تعمیری تنقید۔۔مرزا مدثر نواز

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ حاتم طائی بہرے نہیں تھے۔ وہ کسی مصلحت کے تحت بہرے بنے رہتے تھے۔ اس دعوے کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ایک بار کوئی مکھی مکڑی کے جالے میں پھنس گئی تو حاتم طائی نے اس کی آواز سن لی تھی۔ انہوں نے اس مکھی کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’اے لالچ کی غلام ! ہر جگہ شہد اور شکر نہیں ہوتے بلکہ کہیں کہیں شکاری اور جال بھی گھات میں بیٹھے ہوتے ہیں‘‘۔حاتم طائی کے ایک مرید نے یہ آواز سنی تو حیرت سے پوچھا: حضرت! آپ تو بہرے ہیں پھر یہ مکھی کی آواز آپ نے کیسے سن لی؟ آپ مسکرائے اور جواب دیا۔ اے ہوشمند! چغلی اور بکواس سننے والا اچھا ہے یا بہرا؟ میں نے چغلی، غیبت اور جھوٹ سننے سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے خود کو بہرا بنا لیا ہے۔ اس سے مجھے فائدہ یہ پہنچتا ہے کہ لوگ مجھے بہرا جان کر میری خامیاں اور برائیاں میرے سامنے بتا دیتے ہیں۔ میں اس طرح ان خامیوں کو ترک کر دیتا ہوں ۔ برائی سن کر مجھے جب تکلیف پہنچے گی تو میں اسے چھوڑ دوں گا۔ میرا خیال ہے اب یہ بات تیری سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ حاتم طائی بہرا کیوں بنا ہے۔(حکایت سعدیؒ )

کوئی  بھی انسان مجسم تکمیل نہیں ہو سکتا‘یہ نہ تو کوئی فرشتہ ہے جو ہر قسم کی خواہشات سے مبرّا ہو نہ ہی کوئی جانور کہ جسے صرف اپنی خواہشات سے غرض ہو۔ اگر خاکی ڈھانچہ فرشتوں میں سرایت کرے تو امکان ہو سکتا ہے کہ وہ بھی ہاروت و ماروت بن جائیں۔ خواہشات کے چنگل میں پھنسے اس خاکی کو بیک وقت دو دشمنوں سے پالا رہتا ہے ایک اپنے اندر چھپے ہوئے اور دوسرا باہر بیٹھے ہوئے۔ اگر یہ مقابلہ میں دونوں شیطانوں کو مات دے دیتا ہے تو یہ اشرف المخلوقات بننے لگتا ہے اور رحمٰن کو یہ کہنا پڑتا ہو گا کہ اے میرے فرشتو کل تم کہتے تھے کہ یہ تو فساد ہے آج تمھیں سمجھ آنی چاہیے کہ میں نے اسے مسجودِ ملائک اور خلیفہ کیوں بنایا۔ رحمانیت اور شیطانیت کی طرف کھینچنے والی طاقتوں کے درمیان پھنسا ہوا مٹی کا یہ پتلا لغزشیں بھی کرتا ہے، ڈگمگاتا بھی ہے، بھولتا بھی ہے، کبھی غلط اور کبھی درست فیصلے بھی کرتا ہے، کبھی اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنے لگتا ہے اور کبھی دہائی دیتا ہے تو ہی تو۔ لہٰذا یہ خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ ہے۔

کوئی انسان یہ دعوٰی نہیں کر سکتاکہ وہ بے عیب ہے اور غلطیوں سے پاک ہے۔ کبھی کبھی جہالت اور دولت و ثروت میں ڈوبا انسان اپنے آپ کو عیبوں اور خامیوں سے مبّرا سمجھنے لگتا ہے۔ اگر کوئی ان کی نشاندہی کرے تو برا مان جاتا ہے اور بتانے والے کواپنا دشمن سمجھتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور کہا جاتا ہے کہ: جس نے تجھے تیرے عیب بتائے اگر تجھے عقل ہو تو بے شک اس نے تجھ پر احسان کی انتہا کر دی۔ اگر کوئی آپ کے خلاف من گھڑت کہانیاں مشہور کر دیتا ہے پھر بھی اس کا برا نہ منائیں اور صبر کے ساتھ اللہ سے درخواست کریں:’’ اے میرے رب! اس شخص کو توبہ کی توفیق عنایت فرما۔ اگر وہ برائیاں مجھ میں موجود ہیں جو وہ بتاتا پھرتا ہے تو مجھے توبہ کی توفیق بخش۔‘‘

تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہ ہمیشہ خوشامدیوں اور سب اچھا کی رپورٹ دینے والوں کو پسند کرتے تھے جو ان کی خامیوں کو خوبیاں بنا کر پیش کرتے تھے اور ایک وقت آتا تھا کہ انہی خوشامدیوں کی بدولت سلطنت زوال کی طرف گامزن ہوجاتی تھی۔خوشامدی کبھی بھی آپ سے مخلص نہیں ہو سکتا اس کو صرف اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ آپ کا مخلص ساتھی کبھی بھی آپ کی خوشامد نہیں کرے گا بلکہ حقیقت سے مطلع کرے گا ۔ خاص اور عام دوست میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے، عام دوست صرف تعریف کرتا ہے لیکن خاص دوست تعریف کے ساتھ تنقید بھی کرتا ہے۔

پارلیمانی نظامِ حکومت میں اپوزیشن ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ اکثریت کی آمریت کے خلاف دیوار کا کام کرتی ہے اور حکومتِ وقت اسی کی بدولت اپنی اوقات میں رہتی ہے ورنہ جمہوریت اور آمریت میں کوئی فرق نہ رہے۔ اسی طرح برسرِ اقتدار لوگ بھی اپنے اوپر کی جانے والی تنقید سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔جہاں نکتہ چینی سننے والے کی‘ برداشت، فراخدلی،خندہ پیشانی سمیت کچھ ذمہ داریاں ہیں وہیں فاعل پر بھی کچھ قواعدوضوابط لاگو ہو تے ہیں۔ ہر کام کی طرح اس معاملے میں بھی اعتدال سے کام لینا چاہیے کیونکہ ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانا منافقوں کی خصلت ہے اور ہر بات میں اختلاف کرنا باعثِ عداوت ہے۔ خیال رکھنا چاہیے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، مخاطب کو رسوا کرنے، اسے نیچا دکھانے، بدنام کرنے اور اپنے آپ کو عالم و برتر تصور کرنے والا رویہّ اور لہجہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔اگر بات انفرادی سطح کی ہو تو خلوت کا سہارا لینا چاہیے، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جس نے کسی کو اکیلے میں نصیحت کی اس نے اسے سنوار دیا اور جس نے کسی کو سب کے سامنے نصیحت کی اس نے اس کو بگاڑ دیا۔ کسی بھی مسئلہ پر تنقید، تبصرہ یا نکتہ چینی کا واحد مقصد صرف اصلاح ہونی چاہیے تاکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داری پوری ہو سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سرکارِدو عالم،فخرِ انسانیت، رہبرِ کائنات ﷺ نے اس طرح فرمایا  : اس کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر عذاب بھیجے اور پھر تم اس کو پکارو اور وہ تمھاری پکار نہ سنے۔ (ترمذی)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تعمیری تنقید۔۔مرزا مدثر نواز

Leave a Reply