جس طرح کوئی چہرہ کسی چہرے کا متبادل نہیں، اس طرح کوئی لفظ بھی کسی لفظ کا متبادل …… ہو نہیں سکتا! لفظ ظاہر ہے، اس کے معانی باطن میں ہیں۔ اسی طرح انسان کا ظاہر بس ایک کتاب کا سرورق ہے، شو کیس میں سجا ہوا، اس کتاب کے اندر کیا ہے؟ اندر جھاتی مارنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے اندر کیا ہے۔ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشادِ حکمت ہے ”بولو! تاکہ پہچانے جاؤ“۔ پہچان باطن میں ہوتی ہے …… اور باطن کی ہوتی ہے!
ظاہر فقط عنوان ہے…… ایک لکھا ہوا ایڈریس ہے…… جہاں اصل یعنی باطن قیام پذیر ہے۔ لفظ اور چہرہ ظاہر اور باطن کے درمیان ایک برزخ ہے…… ایک رابطہ …… ایک پل!! ظاہر سے باطن کی طرف ہجرت اسی پل صراط پر چلنے سے ممکن پذیر ہوتی ہے۔ لفظ ہو یا انسان…… اسے جاننا الگ شعبہ ہے اور اسے پہچاننا الگ کام ہے۔ لفظ کے معانی تک رسائی نہ ہو تو گفتگو میں الفاظ باہم دست و گریبان رہتے ہیں۔ یہی حال انسانوں کا ہے۔ جب تک ہم انسانوں کو باطن کی آنکھ سے دیکھنے کی صلاحیت بیدار نہیں کر لیتے، انسانوں کے ظاہری عیوب دیکھ دیکھ کر پریشان ہوتے رہتے، ان سے الجھتے رہتے ہیں۔ باطن کی آنکھ سے دیکھا جائے، دل کی نگاہ سے دیکھا جائے، تو ہر انسان بے مثل ہے، اس جیسا کوئی اور نہیں …… وہ ایک درِّ نایاب ہے…… صفحہِ ہستی پر اپنے رب کی ایسی نشانی ہے جو حرفِ مکرر نہیں۔
جسے پڑھنا نہیں آتا اس کے لیے کاغذ اور کاغذ پر لکھا ہوا لفظ شائد کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ جسے دیکھنا نہیں آتا اس کے لیے انسان اور انسان کا چہرہ کوئی قدر نہیں رکھتا۔ ایسا انسان فقط قیمت سے آگاہ ہوتا ہے، قیمتی اثاثوں کی قدر سے بے خبر ہوتا ہے۔ انسان اس کائنات کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ ایک طویل ماضی اور لامتناہی مستقبل کے درمیان ایک رابطہ ہے۔ یہ رابطہ لفظ اور خیال سے قائم ہے۔ جسے لفظ کا ادراک ہو جائے وہ اسے پہچان لیتا ہے…… وہ اسے سنبھال سنبھال کر رکھتا ہے، کتابوں میں، لائبریریوں میں، یادوں اور یادداشتوں میں …… تبصروں اور تذکروں میں وہ اس کا ذکر کرتا ہے…… اور کرتا ہی رہتا ہے!! لفظ کی تکریم الگ، اس کے لیے لفظ کے دائیں بائیں لکھے ہوئے کاما فل سٹاپ بھی اہم ہو جاتے ہیں۔ ان کی نشست و برخاست بھی اس کے مزاج کر برہم کر دیتی ہے۔
بہرطور لفظ کی تکریم اسما کی تکریم کی طرح ہے۔ بشر حافیؒ نے بسم اللہ کی تکریم کی، اسے زمین سے اٹھایا، خوشبودار بنایا۔ جس اسم کی اس نے عالمِ مدہوشی میں تعظیم کی، اسی اسم کے مسمٰی نے عالم ہوش و شہود میں بشر کو انسانوں میں مقبول کر دیا…… اس کا نام تا قیامت محفوظ کر دیا اور خوشبودار کر دیا۔ واللہ! یہ ہے اسم کی تکریم اور یہ ہے اس کا صلہ…… اجر غیرِ ممنون!!
ذاکر بھی اس لیے مکرم و معزز ہے کہ وہ کسی اسم کے ذکر میں ہے۔ اسم مسمی سے رابطے کا ذریعہ ہے۔ ذاکر کسی وقت بھی مسمیٰ کے روبرو بلایا جا سکتا ہے۔ الفاظ اپنے اضداد سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ذاکرین کا الٹ غافلین ہے۔ ذاکرین جب تک ذکر میں ہیں، غفلت کے جہنم سے محفوظ و مامون ہیں۔
انسان جب جہانِ دنیا میں وارد ہوتا ہے تو پہلا جہان اسے بھلا دیا جاتا ہے، تا آن کہ وہ نئے سرے سے خود کو دریافت کرے۔ وہ وصل سے فراق کے جہان میں آتا ہے اور یہاں اسے وصال کا شوق لاحق ہوتا ہے۔ وصل کی دریافت بھی فراق میں ہوتی ہے۔ یہ عجب راز ہے۔ اگر پہلے سے وصل کا تجربہ نہ ہو تو فراق کو فراق کون کہے؟ فراق اور وصل دونوں تعلق کی دنیا کے الفاظ ہیں۔ بے تعلق، غافل شخص فراق اور وصال دونوں لفظوں کی معرفت سے دور ہے…… مہجور ہے!
انسان جس خلوت کو الوداع کہہ کر آتا ہے، اسی خلوت و یکتائی کی طرف لوٹنا چاہتا ہے۔ لیکن زندگی کے سفر میں اسے دو اہم پڑاؤ درپیش ہوتے ہیں …… ایک اکلاپا اور دوسرا تنہائی! اسے ایک عظیم خلوت سے جدائی کے بعد دوبارہ ایک عظیم تر خلوت میں اترنا ہے…… لیکن وہ راستہ بھول بھول جاتا ہے۔ اکلاپے سے نکلنے کے لیے وہ کثرت اور جلوت کا رخ کرتا ہے، سنگی ساتھی چنتا ہے، افہام و تفہیم کے مکالمے کرتا ہے، ان کی وفا اور جفا جھیلتا ہے…… لیکن جلوت سے نکل نہیں پاتا۔ اکیلے میں بھی وہ اکیلا نہیں ہوتا۔ وہ ماضی سے باتیں کرتا رہتا ہے یا مسقبل کے پروگرام ایڈریس کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ خواب میں بھی اس کے خیال کو کسی سے معاملہ رہتا ہے۔ جلوت کا یہ میلہ اور میکہ اسے بہرحال چھوڑ کر نکلنا ہے۔ اس وچھوڑے کا ادراک اسے جس قدر جلد ہو جاتا ہے، اسی قدر آسانی مسیر آ جاتی ہے۔ دنیا اگر خود ہاتھ سے نہ چھوڑی جائے تو دنیا خود ہی ہاتھ جھٹک کر چلی جاتی ہے۔ یہاں بھریا میلہ چھوڑنے والا ہی باعزت رخصت ہوتا ہے، بصورتِ دیگر بااندازِ دیگر رخصت ہوتا ہے۔
کثرت کے میلے سے باعزت رخصتی ہو جائے تو مستقبل کا سفر، سفرِ معکوس نہیں رہتا…… وگرنہ اکلاپے سے نکل کر دوبارہ اکلاپے میں داخل ہونا نوشتہِ دیوار ہے۔ اگر خود سے کلام کرنے کی قدرت پیدا نہ ہو تو اکیلا پن انسان کو کھا جاتا ہے۔ اگر خود سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہو جائے تو انسان اکلاپے سے نکل جاتا ہے۔ وہ تنہائی کی خاموش وادیوں میں اتر جاتا ہے۔ وہ خود سے باتیں کرتا ہے، اور خود سے باتیں کرتے کرتے کسی خوش نصیب سمے میں، وہ وادی طور کی طرف اتر آتا ہے…… یہاں وہ خدا سے اور خدا اس سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اس کی خودی میں نہاں خدا، شہود میں کسی شجر، حجر، یا کسی چہرے کی اوٹ سے اسے آواز دیتا ہے…… خبردار! رک جاؤ! یہ وادی جنوں ہے…… مقدس ہے…… یہاں ہوش و خرد سے تعلق رکھنے والی ہر چیز اتار کر آؤ! جنوں کے حرم میں تجرید کا احرام باندھا چاہیے اور اس دنیا سے رشتہ و پیوند رکھنے والی ہر چیز اتار دی جاتی ہے۔
خودی جب اپنا خدا دریافت کر لیتی ہے تو تنہائی سے سرخرو ہو کر نکلتی ہے۔ اگلی منزل خلوت ہے…… خلوت دریافت ہوتے ہی جلوت اور کثرت بے معنی ہو جاتی ہے۔ بارگاہِ خلوت میں گوشہ نشین کے لیے اس دنیا کا کنکر اور سونا برابر ہو جاتے ہیں۔ اسباب کے جہان کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ اس پر کھلتا ہے کہ یہاں صرف مشیت کا سکہ چلتا ہے۔ اس لیے وہ بازارِ دنیا میں رائج زور اور زر کے سکوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔
بارگاہِ خلوت، بارگاہِ وحدت ہے۔ وحدت کے جھروکے میں قرب کی مسند پر آرام نشیں نفسِ مطمئنہ…… جہاں سے آیا تھا، وہاں لوٹ آیا…… مگر ایک نئی سج دھج کے ساتھ…… یہ وہ قطرہ ہے جو قلزم سے روانہ ہوا اور واپس قلزم سے واصل ہوا…… لیکن اس سے پہلے وہ سینہ صدف میں جاں گزین ہوا…… معرفت کا ایک یکتا و یگانہ دُرّ مکنون ہوا…… جس کی جگ مگ سے معانی کے جہانِ روشن، روشن تر ہوا اور ہوتا ہی چلا گیا: اقبالؒ کے ایک شاہین، کامران شاہین کا ایک برجستہ شعر یہاں برمحل ہے جو الست بربکم کی گونج لیے ہوئے ہے:
کوئی بھی نقش ترے رخ کا بھلایا کب تھا
میں تجھے مل کے جب آیا تھا، تو آیا کب تھا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں