اندھا بھینسا اور بیوقوف امریکہ۔۔عبداللہ قمر

امریکی صدر کے بیانات سے  یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ امریکہ کی حالت اس وقت ایسے بھینسے کی مانند ہے جو پہلے تو اپنی طاقت کے بل بوتے دندناتا پھرتا رہا ہو مگر بعد میں اس پر قابو پا لیا گیا ہو۔ اور اب وہ نیم پاگل کی سی حالت میں جو بھی حرکت کرتا ہے وہ اس کے خلاف ہی جاتی ہے۔ وہ جب بھی زور آزمائی کرنے کی کوشش کرتا ہے، منہ کی کھانی پڑتی ہے یا پشت پر ڈنڈو ں کی برسات ہو جاتی ہے۔امریکی صدر نے ایک ٹویٹ کی جس میں وہ کہتے ہیں کہ ” امریکہ نے بیوقوف بن کر گزشتہ پندرہ سالوں میں پاکستان کو 33 بلین ڈالرز سے زائد کی امداد دی ہے، لیکن پاکستان نے صرف جھوٹ اور دھوکہ دیا ہے “۔امریکی صدر کے اس ٹویٹر پیغام کے بعد میڈیا پر یہ تاثر دیا جانے لگا کہ اس  سے پہلے امریکہ کی جانب سے ایسا کوئی ردِّ عمل یا ایسی کوئی پالیسی نہیں اپنائی گئی۔

یہاں ہمیں ایک بات واضح کر لینی چاہیے کہ امریکہ پالیسی وہی ہے  بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز میں بات کی ہے وہ “ڈپلومیٹک” نہیں ہے۔ وگرنہ امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ  وہ  آپ کو کبھی بھی ایک مضبوط ریاست کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا۔امریکہ شاید تاریخ بھول چکا ہے یا پھر وہاں آج کل صرف 11/9 کے بعد کی تاریخ پڑھی جاتی ہے۔ طاقت کے نشے میں چور امریکہ بھول چکا ہے اسے واحدسپر پاور بنانے میں پاکستان کس قدر کردار ادا  کر چکا ہے  اور افغانستان کے اندر کس طرح امریکہ کی جنگ کو اپنی سمجھ کے لڑا تھا۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان میں دہشت گردی اور انتشار کے ذمہ دار بھارت کے ساتھ اپنی قربتیں بڑھائیں۔وہ بھارت جس نے پاکستان کے اندر کلبھوشنوں کو بھیجا، جس نے ہمارے بچوں کو قتل کیا اور جس نے ہمارے گھر  کا امن برباد کیا۔ صرف یہی نہیں امریکہ نے کئی ایک موقعوں پر ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ سوال تو ہمیں کرنا چاہیے کہ کیا یہ صلہ ہے امریکہ کی مدد کرنے کا ۔

دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ افغانستان کے اندر امریکہ بری طرح شکست و ذلت سے دو چار ہے اور اپنی ناکامی کے زخم چاٹ رہا ہے۔امریکہ کی خواہش تھی کی اس شکست کا بوجھ پاکستان اٹھائے مگر پاکستان نے اس بات سے صاف انکار کر دیا ہے۔ایک تو پاکستان نے امریکہ کی یہ حکم عدولی کر ڈالی ہے۔ دوسری ناگزیر حرکت یہ کی کہ امریکہ کی منافقت اور دشمنی سے بد تر دوستی کی وجہ سے امریکی اتحادیوں کی صف سے پیچھے ہٹنا شروع کردیا ہے۔ در اصل آپ نے امریکہ کی اس حکمتِ عملی کو ناکام کر دیا ہے کہ ان بیوقوفوں ( جیسا کہ امریکی صدر نے کہا ) کا ارادہ تھا کہ افغانستان کا بوجھ پاکستان پر ڈال کر اپنے دم چھلے بھارت کو خطے کا ٹھکیکدار بنا کر یہاں سے نکل جائیں گے۔یہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے امریکہ برہم ہے اور بے بس و لاچار بھی۔ اب وہ پاکستان کو امداد بند کرنے کی دھمکی دے کر ڈرانا چاہتا ہے اوردباؤ ڈال کر اپنے مطابات منوانا چاہتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے پاکستان نے واضح طور پر پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ ہمیں امریکی ڈالروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔یہاں ایک تیسری توجہ طلب بات اور ناقابلِ فراموش بات یہ بھی ہے کہ امریکیوں کو اس بات کا شدید غم و غصہ ہے کہ آپ چائنا  کے ساتھ مل کر” اکنامک کوریڈور” بنانے جا رہے ہیں۔اور بلا شبہ اس میں چائنا کا بھی بہت  زیادہ فائدہ ہے جو کہ چین کی معیشت اور مضبوط تر کر دے گا اور امریکہ کے لیے چین کا ایک عالمی قوت بن کر ابھرنا ناقابلِ برداشت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس حوالے امریکہ جس بات کا پاکستان سے تقاضا کر رہا ہے وہ ناممکنات میں سے ہے کہ پاکستان یہ سی پیک کا منصوبہ بند کر دے اور چین کو مجبور کرے وہ وہی لمبا راستہ استعمال کرے۔آج بھی مجھے امریکہ کے متعلق جنرل حمید گل صاحب کے وہ الفاظ یاد ہیں کہ”امریکہ ایک بھیڑیا ہے جس نے ہمیشہ ہمیں کاٹا”۔ شاید ہمارے حکمرانوں کو یہ بات بہت دیر  بعد سمجھ آئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اب ہمارے سیاستدانوں کو بھی امریکہ کی اندھی تقلید سے نکل آنا چاہیے  کہ جسے امریکہ دہشت گرد کہے ہم اسے دہشت گرد مان لیں، امریکہ جسے کہے کہ بند کر دو ہم اسے بند کر دیں۔اشاروں کنایوں کا سہارا لینے کی بجائے میں سیدھی بات کرنا چاہوں گا کہ امریکہ انڈیا کو خوش کرنے کے لیے آپ جو کہا آپ نے مان لیا اور حافظ سعید کو بنا کسی ثبوت دس ماہ نظر بند رکھا اور سلام ہے اس شخص کی ہمت کو جس نے ملک کی سلامتی اور امن کے واسطے سب کچھ برداشت کیا۔بہر کیف اب وہ عدالتوں سے ایک مرتبہ پھر با عزت بری ہو گئے ہیں۔لیکن اب دوبارہ پھر ان جماعت اور فلاحی ادارے (فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن) پر پابندی لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔اگر اب ایسا ہوا تو کسی زیادتی بلکہ ظلم سے کم نہ ہو گا کہ آپ بلا وجہ محض امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ایک شخص کو مسلسل نشانہ بناتے چلے جائیں بلکہ واضح چور پر امریکہ کو پیغام جانا چاہیے  کہ بنا ثبوتوں کے ہم ایک پاکستانی شہری کو بند نہیں کر سکتے۔
پاکستان اس وقت ایسے موڑ پر آن کھڑا ہوا ہے کہ ہمیں کچھ فیصلے کرنا ہوں گے۔اور یہ فیصلے قومی مفاد کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ہونگے وگرنہ موجودہ لوگ آنے والی نسل کو جواب دہ ہوں گے۔اللہ پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور حکمرانوں کو ملک کے مفاد میں صحیح فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Facebook Comments

Abdullah Qamar
Political Writer-Speaker-SM activist-Blogger-Traveler-Student of Islamic Studies(Eng) at IOU-Interested in International Political and strategic issues.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply