ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ۔۔کرنل ضیا شہزاد/قسط 21

گیٹ ٹو گَیدر
گیٹ ٹو گَیدر یعنی میل ملاقات فوجی زندگی کا خاصہ ہے۔ سیاچن کی برف پوش چوٹیاں ہوں، کوئٹہ کے سنگلاخ پہاڑ ہوں، چولستان اور تھر کا صحرا ہو یا پنجاب کے میدانی علاقے، فوجی چاہے کہیں بھی ہوں مل بیٹھنے کا بہانہ ڈھونڈ ہی نکالتے ہیں۔اس کی نوعیت اور لیول ضرور مختلف ہو سکتے ہیں مثلا یونٹ افسروں یا کورس میٹس کی ملاقات، یونٹ کا سالانہ یوم تاسیس، عید ملن پارٹی یا لیڈیز کلب کی تقریب، لیکن مقصد وہی ایک کہ عسکری زندگی کی کرخت سطح کو میل ملاپ کے ذریعے ہموار کرنا اورمشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایک دوسرے کو ہمت و طاقت مہیا کرنا۔ یہاں اپنے ایک کورس میٹ کا ذکر کرتے چلیں جو سیاچن میں اپنی اٹھارہ ہزار فٹ بلند پوسٹ سے دوسرے کورس میٹ سے ملاقات کرنے اس کی پوسٹ پر تشریف لے گئے تھے جس کی بلندی بیس ہزار فٹ تھی۔

gettogether.jpg?ver=1.0
ہم سٹاف کورس کے لئے کوئٹہ پہنچے تو وہاں طرح طرح کی گیٹ ٹو گَیدرز کا رواج دیکھا۔یار لوگوں نے چھوٹتے ہی ‘آرم وائز ‘گیٹ ٹو گیدر منعقد کرنا شروع کیں۔ انفنٹری افسروں کی تعداد تو سیکڑوں میں تھی ہی، آرٹلری، آرمر، انجینئرز، ایئر ڈیفنس وغیرہ والے بھی کم نہ تھے۔سب نے اپنی اپنی گیٹ ٹو گَیدر کو خوب انجوائے کیا۔ میس بک کروائے گئے اور پارٹیاں اڑائی گئیں۔ آخر میں آرڈننس کور کی باری آئی تو ان کی گیٹ ٹو گیدر فقط دو افسران پر مشتمل تھی جو اِن دنوں اتفاق سے سی ایم ایچ میں داخل تھے چنانچہ ان کی یادگار گیٹ ٹو گَیدر سی ایم ایچ کی کنٹین میں منعقد ہوئی۔

بہت سال پہلے ہماری یونٹ کی ایک گَیٹ ٹو گَیدر گیریژن میس راولپنڈی میں منعقد ہوئی۔ اس ایونٹ کو یونٹ کے حاضر سروس اور ریٹائر افسران کی بڑی تعداد نے رونق بخشی۔ سردیوں کا موسم تھا ، سب لوگ کھانے سے پہلے مختلف ٹولیوں کی صورت میں ایک بڑے ہال میں جمع تھے اور باہمی دلچسپی کے موضوعات پر تبادلہ خیال کررہے تھے۔ سینئر جونیئر کی تمیز کو میس میں کچھ دیر کے لئے بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ایسے مواقع پر ہم سینئر افسران کے ساتھ زیادہ تر وقت گزارنا پسند کرتے ہیں تاکہ ان کے تجربات سے فیض یاب ہو سکیں۔ ہم نے ایک گروپ کو جوائن کیا جہاں ایک ریٹائرڈ میجرکھڑے کہہ رہے تھے ”دوستو! اس یونٹ میں ہم دو کورس میٹس اکٹھے پاس آؤٹ ہو کر آئے تھے۔ میں میجر سے آگے ترقی نہ پا سکا جبکہ میرا کورس میٹ بریگیڈئر بن کر ریٹائر ہوا۔اس نے فوج کی وہ تمام سہولیات انجوائے کیں جو میں میجر ہوتے ہوئے نہ کر سکا۔ اس طرح وہ مجھ سے بہت بہتر رہا۔” ان کے شکووں سے لبریز فرمودات سننے کے بعد ہم نے ایکسکیوز می کہہ کر ایک دوسرے گروپ کو جوائن کر لیا۔ اس گروپ میں انہی میجر صاحب کے کورس میٹ فرما رہے تھے ”حضرات!میں نے فوج میں بہت محنت کی اور بریگیڈئر کے عہدے تک پہنچا لیکن اس دوران میری ساری توجہ پیشہ ورانہ امور کی جانب رہی جس بنا پر فیملی کو خاطر خواہ وقت نہ دے پایا۔ نتیجتاً میرے بچے تعلیمی میدان میں بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔جبکہ دوسری جانب میرا کورس میٹ میجر وقت پر ریٹائر ہو گیا، اس نے اپنا کاروبار جمایا اور بچوں کی تعلیم پر صحیح توجہ دی چنانچہ آج اس کی بیٹی ڈاکٹر اور بیٹا انجینئر ہے۔میرے خیال میں تو وہ مجھ سے بہت بہتر رہا۔”

لیڈیز گیٹ ٹو گَیدر میں عموماً مختلف برانڈز کے کپڑوں اور فیشن کے رجحانات پر سیر حاصل تبصرہ فرمانے کے ساتھ ساتھ بیٹ مینوں کی لاپروائیوں اور خاوندوں کی مصروفیات کا رونا رویا جاتا ہے۔بیچ بیچ میں دھوبیوں ، درزیوں ، اور خاکروبوں کا شکوہ بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ گیٹ ٹو گَیدر سے پہلے ہر خاتون کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا پہناوا سب سے دیدہ زیب اور منفرد قرار پائے۔ اس کے لئے رازداری کے ساتھ مختلف برانڈز کی دوکانوں کے چکر لگائے جاتے ہیں اور آن لائن شاپنگ سائٹس پر آرڈر بک کرائے جاتے ہیں۔ کچھ جہاندیدہ بیگمات تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لنڈا بازار کا رخ کرتی ہیں کیونکہ گوہر مراد کا حصول اکثر وہیں سے ممکن ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی شناسا سے آمنا سامنا ہو جائے تو ہاتھ میں پکڑی ہوئی سبزی کی ٹوکری کی جانب توجہ دلا کر کہا جاتا ہے کہ کسی نے بتایا تھا کہ یہاں سبزی بہت اچھی ملتی ہے سوچا چل کر دیکھتے ہیں۔ بیگم صاحبہ ہر گیٹ ٹو گیدر سے پہلے شاپنگ پر لے جانے کی فرمائش ضرور کیا کرتی ہیں۔اگر کبھی ڈرتے ڈرتے ان کی توجہ الماری میں پہلے سے موجود بیسیوں جوڑوں کی جانب دلوائی جائے تو جواب میں چہرے پر معصومیت طاری کرکے کہتی ہیں”کہنے کو تو یہ سوٹ بہت ہیں لیکن ان میں ایک بھی کام کا نہیں ہے۔”

detailkev.jpg?ver=1.0

ڈیٹیل بریفنگ
فوج کی گاڑی بریفنگ کے پٹرول سے چلتی ہے۔اعلی افسران کوہر مشکل کا حل وزٹ، کانفرنس اور بریفنگ کی صورت میں نظر آتا ہے۔بریفنگ کے لئے سلائیڈز اور مختلف قسم کے چارٹ اور ماڈل بنائے جاتے ہیں۔گئے وقتوں میں یہ کام کافی مشکل ہوا کرتا تھا البتہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر نے یہ مشکل آسان کرنے کے ساتھ ساتھ مزید مسائل کو جنم بھی دے دیا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ عین موقع پر کمپیوٹر میں وہ وہ خرابیاں نمودار ہوجاتی ہیں جن کا حل شاید بل گیٹس کے پاس بھی نہ ہو۔ سیانے لوگ ہمیشہ سمجھاتے آئے ہیں کہ بھیا اگر عزت بچانا چاہتے ہو تو بریفنگ میں ہر ڈیٹیل (تفصیل) شامل ہونا چاہئے۔ اس سے ان کا مطلب ہوتا ہے کہ سلائیڈوں کی تعداد ڈیڑھ دو سو سے کم نہ رکھی جائے جبکہ ہمارا ذہن اس بات کو ماننے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوا۔یعنی اگرڈیٹیل شامل کرلی جائے تو پھر بریفنگ کیونکر کہلائے گی۔
ہمارے خیال میں تو ایک اچھی بریفنگ کا دورانیہ پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کی سلائیڈز میں آخری وقت تک ترمیم و اضافہ جاری رہتا ہے۔ بہرحال ایک آدھ روز پہلے کمانڈر کو بریفنگ دکھا کر اپرووکروا لی جاتی ہے۔ ہمارے ایک ڈپٹی کمانڈر اس معاملے میں بہت محتاط ہوا کرتے تھے۔ایک مرتبہ جی او سی کے وزٹ کے لئے ہم نے سلائیڈز تیار کیں اور ایک روز قبل کمانڈر کو دکھا کر اپروو کروا لیں۔ ان کے جانے کے بعد ہم نے دوبارہ سلائیڈوں کا جائزہ لیا تو سپیلنگ کی ایک غلطی دکھائی دی۔ ہم نے ڈپٹی کمانڈر کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تو بولے ”کچھ بھی ہواب اس غلطی کو درست نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سلائیڈز اپروو ہو چکی ہیں۔”

بریفنگ کیسی بھی ہو، انڈے بچے ضرور دیا کرتی ہے۔ یار لوگوں کی اس سے جان بلاوجہ نہیں جاتی کیونکہ اس عاشقی میں عزت سادات ہر لمحہ دائو پر لگی ہوتی ہے۔ ایک جنگی مشق کے دوران کمانڈر بریفنگ روم میں تشریف لائے۔ جنگی پلان پیش کیا گیا جس میں بے شمار خامیاں تھیں لہٰذا آپریشنز برانچ کی خوب عزت افزائی ہوئی۔ اس کے بعد کمانڈر نے ڈی کیو سے پوچھا کہ آپ نے کیا تیاری کی ہے۔ وہ بولے ”سر! میں جوانوں کے لئے راشن سپلائی کرنے کا بندوبست کر رہا ہوں۔” کمانڈر کہنے لگے ”جس قسم کا پلان تم لوگوں نے تیار کیا ہے اس کے بعدتو تمہیں راشن کی بجائے کفن دفن کا بندوبست کرنا چاہئے۔” ایک آپریشنل بریفنگ کے دوران کمانڈر کو بتایا گیا۔ ”سر! ہم دائیں جانب سے جا کر دشمن پر حملہ کریں گے، دوبدو لڑائی ہو گی اور اس کے بعد چوٹی پر ہمارا قبضہ ہو جائے گا۔” کمانڈر پلان سن کر بولے ”ٹھیک ہے مگر اس کے بعد کیا ہو گا؟۔”جواب آیا”سر!ٹی بریک۔”اوراس کے بعدچراغوں میں روشنی نہ رہی۔

بورڈ رے بورڈ
پروموشن کے لئے جتنی چھان پھٹک فوج میں کی جاتی ہے اتنی شاید ہی کسی اور محکمے میں ہوتی ہو گی۔فوج میں ہر پروموشن کے لئے ایک خاص عرصہ اور وقت مقرر ہے۔ جوں جوں یہ وقت قریب آتا جاتا ہے افسر امید و بیم کی ایک ملی جلی سی کیفیت میں گرفتار ہوتا چلا جاتاہے۔ میجر کے بعد ہر رینک میں پروموشن کے لئے افسر کو بورڈ کا پل صراط پار کرنا لازمی ہے۔ یہ بورڈ سینئر افسران پر مشتمل ہوتا ہے جو ہر افسر کی پچھلی کارگزاری کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لے کر اسے پروموٹ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں جس کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کی جانب سے حتمی منظوری دی جاتی ہے۔ افسر بذات خودتو بورڈ کے سامنے پیش نہیں ہوتا تاہم اس کا تمام کچا چٹھا کاغذات کی صورت میں ان کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ افسر کا کام بس گھر بیٹھ کر’جل تُو جلال تُو’ کا ورد کرنا ہوتا ہے۔ بورڈ میں عموماً افسر کی پرانی خطائوں سے تو صرف نظر کر لیا جاتا ہے لیکن تازہ غلطیوں پر محدب عدسہ رکھ کر بحث کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عمر عشقِ بتاں میں کاٹنے والے’مومن’کو بورڈ قریب آنے پر مسلماں ہونا ہی پڑتا ہے۔ زیادہ تر کا حال تو کرکٹ کے اس بیٹسمین جیسا ہوتا ہے جو سنچری سے محض ایک یا دو رنز کے فاصلے پر ہو اور مخالف فاسٹ بالر بائونسر پر بائونسر پھینک رہا ہو۔

بڑے بوڑھوں نے بورڈ کیسز کے لئے بطور خاص ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ بورڈ کے دنوں میں ‘یس سر ‘کے علاوہ کوئی کلمہ منہ سے نہ نکالا جائے ، کسی قسم کی فائل پر دستخط نہ کئے جائیں اور کوئی بھی فیصلہ دینے سے حتی الامکان ”پرہیز” برتا جائے۔ کچھ دیگر سیانے لوگ کہہ گزرے ہیں کہ امام ضامن ہر وقت باندھ کر رکھا جائے، کمرے سے غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلا جائے اور کسی فوجی گاڑی پر ہرگز سوار نہ ہوا جائے۔بورڈ کے دنوں میں افسر وں کی زیادہ تر دوڑ ملا کی طرح مسجد کی جانب ہی ہوا کرتی ہے۔ کچھ لوگ تو تسبیح ہاتھ میں پکڑے وظائف کا عمل کرتے نظر آتے ہیں۔ خواتین خانہ کی جانب سے بھی قرآن خوانی کی خصوصی محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ بورڈ والے افسر سے کسی معاملے میں رائے پوچھیں تو پوری بات سن کر فرماتے ہیں ”یارتمہیں جو مناسب لگے کر لو۔ روزہ افطار ہونے والا ہے،مجھے اجازت دو میں چلتا ہوں۔”

بورڈ کیسز کی یہ احتیاط پسندی اپنی جگہ لیکن حکام بالا بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوتے۔ ان کی بھی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اہم ترین کاموں کی ذمہ داری بورڈ والے افسران کے ہی سپرد کی جائے۔ ایسے میں بورڈ کیسز میاں محمد بخش کے ہم زبان ہو کر ‘پھنس گئی جان شکنجے اندر جِیُویں ویلن دے وچ گنا’کے نعرے مارتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ سیانے لوگ ان کو ناصر کاظمی کے الفاظ میں تسلی دیتے ہیں کہ ”وقت اچھا بھی آئے گا ناصر، غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی”۔ چند بورڈ کیسز پر بورڈ کے دنوں میں ایک اور قسم کی کیفیت بھی طاری ہوجایا کرتی ہے جسے عرف عام میں ”آبیل مجھے مار”بھی کہا جاتا ہے۔ اس دوران ان کی کوشش ہوتی ہے کہ حکام بالا کی نظر وں میں ممتاز ہونے کے لئے کچھ نیا کر کے دکھایا جائے۔ کبھی کبھار اڑتے تیروں کے ساتھ یہ چھیڑ چھاڑ مہنگی بھی پڑ جاتی ہے جس کا نتیجہ ”کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن ، کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی”کی صورت میں نکلتا ہے۔

لینڈ مارک اور کوے
”دور ہو، مشہور ہو، ہلنے سے مجبور ہو” اس کہاوت کا تعلق لینڈ مارک سے ہے اور یہ ہر فوجی کو اولین سبق کے طور پر یاد کروائی جاتی ہے۔ لینڈ مارک یا زمینی نشان کیا ہوتا ہے اور اس کی ضرورت کب پیش آتی ہے، اس کے بارے میں آپ کو تھوڑا بتاتے چلیں ۔ کسی بھی آپریشنل پلان کو فیلڈ میں عملی جامہ پہنانے سے پہلے ٹارگٹس یا اہداف کی ریکی کی جاتی ہے۔ اس دوران نقشے پر پہلے سے چنے گئے اہداف کو زمین پر تلاش کر کے پلان کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ اب چونکہ اصل ٹارگٹ دشمن کے علاقے میں واقع ہوتے ہیں اور ریکی کے دوران ان تک بذاتِ خود پہنچا نہیں جا سکتا اس لئے کوئی ایسی اونچی جگہ تلاش کی جاتی ہے جہاں سے تمام علاقہ بخوبی دکھائی دیتا ہو۔ کمانڈر اس جگہ سے اپنے ذیلی کمانڈروں کو بریفنگ دیتا ہے اور مطلوبہ اہداف کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے لئے وہ مختلف واضح طور پر دکھائی دینے والے فیچرز جیسے پہاڑی چوٹی، اکیلا درخت، نالہ جنکشن ، بجلی کا کھمبا وغیرہ کا انتخاب کرتا ہے جنہیں عرفِ عام میں لینڈ مارک کہا جاتا ہے۔ ان لینڈمارکس کے ریفرنس سے مختلف ٹارگٹس کی نشاندہی کی جاتی ہے جیسے ”ریفرنس پوائنٹ سامنے پہاڑی پر موجود اکیلا درخت، اس کے بارہ بجے کی لائن میں 500 میٹر پر دشمن کا مورچہ۔”

کتابی طور پر تو یہ باتیں نہایت آسان لگتی ہیں لیکن جب آپ کسی جنگی مشق کے دوران بریگیڈ کمانڈر کو ٹارگٹ دکھانے کی کوشش کر رہے ہوں تو ہاتھوں سے طوطے اور زمین سے لینڈ مارکس ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ایک مرتبہ ہمارے دوست میجر اختر دشمن کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے ایسی ہی صورتحال کا شکار ہوئے۔ کمانڈر کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے بہت سے لینڈ مارک دکھانے کی کوشش کی لیکن کسی بھی طرح ٹارگٹ واضح کرنے میں ناکام رہے۔ کافی دیر تک ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد جب انہیں کوئی اور موزوں لینڈ مارک سجھائی نہیں دیا تو جھنجلا کر بولے ”سر سامنے دیکھئے، آسمان پر کّووں کا ایک غول اڑتا نظر آئے گا، ریفرنس پوائنٹ سب سے بائیں والا کوا، اس کوے کی دس بجے کی لائن میں پانچ سو میٹر دور دشمن کا مورچا ہے۔” کوّوں کا غول تو کچھ ہی دیر میں اڑتا ہوا نگاہوں سے اوجھل ہو گیا البتہ اس اثنا میں کمانڈر کا پارہ ساتویں آسمان تک پہنچ چکا تھا۔اتنے بے مثل لینڈ مارک دینے کی پاداش میں میجر اختر کو حکم دیا گیا کہ دو کلومیٹر دور ٹارگٹ کو ہاتھ لگا کر تیس منٹ میں واپس تشریف لائیں۔

جاری ہے۔۔

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ٹارگٹ ٹارگٹ ٹارگٹ۔۔کرنل ضیا شہزاد/قسط 21

Leave a Reply