میں نےکمرے میں پڑی نیندکی گولیاں اور بلیڈ کی طرف دیکھ کر سوچا کہ ۔۔
گولیاں کھا کر زندگی کا خاتمہ کر لوں ،یا اپنی نبض کاٹ لوں۔
مگر میں عورتوں کی طرح رومانوی طریقے سے مرنا نہیں چاہتا۔۔۔۔میں مرد ہوں !
میں ٹرین کے نیچے آسکتا ہوں یا نہر میں کود کر جان بھی دے سکتا ہوں ،
مگر ٹرین کی زد میں آکر جسم اتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے کہ اکھٹا کرنا بہت مشکل ہے۔
اور اتنے بڑے اجنبی شہر میں کوئی میری پھولی ہوئی تعفن زدہ لاش کیسے پہچانے گا؟
اور اپنے شہر کی نہر میں تو گھٹنے بھی گیلے نہیں ہوتے۔۔۔۔پھر کیا کیا جائے؟
میں بھی کس قدر کمزور مرد ہوں کہ بہادری کا ایک فیصلہ نہیں لے سکتا
انہی خیالوں میں خود کشی کا ارادہ ترک کیا اورآفس کے لیے تیار ہونے لگا۔۔
کہ خدا کی جنت کی بجائے ایک بار پھر دنیا کی دوزخ کا سامنا کیا جائے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں