خراسان میں گزرے چالیس دن/سراجی تھلوی(1)

آیت اللہ مصباح یزدی کی  دانشگاہ (یونیورسٹی) کی طرف سے ایران کے شہر مشہد میں منعقدہ فلسفیانہ مباحث پر مشتمل ایک چالیس روزہ ورکشاپ میں شرکت کرنے کا غنیم موقع میسر آیا۔یہ ورکشاپ مختلف پہلوؤں سے اہمیت کی  حامل ہے۔ یہ ورکشاپ پچھلے کئی برسوں سے سال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتی  رہی ہے ۔

 

 

 

 

جس میں پورے ایران کی مختلف یونیورسٹیز اور حوزات علمیہ سے تقریباً  4 سے5ہزار طلبا و طالبات شرکت کرتے ہیں۔اس ورکشاپ کا پس منظر بہت ہی وسیع ہے۔ میں اختصار کے ساتھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔  آیت اللہ مصباح یزدی رح عالم اسلام کے ایک مایہ ناز سکالر و فلسفی ہیں ۔جنہوں نے مختلف موضوعات پر اَن گِنت نقوش و آثار رقم کیے ہیں ۔بالخصوص عقلی و فلسفی مباحث اور معاصر شبہات پر ایک نئی روش سے خامہ فرسائی کی ہے اور فلسفہ اسلامی میں آپ کے تفردات ہیں۔مصباح یزدی رح فرماتے ہیں: جب میں نے پڑھنا لکھنا شروع کیا تو مختلف سوالات ذہن میں پیدا ہونا شروع ہوئے۔خدا کہاں ہے؟خدا کا وجود کیسا ہے؟خدا کو کس نے خلق کیا ہے؟ایسے عجیب و غریب سوالات پیدا ہوئے تو ان سوالات کی تشفی اور جواب تلاش کرنے کےلیے حوزہ علمیہ میں قدم رکھا اور چالیس سال کی انتہائی شاق محنت کے بعد مجھے ان سوالوں کے تشفی بخش جوابات ملے تو میں نے سوچا اس چالیس سال کی مدت میں حاصل کیے ہوئے مباحث کو چالیس دن میں علم و دانش کے جویاؤں تک پہنچا دوں۔اس مقصد کی تکمیل “طرح ولایت”چالیس روزہ چلّہ معرفتی “کے نام سے وجود میں آئی۔اس کورس میں منطقی ترتیب کے مطابق 6کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔جن کا ترتیب وار درس دیا جاتا ہے ۔ان 6 کتابوں کا ایک دوسرے کے ساتھ زنجیر کی کڑیوں کی طرح ربط و تسلسل ہے۔یہ 6کتابیں اس ترتیب سے ہیں۔۔

1۔معرفت شناسی،علمیات۔Epistemology
از ڈاکٹر مجتبیٰ  مصباح و ڈاکٹر عبداللہ محمدی

2۔خدا شناسیKnowing God
از ڈاکٹر عبودیت و ڈاکٹر مجتبیٰ مصباح

3۔انسان شناسیKnowing Human Being
از ڈاکٹر صفدر الہٰی راد

4۔فلسفہ اخلاق Moral philosophy
از ڈاکٹر مجتبیٰ  مصباح

5۔فلسفہ حقوق Philosophy of Law
از ڈاکٹر دانش پژوہ و جواد عابدینی

6۔فلسفہ سیاست Philosophy of politics
از ڈاکٹر شبان نیا،

یہ چھ  6کتابیں عقلی دلائل کے تحت انہی 6مباحث کے علاوہ ساتویں ،آٹھویں متصور نہیں ہوسکتی۔ اس عقلی ترتیب کو سمجھنے کےلیے ان 6 کتابوں کے درمیان جو ارتباط و تسلسل ہے اس کا سمجھنا ناگزیر ہے۔

پہلی کتاب” معرفت شناسی، Epistemologyکو سمجھے بغیر “خدا شناسی کا پڑھنا عقلی طور پر درست نہیں کیونکہ اگر آپ کہیں  کہ “خدا موجود ہے” خود اس جملے کا  کیا اعتبار و سند ہے ۔جو لوگ مطلق نسبت” کے قائل ہیں۔اور مطلقاً واقعیت و حقیقت سے انکار کرتے ہیں انکےلیے “معرفت شناسی کے توسط سے استدلال کیا جاتا ہے۔اور تفصیلی بحث کی جاتی ہے کہ معرفت ہے کیا؟کیا علم و معرفت امکان پذیر ہے؟اقسام کیا ہیں؟اور علم حاصل کرنے کے راستے کیا ہیں؟کیسے مختلف علوم کے اعتبار و ارزش کو مشخص کرنا ہے؟
علم و معرفت کے بغیر کسی چیز کا سمجھنا کسی کام کا انجام دینا ممکن نہیں۔
اور تحصیلِ علم و معرفتِ معتبر کے امکان کے بغیر تمام علوم کی تلاش بیہودہ و لغو ہوجائے گی ۔
اس لیے باقی پانچ کتابوں کےلیے “معرفت شناسی”مبنی و مبتنیٰ کی حیثیت رکھتا ہے ۔یعنی باقی 5کتابیں “معرفت شناسی”پر موقوف و منوط ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply