ماں بیٹے کی جھوٹ کہانی ۔۔محسن حدید

کہاں جا رہے ہو ؟ ۔۔کہیں نہیں ادھر ہی ہوں.
کہاں سے آ رہے ہو ؟۔۔ کہیں سے بھی نہیں.
گرمیوں کی وہ دوپہریں جن میں سونا لازم تھا لیکن ہم سوتے نہیں تھے گھر سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے جب بھی پکڑے جاتے تھے اسی قسم کے سوالات ہوتے تھے ۔جواب میں ظاہر ہے جھوٹ سے کام چلایا جایا تھا، تھوڑے بڑے ہو گئے تو کتابوں میں دل لگ گیا لیکن یہ کتابیں درسی بالکل نہیں تھیں بلکہ رسائل اور ناولز تھے جن کے پڑھنے پر کافی سخت پابندی تھی ،سخت گرمی میں گھر کے آخری کونے میں موجود کچے سٹور میں پڑے کاٹھ کباڑ میں چھپ کر یہ کہانیاں پڑھتے ہوئے جب بھی پکڑے جاتے تب بھی جواب میں یہی کہتے تھے ۔۔ابھی یہاں آیا تھا !ماں سے پہلے ڈانٹ پٹتی، پھر ماں کو ہمارا پسینے میں بھیگا وجود نظر آجاتا اور سارا غصہ ہوا ہو جاتا ۔اس کی جگہ تشویش لے لیتی ساتھ میں میٹھی لسی یا ٹھنڈے دودھ کا گلاس مفت میں مل جاتا ۔یوں ہمارے جھوٹ پر بھی ایک انعام کا سلسلہ چل نکلتا۔

تب یہ خواہش ہوتی تھی کہ دودھ کے گلاس کی جگہ دودھ سوڈے کا گلاس ملے لیکن سوڈے کی بوتل عام نہیں تھی. ہاں سوڈے کی بوتل پینے کا بھی ایک معقول جھوٹ دستیاب تھا۔ صبح عین سکول کے وقت پیٹ درد کا بہانہ جس کے نتیجے میں سکول سے چھٹی بھی مل جاتی تھی اور ساتھ میں پانچ روپے بھی۔ ان دنوں پانچ روپے کی ریگولر سپرائٹ مل جاتی تھی ۔ اب پتا چلا ہے کہ مائیں جھوٹ سچ سب سمجھتی ہیں لیکن ان کی محبت رسک لینا افورڈ نہیں کر سکتی۔بچے کی ممکنہ تڑپ ہی ان کے لئے عذاب ہوتی ہے ۔

ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا پراٹھا جب کھانے کا دل نہیں کرتا تو اسے کچن میں موجود دوچھتی کے اوپر پھینک کر کہہ دیتے تھے کہ میں نے تو سارا پراٹھا کھا بھی لیا ہے۔ یہ جھوٹ ایک دن پکڑا گیا جب بڑا بھائی اس دوچھتی سے کوئی چیز اتارنے گیا اور سوکھے پراٹھوں کا ڈھیر دیکھ کرماں کو بتا دیا۔ تفتیش ہوئی تو میں پکڑا گیا۔۔ ماں مگر افسردہ تھی! یوں جیسے کوئی بہت بڑا نقصان ہو گیا ہو۔

تب پتا ہی نہیں چلا نقصان تو واقعی بڑا ہو گیا تھا۔۔ آج ماں کے ہاتھ سے ایک نوالے کو ترستے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ماں کیوں افسردہ تھی ،مائیں جب کہتی ہیں کہ ماں کے ہاتھوں کی پکی یاد کرو گے تو بندہ کیسے ہنسی میں اڑا دیتا ہے۔ دسمبر کی لمبی رات میں جب فریج ہر نعمت سے بھرا ہو تب بھی ماں کے ہاتھ کے وہ ذائقے یاد آئیں تو بات سمجھ آتی ہے لیکن تب بہت دیر ہو چکی ہوتی  ہے۔ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر انواع واقسام  کی نعمتیں کھانے والے ان روٹیوں کی لذت کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے جن کے پکانے میں ماؤں کی ہتھیلیاں جلی ہوتی ہیں۔ چولہے کے گرد زمین پر بیٹھ کرکھانا ساتھ میں کم کھانے پرمیٹھی میٹھی سی ڈانٹ اور گھوریاں۔

میچز کا نشہ بچپن سے تھا، ماں سننے نہیں دیتی تھیں، گھر کے بڑے کمرے میں پڑا ہوا ریڈیو بغل میں دبائے ہوئے دبے پاؤں گھر کے مین دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ باغیچے میں نیم کے درخت تلے لیٹی ہوئی اماں کی آواز نے پاؤں جکڑے۔ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا کہیں بھی نہیں واش روم جا رہا ہوں۔ ان دنوں واش روم/ٹوائلٹ ایک ہی ہوتا تھا وہ بھی بیرونی دروازے سے متصل۔ ریڈیو قمیض کے نیچے سے بغل میں دبایا ہوا تھا ،ماں کی نظر  پڑ گئی کہتیں بازو کو کیا ہوا ہے میں نے کہا کچھ بھی نہیں۔ اڑتا ہوا جوتا سیدھا بازو پر آکر  لگا، بازو ہلا اور ریڈیو زمین پر تھا، جھوٹ پکڑا جا چکا تھا۔

ماں اور بچے کے رشتوں میں سے ایک رشتہ جھوٹ کا بھی ہوتا ہے اور یہ رشتہ دو طرفہ ہوتا ہے شوہر کو تلاش رزق میں لمبے عرصے کے لئے گھر سے رخصت کرنے والی ماؤں کے گود میں اٹھائے ہوئے بچے سے رونے کی وجہ چھپاتے ہوئے بولے گئے جھوٹ ہوں یا بچے کے چوٹ لگنے پر مصنوعی غصے کا اظہار کرنے کا جھوٹ۔۔یہ کھیل چلتا رہتا ہے۔

اسی دوران بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ انہیں باہر کی ہوا لگ جاتی ہے،ماں کی روک ٹوک بے جا لگتی ہے اور فکر غیر حقیقی، بعض اوقات زچ کر دینے والی۔اب بچوں کو جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ ماؤں کو بتانے لگتے ہیں کہ ” تہانوں کی پتا” مجھے بھی لگا تھا یہ ضرورت ختم ہو گئی ہے۔ پھر 19 ستمبر کی رات آگئی !

میں سوچتا تھا اب ماں سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا اور سب سے زیادہ جھوٹ میں نے ماں سے اسی دن بولے ،اس دن ماں زیادہ بول نہیں رہی تھیں کبھی کبھی کوئی ایک آدھ سوال بس ۔۔ وہ بھی مجہول سا ۔ میں چاہتے ہوئے بھی انہیں کسی سوال کا سچ جواب نہیں بتا سکا، ڈاکٹر جس وقت مجھے بتا رہا تھا کہ اب زیادہ وقت نہیں رہا مجھے لگا جیسے آنسوؤں کا ایک سیلاب امڈ آئے گا، بہت ضبط کیا پھر بھی دو چار آنسو ٹپک پڑے ۔وہ تو بھلا ہو زکام کا جس کے بہانے ٹشو ہر وقت ہاتھ میں رہتا ہے ۔میں نے فوراً  پونچھ لئے، ڈاکٹر چلا گیا اور میں نے اونچی آواز میں بڑبڑانا شروع کردیا “ایک تو دوائیوں کے اثر سے آنکھوں میں چبھن ہونے لگ گئی ہے” ماں دیکھتی رہیں کچھ بولیں نہیں۔ اس دن تو کسی تشویش کا بھی اظہار نہیں کیا۔ ماں جانتی تھیں کہ مجھے بچپن سے الرجی کا مسئلہ ہے  اور ہمیشہ اس حوالے سے نصیحتیں کرتی تھیں۔ شاید اماں خود غرض ہو گئی تھیں۔ شاید  چاہتی تھیں کہ زندگی بھر کی کمائی ان کی آنکھوں کے سامنے رہے. شاید کوئی ورد  یا  وظیفہ ہوگا۔ شاید  حفاظتی حصار باندھ رہی ہوں گی۔

ماں باتیں بہت کرتی تھیں ، اس دن لیکن ہمارے درمیان باتیں بہت کم ہوئیں ، ماں بول نہیں سکتی تھی اور میرے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ جس دن جھوٹ بولنا پڑ رہا تھا اسی دن مجھے جھوٹ سب سے برا لگ رہا تھا، میں نے کہا ڈاکٹر کہہ رہا ہے کل چھٹی مل جائے گی اور ہم گھر چلے جائیں گے اب ضبط مشکل تھا میں کاریڈور میں نکل گیا، وہ رات بہت لمبی تھی۔ تب میں نہیں جانتا تھا کہ اب ایسی لمبی راتیں بہت سی آئیں گی۔ آتی رہیں گی۔ تب میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ ایک ساتھ یہ ہماری آخری رات ہے ورنہ دعا کرتا کہ وہ رات مزید لمبی ہوجائے وہ رات جھوٹ سچ کرتے گزر گئی۔ ڈاکٹر آتے تھےجاتے تھے ،میں ماں کی آنکھوں میں سوال پڑھتا تھا جو مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ آج توہم نے گھر جانا تھا، وہی بہانے اس دن میں نے بہت بہانے کیے، ساتھ بڑی بہن تھیں وہ مجھ سے زیادہ بہانے کررہی تھیں لیکن میرا مسئلہ دوسرا تھا، ماں نے ہمیشہ مجھے ایک مضبوط مرد گردانا تھا اگر ماں مجھے روتا ہوا دیکھ لیتی تو شاید  اسی رات مر جاتی، میں اپنا رونا ماں سے چھپا گیا۔ اس دن میں صرف باپ کے سامنے رویا۔۔

ابا جی چپ چاپ مجھے دیکھتے رہے ،شاید کسی اور دن مجھے روتا دیکھ لیتے تو میری بہت بے عزتی کرتے، لیکن اس دن ہم باپ بیٹے نے ایک دوسرے سے کوئی غیر ضروری بات نہیں کی ہسپتال کے کاریڈور میں ایک جوان مرد کو یوں روتا دیکھ کر کسی نے بھی ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا. وہاں شاید سارے بہانے باز تھے، سارے ہی جھوٹے تھے ،سارے ہی ماؤں کو بتا رہے تھے کہ ککڑیوں والے کھڈے میں پانی بھی رکھ دیا ہے دانے بھی ڈال دیے ہیں، کل آپ کا ہاتھ لگوا کر مرغے کا صدقہ بھی دے دیں گے۔ محلے کے کونے پر موجود ایک کمرے کے مکان میں اکیلی رہنے والی بوڑھی خاتون کو کھانا بھی پہنچا دیا ہے، فلاں فلاں کا فون آٰیا ہے آپ کو سلام کہتے ہیں فلاں ملنے آرہا تھا میں نے روک دیا ہے ، میں نے اسے کہا کہ کل تو ہم خود ہی گھر آجائیں گے،. انہی بہانوں میں شام ہوگئی ،بڑا بھائی ہسپتال پہنچ گیا۔ ماں نے استفہامیہ نظروں سے دیکھا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ میں نرس کو بلانے کا بہانہ کر کے باہر نکل گیا.

رات 8 بجے ماں نے چھوٹی بہن سے پوچھا کہ تمھارے کاکے (منتوں مرادوں سے پیدا ہونے والی اکلوتی اولاد) کو دیکھنا ہے، میں نے پھر جھٹ سے کہا کہ ابھی ڈاکٹر آئے گا شاید چھٹی کے بارے کچھ بتا دے۔ نہیں تو کاکے کو یہیں لے آئیں گے ۔یہ میرا آخری جھوٹ ثابت ہوا !

ڈاکٹر واقعی آگیا۔۔۔ اسی رات ہمیں چھٹی بھی مل گئی! رات کو ہم گھر تھے لیکن وہ رات پچھلی رات سے زیادہ لمبی ثابت ہوئی ۔اس رات کے پہلے پہر ایمبولینس ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ کر زندگی کا سب سے اذیت ناک سفر لیکن جھوٹ نہیں تھا ایک تلخ سچائی تھا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ دونوں راتیں جیسی زندگی میں ٹھہر سی گئی ہیں۔ اب بھی نماز کے بعد دعا کرتے ہوئے کئی بار میں کہہ جاتا ہوں “یا اللہ امی جان کو صحت عطا کر دے”!

Facebook Comments

محسن حدید
میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ محسن کسی بھی اخباری ریپورٹر سے زیادہ بہترین سپورٹس تجزیہ نگار ہیں۔ آپ روزنامہ دنیا میں کالم نگار ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply