سازش فرنگ ۔ عظمت نواز

فرنگیوں نے ھماری مسلمان قوم کو جہاں کمزور رکھنے کے لیے اور بے شمار سازشیں گھڑی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کے مسلمانوں کو جسمانی طور پر کیسے کمزور رکھا جائے، کیونکہ فکری، ذہنی، تعلیمی، میدانوں میں تو کام پورا ھو گیا مگر جسمانی طور؟ اسکا حل انہوں نے کچھ یوں نکالا کہ مومنین کو کھانے کے ساتھ یہ چھری و کانٹا دے دو تو نہ ہی یہ پیٹ بھر کر کھانا کھائیں گے اور نہ کبھی تندرست و توانا رھیں گے-

قصہ کچھ یوں ہے کہ غم روزگار کی بدولت پردیس پدھارے تو بقیہ تمام معاملات جیسے کہ ہماری پگار کتنی ہو گی، ہم سوئیں گے کہاں، ہمارے ملبوسات کہاں دھوئے جا سکیں گے، ہمارے اوقات کار کیا ہوں گے؟ وغیرہ جیسے غیر اہم معاملات کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا – البتہ جس مشکل میں ہم پڑے تھے وہ یہ تھی کہ ہم بسیار خور تو نہیں مگر کھانا تمام عمر رفتہ میں اعلی قسم کا کھاتے آئے تھے۔ سو ذہن ناتواں و قلب سلیم میں جو خیال اولین درجے پر براجمان تھا وہ یہی شکم سیری کا تھا کہ خوردہ کیا، کب اور کیسے ملے گا؟ سو ذرا سی تگ و دو کے بعد ہمیں اس مبارک مقام کی زیارت نصیب ہو گئی جہاں پر سامان شکم سیری موجود تھا – اس کار نیک کے لیے جو میس ترتیب دیا گیا تھا وہاں پر ہمارے بنگالی بھائی تعینات تھے، بطور میس انتظامیہ – وہاں داخلے کے بعد ہم نے رسمی علیک سلیک کے بعد ایک قدرے صحت مند بنگالی بھائی سے دریافت کیا کہ بھیا آپ خود کھانا کھا چکے کیا؟ اس پر ہمارے اس بنگالی بھائی نے ہمیں جو جواب عنایت کیا وہ جملہ کچھ یوں تھا کہ “دادا آج ہم روٹی کھایا بس اس لیے کھانا نہیں کھائے گا”، اس لمحے میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ یا خدایا ہم نے ساری زندگی جو کھایا وہ کھانا نہیں تھا کیا؟ ابھی اسی سوچ میں تھا کہ وہاں موجود دوست نے وضاحت فرمائی کہ بنگالی بھائیوں کی نظر میں کھانا اسی کو کہتے جس میں چاول شامل ہوں اسکے سوا کچھ بھی کھائیں تو گویا وہ پیٹ بھرنے کا ایک حیلہ تو ضرور ہوتا البتہ اسے یہ کھانا نہیں گردانتے۔ اب ہماری باری تھی کھانے کی اور ہم دیار غیر میں مکمل تیاری کے ساتھ اپنا پہلا کھانا تناول کرنے کو پر تول رھے تھے کہ جب ہمارے سامنے کھانے کے لوازمات و جملہ اوزار رکھے گئے جن میں چھری و کانٹا ہمیں کچھ اجنبی سے محسوس ہوئے کہ ان فرنگی صورت اوزاروں سے تو کبھی نہ کھایا تھا کچھ بھی – خیر چھری کانٹے سے کھانے کو پہلی مرتبہ لپکے تو اسکو ایک کار مشکل پایا بلکہ لگا کہ ہماری حیات کا سب سے بڑا روگ تو یہی ھے کہ اس سے کھانا پڑے گا- اب آس پاس بیٹھی ھوئی عوام جو کم از کم کوئی دس پندرہ مختلف ممالک سے تعلق رکھتی تھی دھڑا دھڑا ، اور لپا لپ ، کھائے جا رھی تھی اور ایک ھم تھے کہ اسی سوچ میں تھے کے چھری اگر دائیں ھاتھ میں پکڑی تو کاٹ تو لیں گے مگر کھانا بائیں ھاتھ سے پڑے گا تو اگر ایسا کیا تو سمجھو مسلمانی سے جا تے رھیں گے- پھر دوسرا مخمصہ یہ تھا کہ اگر چھری بائیں ھاتھ میں پکڑی اور کانٹا صاحب کو دائیں ھاتھ میں پکڑا تو بائیں ہاتھ سے کاٹیں گے کیسے اور اگر کاٹیں گے نہیں تو کھائیں گے کیسے؟..

اللہ اللہ کر کے کوئی آدھے گھنٹے کی سوچ بچار کے بعد یہ طے کر پائے کہ کہیں منیر نیازی صاحب کی طرح دیر کر دیتا ھوں نہ کہنا پڑے سو دائیں ھاتھ میں تو کانٹا اور بائیں میں محترمہ چھری جی کو دبوچ لیا اور لگے پلیٹ میں موجود مال سے چھیڑ خانی کرنے! مگر یہ کیا؟ جونہی کسی بوٹی پر چھری سمیت ھاتھ ڈالتے تو وہ پھدک کر دوسری طرف نکل جاتی اور اگر اسے اس دوسری جگہ سے گھیرا ڈالتے تو وہ پھر کر کے کسی اور سمت نکل جاتی …….. گویا بوٹی نہ ھوئی کوئی حسینہ ھو گئی کے جس طرف سے قریب جاو وہ دغا دے کر اور شرارتی مسکراہٹ دے کر دوسری طرف نکل لیتی مگر ھاتھ نہیں آتی- یہی کچھ اس وقت یہ بوٹی ھمارے ساتھ کر رھی تھی۔ اب کے ھم نے دونوں اطراف سے حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا جیسے ہمارے پاکستانی حکمران بہت سارے فیصلے کرتے ھیں مگر ان پر عمل نہیں کرتے- سو عین سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ھم بمع چھری و کانٹا یک مشت بوٹی پر حملہ آور ھوئے – جیسے محمود غزنوی ھوا تھا مگر ھمارے ساتھ بھی اس حملے میں وھی ھوا جو غزنوی کے ساتھ ھوا، یعنی منہ کی کھانی پڑی اور دو طرفہ طاقت کے استعمال سے بوٹی چھری اور کانٹے کے بیچوں بیچ سے پھسل کر سیدھی ھماری کل متاع یعنی ناک مبارک کے اوپر آ لگی- مگر ھم غزنوی کی طرح تازہ دم ھو کر حملہ کرنے کا سوچ کر حوصلہ کر گئے کے اسے بھی سترہ بار تکلف کرنا پڑا تھا- اور سوچا کہ میاں ہمت رکھ، کوشش کر ورنہ بھوکا مرے گا صبح تک کچھ بھی نہیں ملنا یہاں- پھر دل کو تسلی دی عزت پر لگا داغ صاف کیا، یعنی ناک پر لگا داغ صاف کیا اور اگلے حملے کی تیاری شروع کر دی کیونکہ میں بھی خود کو ھمیشہ سے اقبال کا شاہین شمار کرتا ھوں کہ وھی پلٹنا، جھپٹنا.. وغیرہ وغیرہ .. تو اس بار ھم مشرف کی کارگل پالیسی اپناتے ھوئے آگے بڑھے اور چپکے چپکے پلیٹ میں دھری ایک قدرے بڑی بوٹی کی طرف لپکے کہ چلو ساری نہ سہی کچھ تو ھاتھ آئے گی – جیسے ھی چھپ کر وار کیا تو بوٹی پلیٹ میں سے ایسے پھسلی کے اتنی تو یہ مرغی اپنی حیات مبارکہ میں بھی نہیں پھدکی ھوں گی جتنا عذاب بعد از مرگ ھمیں ڈالا ھوا تھا اور ایسی پھدکی کہ اب کی بار سیدھی پلیٹ سے لپک کر میز پر اور وہاں سے زمین پر تشریف لے گئی

دل ھی دل میں فرنگیوں کو کوسنا دشروع کر دیا کہ یہ اس کمینہ خصلت فرنگی کی چال ھے جو ھمیں بھوکا رکھ کر کمزور کرنا چاہتا ہے۔ اسی لمحے جیسے ھی دائیں بائیں نظر دوڑائی تو ھکا بکا رہ گئے – کیونکہ مصری، فلسطینی، تیونس (ادب سے نام کیا جائے کہ یہاں ایک عدد محبوبہ رھتی ھیں) اور مراکش والے مسلمان تو کانٹے اور چھری سے اس تیزی سے کھا رھے تھے جیسے فرنگیوں کے رشتہ دار ھیں اور خوب پریکٹس کر کے آئے ھیں- تب ھی یہ سوچا کہ شاید یہ کمینے فرنگی ساری سازشیں میرے پیارے پاکستان کے مسلمانوں کے خلاف ھی کرتے ھیں اور آگے بڑھنے سے روکتے ھیں۔ ورنہ تو یہ دوسرے ممالک کے مسلمان یوں آسانی سے کانٹے چھری سے نہ کھاتے_ اسی سوچ میں مستغرق تھے کے کھانے کا وقت ختم ھونے والی گھڑی صاحبہ نے اتنا شور مچایا کہ پورا میس ہی سر پر اٹھا لیا۔ سو چارو ناچار ھم پانی کا گلاس پی کر باھر بھوکے پیٹ اور داغدار ناک لے کر نکل آئے – اسی لیئے قارئین، چھری کانٹا ایک فرنگی سازش ہے، آئیےاسکے خلاف آواز اٹھائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(عظمت نواز عرب بدووں میں رہ کر بھی حس مزاح رکھتے ہیں۔ یقیناً یہ انکا کارنامہ ہے . ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply