• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • موجودہ عالمی حالات کا پس منظر اور پاکستان کے مسائل کا حل

موجودہ عالمی حالات کا پس منظر اور پاکستان کے مسائل کا حل

اسلحہ سازی کا اصل ہدف ہمیشہ نوعِ انسانی کی بقا اور دفاع رہا ہے۔ لیکن گذشتہ صدی میں برپا ہونے والی دو عالمی جنگوں نے اسلحہ سازی کو بذاتِ خود ایک صنعت کا درجہ عطا کر دیا۔ یہ ایک خطرناک پیش رفت تھی جسے صاحبِ ادراک لوگوں نے تو تبھی محسوس کر لیا تھا اور اِس پیشرفت کے خلاف حتی المقدور آواز بھی بلند کی لیکن عوام الناس کی اکثریت اپنی ذہنی استعداد کی کمی کے پیشِ نظر اُس پیغام کو وصول کرنے سے قاصر رہی۔ اسلحہ سازی کی اِس ابھرتی ہوئی صنعت کا حقیقی مرکز ترقی یافتہ مغربی ممالک تھے۔
جیسا کہ کسی بھی کاروبار کی ترقی کا انحصار اُس کے گاہکوں اور خریداروں پر پر ہوا کرتا ہے اِسی طرح اِس صنعت کو بھی اُن دو عظیم جنگوں کی صورت میں اتنے خریدار ملے کہ یہ کاروبار دنیا کے منافع بخش ترین کروباروں میں شمار کیا جانے لگا۔ اِسے حسنِ اتفاق کہیے یا کاروباری دماغ کی ہوشیار چال، دوسری جنگِ عظیم کے بعد مغرب کو سوویت یونین کی صورت میں ایک ایسا دشمن میسر آ گیا جس کا خوف پیدا کر کے اِس کاروباری صنعت نے اپنے کاروبار کے لیے خوب وسعت پیدا کی۔ کاروبار کی ترقی کے لیے دنیا میں جنگی ماحول پیدا کرنے کے لیے وہ وہ چالیں چلی گئیں کہ شیطان بھی اپنی چالوں پر شرمندہ و نادم ہوتا ہو گا۔
اِس کاروبار کے متاثرین میں سے ایک مملکتِ خدادادِ پاکستان بھی ہے۔ 1979 میں جب سوویت یونین نےافغانستان پر حملہ کیا تو یہاں ایک مردِ مومن اپنے حق ہونے، اپنے جواز اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔ اپنے ملک کے لوگوں پر تو اُس نے طاقت کے بل پر اپنا جواز اور حق ہونا نافذ کیا ہی ہوا تھا لیکن عالمی نصرت اور قبولیت سے ابھی محروم تھا۔ چالاک آدمی تھا اِس لیے عالمی منظر نامے میں اپنی نصرت اور قبولیت کی راہ بھانپ گیا۔ عالمی معیّت میں اُس مردِ مومن نے یہاں جہاد کا لیبل لگا کے جہادی مصنوعات کی فیکٹریاں لگائیں جن کی مارکیٹ افغانستان تھا۔ مصنوعات کے لیے خام مال جس حد تک ہو سکا وہ پاکستان اور افغانستان کا ہی استعمال کیا گیا، کمی کی صورت میں دیگر اسلامی ممالک (خصوصاً عرب ممالک) سے بھی خام مال برامد کیا گیا۔ جنگ ختم ہوتے ہی بڑی چالاک طاقتوں نے اُس چھوٹے چالاک (مردِ مومن) کو بھی اس مقدس جنگ کے دیگر شہدا کی صف میں شامل کر دیا۔
انسان ہو معاشرہ ہو یا ملک، مصنوعی آکسیجن پر زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہی حال سوویت یونین کا ہوا۔ اِس جنگ کے اختتام پر سوویت یونین کا خاتمہ کئی آزاد مملکتوں کے ظہور پزیر ہونے کی صورت میں ہوا۔
جدید سرمایہ دارانہ نظام کے کامیاب رہنما اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ لوگوں کی ضروریات کبھی ختم ہی نہ ہونے دی جائیں۔ لوگوں کی ایک ضرورت کی تشفی ہونے لگے تو اُن میں کوئی دوسری ضرورت جگا دی جائے۔ چالاک کاروباری دماغوں نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ سوویت یونین کا پھُلایا گیا غبارہ اب پھٹنے کو ہے۔
عجب حسنِ اتفاق ہے کہ 1979 میں ہی ایران میں ایک اسلامی انقلاب (جس پر بحث کی جا سکتی ہے کہ آیا وہ انقلاب کی مسلمہ تعریف پر پورا اترتا ہے یا نہیں) رونما ہوتا ہے۔ قدامت پسند مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار آتی ہے- اُس کے ردِعمل میں دیگر اسلامی ممالک (بالخصوص پاکستان) میں متشدد فرقہ وارانہ جماعتیں ظہور پزیر ہوتی ہیں۔ پھر یہی فرقہ واریت سیاسی افق پر سعودی ایران پراکسی کی صورت اختیار کر کے پورے عالمِ اسلام کو دو سیاسی مذہبی حریفوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ پھر یہ بھی عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد افغانستان میں ایک سُنّی اسلامی ریاست وجود میں آتی ہے۔ یہاں بھی زمامِ اقتدار قدامت پسند مذہبی طبقے کے ہاتھوں میں قرار پاتی ہے۔ یہ بھی عجب حسنِ اتفاق ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں صرف یہی دو ریاستیں تھیں جو اُس وقت اسلام کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کا علمبردار ہونے کی دعویدار تھیں۔
چنانچہ چالالک کاروباری دماغوں کو اپنی عوام اور حکومتوں کے سامنے ایک نئے اُبھرتے ہوئے چیلنج کو پیش کرنے کا موقع مل گیا۔ شدت پسند اسلام کا چیلنج۔ لہٰذا سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اگلا ہدف اسلامی شدت پسندی کی سرکوبی قرار پایا۔ پھر اِسی شدت پسندی کے ساتھ دہشت گردی کو جوڑ کر دنیا کے سامنے اسلام کی ایک دہشت گرد مذہب کے طور پر تصویر کشی کی گئی۔ دہشت گردی کی ایسی ایسی ہولناک تصویریں دنیا کے سامنے پیش کی گئیں کہ مغرب تو مغرب، عام مسلمان بھی اُن مناظر سے لرز اُٹھا۔ چنانچہ دہشت گردی کے خلاف طے پانے والی جنگ کا پہلا ہدف افغانستان قرار پاتا ہے۔
ایک دفع پھر عجیب حسنِ اتفاق کہ افغانستان پر حملے کے وقت مملکتِ خدادادِ پاکستان میں ایک ایسا روشن خیال مسیحا اقتدار پر براجمان ہے جو اپنی طاقت کی بنیاد پر عوام پر تو اپنے صاحبِ اقتدار ہونے کے جواز کو نافذ کیے ہوئے ہے لیکن اب تک عالمی نصرت اور قبولیت سے محروم تھا۔ اپنے پیشرو کی طرح وہ بھی عالمی نصرت اور قبولیت کی راہ فوراً بھانپ گیا۔ چنانچہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اُس عالمی جنگ کا فرنٹ لائن اتحادی بن گیا۔
حکم یہ تھا کہ دو دہائیاں پہلے لگائی گئی فیکٹریوں کو بند کرنے کی بجائے اُنہیں قومی تحویل سے آزاد کر کے ڈی فرینچائز کر دیا جائے۔ تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جواز اور ایندھن بہم پہنچتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روشن خیال قائدِ ملت آج بھی اُن فیکٹریوں کو فلاحی ادارے قرار دیتے ہیں۔ ایک طرف شدت پسندی کی سرکوبی کی بات کرتے ہیں اور ساتھ ہی اُس سوچ کی بنیاد پر قائم اداروں کو سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ اِس تضاد کو اُن جیسے دانشور ہی ہضم کر سکتے ہیں۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ دہشت گردی کی نام پر شروع ہونے والی یہ جنگ اب تک افغانستان، عراق، تیونس، لیبیا، یمن اور شام کو نگل چکی ہے۔ اِس آک کی تپش اب سعودی عرب تک بھی پہنچنے لگی ہے۔ مصر کے موجودہ حالات بھی کسی بھی وقت خانہ جنگی کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے حالات بھی دو عاقبت نااندیش ڈکٹیٹروں کی وجہ سے خانہ جنگی کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں۔
جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ملک کو ایک ایسی جہنم بنا دیا ہے جس کی آگ کی تپش ایک عرصہ تک پاکستانی عوام محسوس کرتی رہے گی۔
اصولی اور حقیقی بات یہ ہے کہ جنرل ضیاءالحق نے اپنے مغربی آقاؤں کے مفادات کے پیشِ نظر جو پرائیویٹ مسلحہ مذہبی گروہ پروان چڑھائے تھے وہ ملکی اور قومی مفاد کے لیے زہر تھے۔ کسی دوسری طاقت کے لیے پراکسی کا ذریعہ بن کر ایک ریگولر آرمی (Regular Army) کے ہوتے ہوئے پرائیویٹ آرمیز (Private Armies) کو تشکیل دینے کے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہے جب جنرل پرویز مشرف کی دوہری پالیسیوں کی بدولت وہی مسلح گروہ آج اپنے ہی ملکی سلامتی کے اداروں کے ساتھ جنگ میں مبتلا ہیں۔ وہ فیکٹریاں جو جنرل ضیاءالحق نے بنائی تھیں انہیں بند کرنے کی بجائے جنرل مشرف نے ڈی فرینچائز کر دیا۔ نہیں معلوم کہ اب کس فیکٹری کا مالک کون ہے اور اُس کا خام مال کہاں سے میسر ہو رہا ہے۔
پاکستان کا لبرل طبقہ چونکہ ذوالفقار علی بھٹو کا حامی تھا تو نتیجتاً جنرل ضیاءالحق نے مذہبی طبقے کو ساتھ ملا کر لبرل خیالات رکھنے والے لوگوں کی خوب بیخ کنی کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لبرل طبقہ فوج سے بھی بددل ہوا اور مذہب سے بھی۔ یہ ایک قدرتی اور فطری ردِعمل تھا۔ اُس کے برعکس جب جنرل پرویز مشرف نے لبرل طبقے کو اپنی آشیرباد دی تو اُنہوں نے بھی مذہبی مزاج رکھنے والوں سے چُن چُن کے بدلے لیے۔ فوج کی طاقت کے آگے چونکہ وہ بے بس تھے لہٰذا فوج کے خلاف وہ کوئی مؤثر کاروائی نہیں کر پائے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کے فوجی اقتدار کے خلاف اگر کسی نے مزاحمت کی ہے تو وہ ہمیشہ لبرل طبقہ ہی رہا ہے، چاہے وہ جنرل ضیاءالحق کے خلاف اُٹھنے والی ایم آر ڈی کی تحریک ہو یا جنرل پرویز مشرف کے خلاف اُٹھنے والی وکلا تحریک ہو۔
حقیقتِ حال یہ ہے کہ ضیاءالحق اور پرویز مشرف کی دوہری اور مفاد پرستانہ پالیسیوں کی بدولت ملک کے قومی سلامتی کے ادارے لبرل طبقات اور مذہبی مزاج رکھنے والے لوگوں میں اپنا اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔ قومی سلامتی کے نام پر اُٹھنے والے ہر قدم کو دونوں طبقات اپنے اپنے ماضی کے تجربے کے پیشِ نظر شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ قومی سلامتی کے اداروں اور عوام میں موجود اِس بداعتمادی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بہت سی بیرونی طاقتوں نے اپنے ایجنٹ بھی اِن دونوں طبقات میں داخل کر دیے ہوں۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ سب اسٹیک ہولڈرز خلوصِ دل سے اپنے ماضی کی غلطیوں کا ادراک اور احساس کرتے ہوئے باہم بد اعتمادی کے اِس خلا کو پُر کریں۔ قومی سلامتی کے اداروں کو چاہیے کہ اپنے تئیں ہر دو طبقات کے اعتماد کو بحال کریں اور ایسی روایات کو ترک کریں جن سے اُن کے وقار کو حرف آتا ہو۔ اِس کے برعکس موجودہ ملکی اور عالمی حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مذہبی اور لبرل خیالات رکھنے والے طبقات کو چاہیے کہ اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کی نشاندہی خود کریں تاکہ قومی سلامتی کے اداروں کے پاس بھی ہر شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا جواز نہ رہے۔ اگر ہم اپنے معروضی حالات کا ادراک کر کے اب بھی اپنی باہمی بداعتمادی کو دور نہیں کریں گے تو شاید وقت اور تاریخ ہمیں دوبارہ سنبھلنے کا موقع نہ دیں۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply