ایک اور دھماکہ ۔۔۔۔ بے ربط خیالات

ایک اور دھماکہ
آگ خون بارود
آہیں چیخیں سسکیاں بھگدڑ
مذمتی بیانات ، دہشت گردوں کی نا ٹوٹنے والی کمر اور ایکشن پلان
آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا کب تک ہم خاموش رہیں گے۔ کب ہم محسوس کریں گے کہ ہم خوف اور دہشت کی زنجیروں سے آزاد ہو چکے ہیں۔
خاموش کیوں ہو بوتے کیوں نہیں ۔ ان مرنے والوں میں کیا کوئی تمھارا اپنا نہیں ہے؟
کیا کوئی صوبائی اختلاف ہے یا مسلک آڑے آ رہا ہے؟ یا ان جاں بحق سے انسانیت کا کوئی رشتہ بھی نہیں تھا۔
کون یہ کھیل کھیل رہا ہے کون سہولت کارہیں کسی بھی صوبہ یا مسلک سے تعلق ہے تو کیا ہوا ہمیں نہیں کھیلنا یہ آگ اورنفرت کا کھیل۔ ایک ضابطہ کیوں نہیں بناتے۔ سرعام لٹکاتے کیوں نہیں۔ اس ملک اور قوم کا دشمن کسی بھی مسلک یا قومی شناخت میں چھپا ہوا ہے اسے بے نقاب کر کے نشان عبرت کیوں نہیں بناتے؟
محلوں، بنگلوں اور عشرت کدوں میں چھپ کر کیا سمجھتے ہو کہ تمھاری باری نہیں آئے گی ؟نہیں نہیں تم بھی نشانہ بنو گے بہت جلد بنو گے کب تک کبوتر کی طرح آنکھیں موند کر خاموش رہو گے۔ یہ آگ کسی کی دوست نہیں ہوتی یہ پھیلتی ہے اور سب کچھ جلا دیتی ہے خشک ہو یا تر سب خاکستر ہو جائے گا۔
ایک آسان سا کلیہ کیوں سمجھ نہیں آتا کسی مدبر، سیاستدان اور اداروں کو؟
میں کہاں جاؤں میں کس سے انصاف کی بھیک مانگوں یہاں صحابہ کی عدالت کےقصے تو زبان زبان پر ہیں لیکن پریکٹیکل کون دکھائے گا یا صرف سبحان اللہ اور واہ واہ کے لئے یہ قصے ہم اپنی اولادوں کو سناتے رہیں گے۔
ویلنٹائن، بدعات ، مسلک ، تکفیر پر خطبات، وال پوسٹنگ ، بحث مباحثہ کے لئے گھنٹوں مصروف لیکن نشمین جل رہا ہے خاموش تماشائی کیوں ہو؟
کرسی کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے تو چمٹے ہوئے کیوں ہو۔
کھانے میں گدھے کتے کھاتے رہے خاموش رہے۔ مردہ جانوروں کی آنتوں کا تیل پیتے رہے چپ رہے، پسی ہوئی اینٹیں مرچیں سمجھ کے چباتے رہے خاموش رہے۔
تعلیم کے نام پر دوکانیں چمکتی رہیں خاموش رہے۔ ہسپتال میں ایک پرچی کے لئے گھنٹوں لائین میں لگے رہے لیکن خاموش رہے۔
انصاف عدالتوں میں بکتا رہا خاموش رہے۔ منشیات کا زہررگوں مٰیں سرایت کرتا رہا خاموش رہے۔ لیکس میں نام چھپتے رہے خاموش رہے۔
شام میں آگ لگی بھڑک اٹھے ، یمن جلنے لگا تو چیخ اٹھے پوری امت کا درد دل میں رہا لیکن اپنے جگر گوشوں پر لب سی لئے۔
عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں ، بچے یتیم ہو رہے ہیں، بیٹیاں اجڑ رہی ہیں۔
کوئی باپ کی شفقت سے جدا ،تو کوئی ماں کی آغوش سے محروم
کس لئے خاموش ہو اپنے لئے نہیں تو اپنی آنے والی نسل کے لئے تو بولو۔
کہیں کل آپ کا اپنا بیٹا یتیم اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کہاں بولو گے پھر کدھر بولو گے پھر کون سنے گا۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply