزم کے ساتھ کمرہ ء تدریس میں داخل ہوں لیکن
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply