خدا راہ مجھے صحافی مت کہو ۔ خاور نعیم ہاشمی

ساٹھ کی دہائی میں لاہور کے فلمی مرکز رائل  پارک میں بڑی رونقیں ہوا کرتی تھیں۔  یہاں سیکڑوں پروڈکشن اورڈسٹری بیوٹرز آفسز قائم تھے،بہت سے ایکٹروں، شاعروں ، ادیبوں اور صحافیوں کی راتیں بھی وہیں بسر ہوتی تھیں۔ رضیہ مینشن اور شیخ بلڈنگ کے قریب ایک دھوبی کی دکان تھی، فلمی لوگ عمومآ اس کے گاہک تھے۔ پتہ نہیں کیا ہوا ؟ ایک دن پولیس کسی کریمنل کیس میں اس دھوبی کو پکڑ کر لے گئی اور جیل بھجوا دیا۔ جیل میں اس کی ملاقات فیض احمد فیض اور دیگر لیفٹسٹ دانشوروں سےہو ئی،دھوبی نےان اسیر دانشوروں خاص طور پر فیض صاحب کی بہت خدمت کی اور ان کے کپڑے بھی دھو دیا کرتا تھا۔ جب یہ دانشور کسی ایشو پر گفتگو کرتے تو وہ دھوبی ان کی باتیں بہت انہماک سے سنتا۔ کہتے ہیں کہ جیل سے رہائی کے بعد دھوبی نے دکان کھولنے کی بجائے اخبار کا ڈیکلریشن حاصل کیا اور بغیر کسی عملےکے اس کا اجراء کر دیا۔ اگر ایک آدمی ایک دن میں 100آدمیوں کے کپڑے دھو سکتا ہے تو اسے ایک دن میں 6صفحات کا اخبار نکالنے میں کیا دشواری پیش آسکتی ہے۔ ہاں، ایک ذہین اور بظاہر شریف دانشور ،شریف جالندھری کی پس پردہ معاونت اسے ضرور حاصل تھی،اخبار کا چیف ایڈیٹر وہ خود تھا، اپنا کالم بھی لکھنا شروع کر دیا,عنوان تھا,,,خدا راہ مجھے صحافی نہ کہو۔ اخبار کی سرکولیشن تو نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اس کا کالم زبان زد عام تھا۔ وہ اپنے اخبار کی کاپیاں ہر بیوروکریٹ اور ہر پولیس افسر کو باقاعدگی سے بھجواتا،عدالتی افسروں اور چیدہ چیدہ صحافیوں کو بھی اخبار کی اعزازی کاپیاں پہنچائی جاتیں۔ جب بھی کسی کی پگڑی اچھالی جاتی، شریف جالندھری اخبار لے کر اس کے پاس پہنچ جاتا اور اسے سمجھاتا کہ شوکت حسین شوکت بہت گندا آدمی ہے ، آپ کچھ لے دے کر اپنی عزت بچائیے، ورنہ اگلے شمارے میں وہ اور گند اچھالے گا۔ایک بار اس نے ریلوے کے ایک افسر کیخلاف خبر چھاپی تو وہ افسر صحافی ظہور الحسن ڈار کے توسط سے مدد مانگنے اچھا شوکر والا کے پاس پہنچ گیا۔ اچھا شوکر والا نے دو کن ٹٹے شوکت حسین شوکت کے دفتر میں بھجوا دیے، ان بدمعاشوں نے نہ صرف اسے پھینٹی لگائی بلکہ اس کے دفتر کا سارا سامان بھی تباہ و برباد کر دیا، اسے اوربھی کئی بار کئی لوگوں نےپھینٹی لگائی۔

 سید عباس اطہر مرحوم جب بھی اس کا کالم خدا راہ مجھے صحافی مت کہو دیکھتے تو اسے ایک گندی گالی ضرور دیتےاور کالم نگار کو مخاطب کرکے کہتے۔ اوے، تینوں صحافی کہنداکون اے؟ یہ صحافی تھا، شوکت حسین شوکت جس کا انتقال پچھلے سال80 سال سے زیادہ عمر میں ہوا۔ وفات سے چند روز پہلے تک وہ اصرار کرتا رہا کہ میں اس کے آفس میں آؤں،اس کا آخری دفتر ریگل چوک میں تھا،اس کا کہنا تھا کہ وہ میرا چاچا ہے، اور مجھ سے بہت ساری باتیں کرنا چاہتا ہے۔  میدان صحافت میں آنے کے بعد میں نےشوکت حسین شوکت کے ٹہکے دیکھے، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نظام مصطفی تحریک میں شوکت حسین شوکت کے اخبار آفاق نے مولویوں کا ساتھ دے کر اپنا حصہ ڈالا ،شہر میں شوکت حسین شوکت کی فل بدمعاشی تھی۔ اس کے پاس کسی بھی شہری کی پگڑی اچھالنے کا لائسنس تھا، وہ بلا اجازت کسی کا بھی اشتہار چھاپ کر اس سے پیسوں کا مطالبہ کر دیتا، کس کی مجال تھی اس سے الجھتا۔ اسے صوبوں اور مرکز سے سرکاری اشتہارات بھی ملتے تھے،وہ کئی ایسےاخباری مالکان سے دھونس سے مفت نیوز پرنٹ بھی منگوا لیتا جو خود وارداتیے تھے۔ وہ غیر ملکی دوروں پر حکمرانوں کے ساتھ بلکہ آگے آگے ہوتا,اس نے ایک بڑے اخباری ادارے سے آڈھا بھی لگایا جو خود کو اسلام اور نظریہ پاکستان کا ٹھیکیدار کہتا ہے۔ سن پچھتر میں میں مساوات میں سب ایڈیٹری کر رہا تھا، میرے محسن سید عباس اطہر صاحب نے آرڈر کیا کہ تم اخبار نکالنے میں ایک دو گھنٹے شوکت حسین شوکت کی مدد کر دیا کرو، یہ میرے لئے سنہرا موقع تھا کہ جان سکوں کہ آخر اس کے پاس کیا جادو ہے کہ وہ بے لگام گھوڑے کی طرح پورے شہر کو اپنی انگلیوں پر نچا لیتا ہے؟ روزنامہ آفاق کا آفس ان دنوں ریجنٹ سینما کی بلڈنگ میں قائم تھا، ریجنٹ سینما لکشمی چوک سے جی پی او کی طرف جاتے ہوئے ہال میکلوڈ روڈ چوک سے تھوڑا پہلے ہوا کرتا تھا۔ اس سینما کے بالکل سامنے سیف الدین سیف کا گھر تھا، اب وہاں فرنیچر مارکیٹ ہے، میں عباس اطہر صاحب کی ہدایت کے مطابق شوکت حسین شوکت سے ملا تو اس نے کہا کہ تم اخبار کی لے آؤٹ ڈیزائن کردیا کرو اور فرنٹ پیج کے لئے کوئی چٹ پٹی exclusve news دیدیا کرو،میں تمہیں پانچ کا سو روپے مہینہ دے دیا کروں گا، شوکت حسین شوکت نے اپنے آفس کی ایک چابی بھی میرے حوالے کردی۔ وہ بہت اجلا لباس پہنتا، شلوار قمیض اور جیکٹ ،،اس کے پاس ملاقاتی بھی کم ہی آتے تھے, اسے ٹٹولنے کا میرا تجسس اور بڑھ گیا۔ ہمارے جاسوسی ناول پڑھنے کے دن تھے، ایک صحافی دوست سے مشورہ کیا تو طے یہ پایا کہ رات دیر گئے جب شوکت حسین شوکت کےآفس آنے کا چانس نہ ہو ،وہاں کی تلاشی لی جائے اور اس نسخے کو ڈھونڈھا جائے جس کے بل پر وہ جسے چاہے بلیک میل جسے چاہے زیر کر لیتا ہے۔

ریجنٹ سینما کا دوسرا شو رات 9 بجے کے قریب ختم ہوا تو ہم شوکت حسین شوکت کے ایک بڑے کمرے پر مشتمل آفس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو ئے, آفس میں تین میزیں اور چار کرسیاں تھیں ایک میز شوکت حسین شوکت کے زیر استعمال تھی اور دو میزوں پر کاپی پیسٹر اخبار تیار کرتے تھے۔ الماریاں پرانے اخباروں ,رسالوں سے اٹی ہوئی تھیں،ایک جگہ اخبار کی تیاری کے لئے مستر ، گمز،سیاہی کی ڈبیاں اور قلم پڑے تھے،ہم نے ایک ایک انچ جگہ کی تلاشی لی لیکن شوکت حسین شوکت کی “کانفیڈنشل دستاویزات” نہ ملیں، اب صرف شوکت حسین شوکت کے میز کی درازوں کی تلاشی باقی تھی، مگر یہاں سے بھی کوئی کام کی چیز نہ ملی، میز کی تین درازوں میں ٹیلی فون نمبر نوٹ کرنے والی بہت ساری ڈائریاں پڑی تھیں،جن میں لاتعداد لوگوں کے ایڈریس اور فون نمبر درج تھے ،میں نے ان ڈائریوں کو پڑھنا شروع کر دیا، ایک ڈائری نے مجھے چونکا دیا، میں نے اپنے ساتھ آنے والے صحافی دوست کو اپنی جانب متوجہ کیا کہ میرا خیال ہے ہم جو ڈھونڈھ رہے تھے وہ مل گیا ہے۔ اس ڈائری میں صرف شہر کی بدنام عورتوں، گرلز ہاسٹلز کی وارڈنز اور کچھ گرلز کالجز کی پرنسپلز اور لیکچررز کے فون نمبر درج تھے۔۔۔ اور شاید یہی فون نمبر اس کی صحافت اور بدمعاشی کا ہتھیار تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب عورتیں اس کی صحافتی بدمعاشی اور بلیک میلنگ کا شکار ہوں۔۔۔۔۔

(خاور نعیم ہاشمی، آمریت کے خلاف جدوجہد کی علامت ہی نہیں بلکہ لاہور کی سیاسی، معاشرتی، فلمی اور سیاسی تاریخ کے بہت سے رازوں کے امین بھی ہیں۔ ہاشمی صاحب کی خصوصی اجازت سے انکے بلاگ شائع کیے جائیں گے۔ ایڈیٹر)

 

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply