پاکستان کا دبئی۔۔مہر ارم بتول

اچانک ڈیوڑھی سے شور بلند ہوا، اکھو آ گیا، اکھو آ گیا۔۔۔داراں دا اکھو آ گیا۔ یہ شور سن کر سب آہستہ آہستہ گھروں سے باہر آنے لگے اور آنے والے شخص کو کوئی گلے لگا کر مل رہا تھا تو کوئی سر پر پیار دے رہا تھا۔ کئی شرارتی بچے دوڑے اور آواز لگائی “ماسی داراں تیرا اکھو آ گیا” اور اسی دوران کسی نے کہا کہ ماسی سرداراں تیرا اصغر آ گیا۔ سرادارں بی بی جلدی جلدی باہر آئی اور مسرت سے چلائی “بسم اللہ کراں میرا پتر آ گیا۔ ماں صدقے، ماں واری”۔ آہستہ آہستہ گھر کا آنگن آس پڑوس کے لوگوں سے بھرنے لگا۔ ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا تھا کہ پردیس کیسا ہے؟ لوگ کیسے ہیں؟ کسی نے کہا اکھو سیٹھ بن گیا ہے تو کسی نے کہا کہ تو بڑا بابو بن گیا ہے۔

یہ کہانی ہے چنیوٹ شہر کے محلہ ریختی کے ایک گھر کی۔ یہ محلہ کسی زمانے  میں عمر حیات کے محل کا حصہ تھا۔ یہاں کئی حصوں میں شاہی ہاتھیوں کے اصطبل ہوتے تھے۔ وقت کی دھول نے سب چاٹ لیا اور پھر یہاں لوگ آ بسے۔ ہر رنگ، ہر مذہب کے لوگ، پر پیار ایک دوسرے کے ساتھ اتنا کہ لگتا تھا ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔

یہاں رہنے والے لوگ غربت کے باوجود محبتوں سے گندھی مٹی کے بنے تھے۔ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے یہ لوگ اپنی ہر شام مل بیٹھ کر گزارتے۔ خواتین دوپہر کا کھانا ایک جگہ پر کھاتیں۔ ہر عورت اپنے اپنے گھر سے روٹی سالن لے آتی اور ایک جگہ بیٹھ کر دکھ سکھ بھی کرتیں اور کھانا بھی کھایا جاتا۔ شام میں مرد کاموں سے واپس آ کر چوک میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھ جاتے اور وہیں کھانا کھاتے۔ بحث و مباحثے بھی کرتے اور کبھی کبھی دیے کی روشنی میں لڈو بھی کھیلی جاتی۔ اس کھیل میں مرد عورتیں سب شامل ہوتے۔ وقت بدلا، حالات بدلے اور غربت بھی بڑھنے لگی تو لوگوں نے ذریعہ معاش کیلئے ہجرت کو بہتر جانا۔ یہ ہجرت صرف مردوں کیلئے تھی جن میں اکھو بھی شامل تھا۔

سرداراں بی بی اپنے شوہر اور پانچ بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ سرداراں بی بی کا شوہر پہلے تو دیہاڑی پر کام کرتا تھا اور اس کے بدلے اڑھائی روپے ملتے تھے۔ یہ اڑھائی روپے اس وقت اڑھائی ہزار لگتے تھے۔ ٹکوں میں خورد و نوش کی چیزیں خریدی جاتی تھیں اور انہی پیسوں سے بچت بھی کی جاتی تھی۔ دیہاڑی سے آ کر شام میں سرداراں کا شوہر سیخ کباب کا ٹھیلہ بھی لگاتا تھا۔ محلے والے اس سے کبھی کبھی کباب خرید لیا کرتے تھے۔ کبھی تو سارے کباب چند گھنٹوں میں بک جاتے اور کبھی واپس آ جاتے جو کہ آس پڑوس میں بانٹ دیئے جاتے۔

بچے بڑے ہونے لگے اور اخراجات بھی بڑھنے لگے۔ سرداراں بی بی نے ہاتھوں والی سویاں بنانی شروع کیں جن کو جوے کہا جاتا ہے۔ اسی طرح بیٹیوں نے بھی گھر بیٹھ کر محنت کرنا شروع کی۔ بڑی بیٹی نے سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا۔ اس سے چھوٹی والی نواری کے پلنگ بننے میں مہارت رکھتی تھی لہٰذ ا  اس نے گھر بیٹھ کر لوگوں کے نواری والے پلنگ بننے شروع کئے۔ سب سے چھوٹی بیٹی بڑی نٹ کھٹ اور شرارتی ہوتی تھی جو محلے کے لڑکے لڑکیوں کے ساتھ مل کر بنٹے کھیلتی اور پتنگ اڑاتی۔ اصغر اور سلطان دو بیٹے تھے۔ سلطان خاموش رہنے اور کام سے کام رکھنے والا لڑکا تھا اور اصغر بہنوں کے ساتھ ہر کام میں ان کی مدد کرتا۔ سرداراں کی چھوٹی بیٹی شنی اور اکھو ہی کباب کا ٹھیہ لگاتے اور باپ کے آنے کے بعد کھیل کود کیلئے کھسک جاتے اور جب مال ختم ہو جاتا تو واپس آ کر باپ کے ساتھ سامان سمیٹتے اور گھر کی راہ لیتے۔

ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ بچے جب کچھ بڑے ہوئے تو باپ کو رفحان مل میں نوکری مل گئی۔ غربت کے دن ڈھل گئے اور پھر اکھو پردیس چلا گیا۔ وہاں اسے بہت اچھا کام مل گیا۔ انٹرنیٹ اور فون تھا نہیں لہٰذا  خط و کتابت چلتی تھی جس سے پتہ چلتا تھا کہ پردیس اکھو کو راس آ گیا ہے۔ گھر میں خوشحالی آئی تو پہلے جو داراں داراں کہتے تھے اب سرداراں بی بی کے نام سے بلانے لگے۔ محلے میں زیادہ تر اپنے ہی رشتے دار تھے۔ صبح ناشتے پر جب دیسی گھی کی خوشبو گھر سے باہر لپکتی تو کوئی نہ کوئی آ جاتا کہ آج سرداراں کیا پکا رہی ہے اور ساتھ ہی فرمائش بھی آتی کہ “بھین سرداراں، اج مولی والا پرانٹھا پکا دے”، تو سرداراں فوراً کہتی “جی بھا جی، ہنے لے کے آئی”۔ دیسی گھی کے کٹورے ایک دوسرے کو بھیجے جاتے اور پردیس سے آنے والے سوغاتیں بھی تھالیوں میں بھر کر سب کو بھیجی جاتیں۔

کیوں کہ اکھو پاکستان کے دبئی گیا ہوا تھا۔ جی ہاں، یہ دبئی کراچی تھا—-روشنیوں کا شہر کراچی۔ پنجاب سے اور نہ جانے کتنے اکھو اپنے گھروں کی خوشحالی کیلئے اس دبئی کو جاتے اور جب وہ واپس آتے تو وہ سب کیلئے سیٹھ ہوتے۔ وہاں جانے والے لوگوں کے ہاتھ مٹی کو بھی لگتے تو وہ سونا بن جاتی۔ کراچی اس وقت کے لوگوں کیلئے دبئی سے کم نہیں تھا۔ ریل گاڑیوں پر لوگوں کو دو سے تین دن لگتے اور ذریعہ معاش کیلئے یہ فاصلہ دیس کو پردیس میں بدل دے دیتا۔

روشنیوں کے شہر کراچی نے ہر آنے والے کو اپنے دامن میں جگہ دی۔ محبت اور خوشحالی دی۔ آج اس دور کو یاد کر کے رونے والے لوگ سچے ہیں گو کہ وہاں ہر رنگ اور مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد تھے پر وہ ایک ہی بولی بولتے تھے——-محبت کی بولی، بھائی چارے کی بولی۔

آج اگر پاکستان کے دبئی کو دیکھیں تو دل دہل جاتا ہے۔ کراچی نے ہمیں کیا دیا تھا اور ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ اسے اپاہج اور لاچار کر دیا۔ اس کے دامن میں سجے روشنیوں کے ستارے نوچ لئے اور اسے کچرے کا ڈھیر بنا دیا۔ آئے دن ہونے والے فسادات اور دھماکوں نے اس کے روشن اور خوبصورت دامن کو تار تار کر دیا۔ محبت اور بھائی چارے کی بولی بھول کر ہر ذی روح آج اپنی بولی بولتا ہے۔

کیا کبھی ایسا ہو گا کہ وہی پرانا کراچی واپس مل جائے جو ہماری غربت سے تار تار دامن کی رفو گری کرے۔ جہاں پھر سے روشنیاں جگمگائیں۔ وہاں جانے والے اکھو اب خالی ہاتھ واپس نہ آئیں بلکہ پہلے کی طرح سیٹھ بن کر لوٹیں۔ اگر ایسا ہو جائے تویقین کریں کہ لوگ سمندر پار دبئی کو بھول جائیں گے۔ ان کے لئے پاکستان کا دبئی ہی کافی ہو گا۔

Save

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

مہر ارم بتول
وومنز سٹڈیز اور انتھرپالوجی میں ڈگری حاصل کی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر قلمکاری کے ذریعے ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جڑے ایشوز پر روشنی ڈالنے کی سعی کرتی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply