لہو لہو جسم

آج بیٹھک(دیہات میں مل بیٹھنے کی جگہ ) کا ماحول کافی افسردہ تھا۔پی ایس ایل کی رنگینیوں پر بھی خون ہی خون نظر آ رہا تھا۔لاہور واقعہ کی تپش ہر ایک کے چہرے اور لہجے میں نظر آ رہی تھی۔دیہاتوں میں آج بھی بیٹھک ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ قصہ، کہانیوں کی جگہ ٹی وی اور موبائل نے لے لی ہے مگر پھر بھی حالات حاضرہ پر ضرور رائے زنی کی جاتی ہے۔میڈیا نے آج ایک ان پڑھ زمین دار کو بھی کافی شعور دے دیا ہے، مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے جب پرانی قمیص دھوتی(لنگی ) میں ملبوس کندھے پر کائی (کسی) رکھےبالکل سادہ سا بزرگ زمین دار کہتا ہے کے”پتر چیک کریں موبائل تے بارش دسدے نے کے نہی” مطلب بیٹے چیک کرنا انٹرنیٹ پر بارش کے بارے کیا پیش گوئی ہے،۔
بیٹھکوں پر ملکی و عالمی مسائل اور سپورٹس بالخصوص کرکٹ پر ہونے والے تبصرے اگر کوئی پروفیشنل تبصرہ نگار سن لے تو اسے اپنے تبصرے اور تجزیے بے معنی سے لگیں۔آج کی بیٹھک میں لاہور دھماکہ پر اظہار خیال کیا جا رہا تھا اور میں خاموشی سے سن رہا تھا،دل و دماغ میں ایک عجیب سی کیفیت تھی۔آج کی بیٹھک میں مجھے اپنے ملک کی بے بس تصویر نظر آ رہی تھی ،جہاں ہر ایک ذہنی کوفت کا شکار ہے اور حالات نے اسے پتہ نہیں ذہنی طور پر کتنا تقسیم کر دیا ہے۔آج میرے ملک کا ہر فرد امن چاہتا ہے مگر امن اس کے لیے وہ چڑیا بن چکی ہے جو ہاتھ آ ہی نہیں رہی، اور مزے کی بات یہ ایک ایسی پیچیدہ صورتحال ہے جو ہمارے معاشرے پر کافی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔
عوام میں بے یقینی سی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔آج بھی مختلف تبصرے تھے۔ وہی تبصرے جو میڈیا کے ہر چینل پر ہو رہے تھے۔کوئی طالبان کو برا بھلا کہہ رہا تھا تو کوئی حکومت اور سیکورٹی فورسز کے آپریشن کا امریکی جنگ میں شمولیت کا نتیجہ قرار دے رہا تھا، کوئی امریکہ کی سازش قرار دے رہا تھا تو کوئی بھارت کے ملوث ہونے کی پیش گوئی کر رہا تھا تاکہ پی ایس ایل کا شیڈول فائنل جو لاہور میں طے پایا ہے وہ نہ ہو سکے،اور سب سے زیادہ اسی نقطہ پر اتفاق کیا جا رہا تھا ۔اسی دوران چاچا فرید بڑے دکھی لہجے میں گویا ہوئے۔۔۔سن او پتر! سیانے کیندے نے “گھر رکھو سوگا تے چور کسی نوں وی نہ کہو”( اپنے گھر کے معاملات ٹھیک رکھنا ہماری ذمہ داری ہے گھر ٹھیک ہو تو چور کی کیا جرأت )۔میں سوچ رہا تھا کتنی عمدہ بات کی چاچے نے،آج میرے ملک میں جو بدامنی، کی آگ لگی ہے اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔آج مجھے میرا ملک اس شعر کی تصویر نظر آ رہا ہے
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو لگی آگ گھر کے چراغ سے
دشمن سے کیا گلہ کرنا وہ تو دشمن ہے اس سے تو خوش فہمی پالنا یا کسی اچھائی کی امید رکھنا انتہا درجے کی بیوقوفی ہے۔ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ پاک دھرتی ایک نظریہ کے تحت وجود میں آئی اور وہ نظریہ اسلام تھا ۔۔یہی وجہ ہے وجود سے لے کر اب تک”پاکستان “بھارت سمیت تمام طاغوتی قوتوں کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے اور سب سے اہم چیز جو اہل کفر کے سینوں میں دراڑ ڈالے ہوئے ہے وہ ہمارا ایٹمی پروگرام ہے،جسکی وجہ سے پورے عالم اسلام میں پاکستان کو ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔آج اس بات کی ضرورت ہے کہ بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا محاسبہ کرنا ہو گا، ہمیں اپنی کوتاہیوں، غلط پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی ہو گی جن کی وجہ سے یہ خود کش حملہ آور پیدا ہوئے۔ہمیں ماننا ہوگا کہ دشمن اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب میرے ہی بھائی کی مدد سے ہوا۔ہمیں ماننا ہوگا کہ اپنے جسموں سے بارود باندھ کر میرے شہروں، بازاروں، مسجدوں کو مٹی کا ڈھیر، اور انسانی چیتھڑوں میں تبدیل کرنے والا کوئی بھارتی، ہندو، سکھ، عیسائی یا کوئی امریکی نہیں بلکہ میرا ہی بھائی ہے میرے ہی جسم کا ٹکڑا ہے۔
وہ کون سے اسباب تھے جنہوں نے اسے اس نوبت پر لا کھڑا کیا کہ وہ انسانیت کی حدیں کراس کر گیا اور ظلم و درندگی کی انتہا ئی پستی میں جا گرا۔۔۔ پچھلے دنوں ایک رپورٹ نظر سے گزری کہ خودکش حملہ آور کو 500 یا 5000 میں تیار کیا جاتا ہے۔۔ میں نہیں مانتا ۔۔مال و دولت کے لیے کسی کی جان لی تو جا سکتی ہے اپنی جان دی نہیں جا سکتی اور وہ بھی چند روپے کی خاطر یہ من گھڑت رپورٹیں ہیں جو حقائق سے نظر چرانے کے مترادف ہیں۔ہمیں ماننا ہوگا کہ پاکستان میں خودکش، افغان امریکی جنگ میں شمولیت کے بعد لانچ ہوئے جن میں اضافہ اس وقت ہوا جب قبائل کے خلاف آپریشن شروع کیے گئے اور پھر ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔
یہ جنگ شروع سے ہی ایک نظریاتی جنگ تھی، دو تہذیبوں کی جنگ تھی اور صدر بش نے باقاعدہ اسے “صلیبی جنگ”کا نام دیا تھا ہمارا اس جنگ سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا ۔۔یہ امریکی مفادات کی جنگ تھی اور تا حال امریکی مفادات کی جنگ ہے! ہمارا حصہ صرف اپنے ہی جسم کے ٹکڑے اٹھانے اور ملال کرنے تک محدود ہے۔۔۔۔ہمیں جتنا جلد ہو سکے اس جنگ سے نکلنا ہو گا جس کی وجہ سے میرے ملک کے چاروں اطراف سے آگ لگ چکی ہے جو آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی ہے ۔۔
امریکہ، بھارت،افغان امریکی کٹھ پتلی حکومت پاکستان کے خلاف متحد ہو چکے ہیں اور آئے روز پاکستان کے خلاف سازشیں مرتب کر رہے ہیں اور ان سازشوں کو عملی جامہ پہنانے والے ہمارے ہی بھائی ہیں ہمارے جسم ہی کے ٹکڑے ہیں ۔۔۔میرے نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ؛
” مومنوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے اگر اس کے ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے تمام اعضاء بے چین ہو اٹھتے ہیں”
جسم کے کسی حصہ میں اگر پھوڑا نکل آئے تو اس حصہ کو کاٹ نہیں دیں گے۔۔ علاج کرائیں گے۔ آج ہمارا جسم پھوڑوں سے بھر چکا ہے ہم کاٹنا شروع کر دیں تو جسم کا وجود ہی ختم ہو جائے اور ہمارا دشمن گھر بیٹھے ہمیں فتح کر لے جو ہم انشاءاللہ نہیں ہونے دیں گے۔۔ ہم اپنا علاج خود کریں گے ہم اپنی کمزوریوں کو ہی اپنی طاقت بنائیں گے۔۔ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے پاک دھرتی کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائیں گے ہم ایک اور آپریشن کریں گے جسے “امن آپریشن ” کا نام دیں گے۔
میں اپیل کرتا ہوں حکومت وقت سے، چیف آف آرمی سٹاف سے اور تمام دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین سے کے اللہ کے لیے اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اس پاک دھرتی کو اہمیت دیں جتنا ممکن ہو سکے مذاکرات کی مدد سے ملکی مسائل کو حل کریں اور اس نام نہاد دہشت گردی کی جنگ سے اپنی جان چھڑائیں جس نے سوائے پتہ نہیں کتنی ماؤں کی گود ویران کرنے، بے شمار بچوں کو یتیم کرنے اور لا تعداد بہنوں کے سہاگ اجاڑنے، ملکی معیشت کو تباہ کرنے کے کچھ نہیں دیا۔اللہ رب العزت کی طرف توجہ فرمائیں اور ہمت کریں۔اللہ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو اور ہر اندرونی بیرونی دشمن سے اس کی حفاظت فرمائے۔۔۔ آمین
نوٹ:۔ مضمون نگار کے خیالات سے مکالمہ کا ایڈیٹوریل بورڈ قطعی متفق نہیں ہے۔اس مضمون کی اشاعت کا مقصد صرف یہ ہے کہ قارئین اس پہ رائے کا اظہار کریں اور دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں دی گئی عام شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے جوانوں و افسران کی قربانیوں و شہادتوں کو خراج تحسین پیش کر کے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے نفرت و بیزاری کا اعلان کریں۔۔ ادارہ

Facebook Comments

عبدالرحمن نیازی
میں گمشدہ ۔۔۔۔ اپنی تلاش میں ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply