کیوں مسلمان ٹارگٹ پر؟؟؟؟

ابھی چند دن پہلے ایک محترمہ نے پوچھا کہ آپ انڈین ڈرامے دیکھتے ہیں؟ ہم نے جواب دیا جی ہاں اکثر و بیشتر دیکھتے رہتے ہیں تو محترمہ نے پو چھا کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کی انڈین ڈراموں میں زیادہ تر مسلمانوں کو ہی ٹارگٹ کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ سوال سننے کے بعد بہت سے انڈین ڈراموں کی کہانیا ں نظروں کے سامنے آنے لگیں۔
ابھی حال ہی میں انڈین چینل پر سچے واقعات پرمبنی ایک ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہو جس میں بھارت کے شہر ہریانہ کے ایک قصبے میں رہنے والے مسلمانوں کو دکھا یا گیا تھا۔ اس ڈرامے کے مطابق ہریانہ میں مسلمان اپنے گھر میں لڑکیا ں پیدا نہیں ہونے دیتے اگر لڑکی پیدا ہو بھی جائے تو اس کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو نوجوان لڑکوں کو شادی کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے اس قصبے کے لوگ اپنے نوجوان لڑکوں کیلئے دوسرے علاقوں سے لڑکیوں کے رشتے کرانے پڑتے تھے اور اکثر رشتے نہ ملنے پر وہاں کے مسلمان دوسرے علاقوں سے کام کے بہانے بے وقوف بنا کرلائی جانے والی لڑکیوں کو خرید کر زبردستی اپنے جوان بیٹوں سے شادیاں کرا دیا کرتے تھے۔ شادی تک تو بات سمجھ آتی ہے مگر اس کے آگے جو اس ڈرامے میں دکھایا گیا وہ ناقابل یقین تھا آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس ڈرامے میں ایسا گھناﺅنا کھیل دکھایا گیا جس کے بارے میں ہم مسلمان ہونے کے ناطے کبھی بھی اس پر یقین نہیں کر سکتے۔ اس ڈرامے میں دکھایا گیا کہ ایک مسلمان فیملی جن کے گھر میں ایک جوان لڑکا ایبنارمل ہوتا ہے اس کے لئے اس فیملی کو ایک لڑکی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ایک عورتوں کی اسمگلنگ میں ملوث عورت سے رابطہ کرتے ہیں اور وہ عورت ان کوچالیس ہزار کے عوض ایک لڑکی دے دیتی ہے اور وہ فیملی اس لڑکی کی شادی اپنے ایبنارمل لڑکے سے کر دیتی ہے او لڑکی اس کو اپنا نصیب سمجھ کر اس پاگل شخص کو اپنا جیون ساتھی مان کر اس کی اور اس کے گھر والوں کی خدمت میں جت جاتی ہے مگر شادی کے کچھ دن کے بعد ہی لڑکے کا بڑا بھائی جو پہلے سے ہی شادی شدہ تھا وہ بھی اپنے بھائی کی بیوی کے ساتھ زبردستی شوہر والا رشتہ قائم کر نے کی کوشش کرتا ہے جس پر لڑکی مزاحمت کرتی ہے جس پر اس کو تشدد سہنا پڑتا ہے اورپھر اس کو اپنے جیٹھ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں اور اس طرح ایک کمزور عورت اس کی حوس کا نشانہ بن جاتی ہے۔ وہ لڑکی صبح ساری روداد اپنے جیٹھ کی بیوی کو سناتی ہے جس پر وہ اس کو مارتی ہے او ر کہتی ہے ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا آگے آگے دیکھو کیا ہوتا ہے او ر پھر ہر رات اس پاگل کے بعد اس کا بڑا بھائی اس کے کمرے میں جاتا ہے اور اسے اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے۔ اسی طرح کچھ عرصے بعد ان دونوں بیٹوں کا باپ جو بہت دن سے اس گھناﺅنے کھیل کو دیکھ رہا ہوتا ہے اس کا دل بھی للچاتا ہے اور ایک رات اپنے دونوں بیٹوں کے بعد وہ بھی اپنی بہو کے کمرے میں چلا جاتا ہے اور وہ بہو جو ا س شخص کو اپنے باپ کی جگہ تصور کیا کرتی تھی اس کو اپنے کمرے میں غلط ارادے سے دیکھ کر چیخ پڑی مگر اس کی کو ئی سننے والا نہیں تھا اور اس طرح یہ نہ ختم ہونے والا گھناﺅنا کھیل شروع ہوتا ہے۔ اس سے یہ ثا بت کیا جارہا تھا کہ مسلمان کتنے بے ہودہ اور بے حس ہوتے ہیں جنہیں کسی کے جذبات اور احساسات کا احساس نہیں ہوتا اور سب سے بڑھ کر یہ مسلمان کس طرح عورتوں کی تذلیل کرتے ہیں۔
اس کے برعکس انڈین فلم انڈسٹری سے ابھی حال ہی میں ایک “پی کے” نامی فلم ریلیز کی گئی جس میں تھوڑا بہت ہندو مذہب کی غلط رسومات اور تہمتوں کو دکھا یا گیا تو ہندوﺅںکے نام نہاد پنڈتوں نے بھارت کو سر پر اٹھا لیا اور پورے بھارت میں فلم کے ہیرو اور ڈائریکٹر کے خلاف احتجاج کئے گئے اور ان کے خلاف ہتک عزت کے کیس درج کئے گئے۔ جس پر عدالتوں نے اپنے فیصلے بھی دیئے اور کسی پر کو کوئی سزا نہیں سنائی گئی جبکہ اتنے بے ہودہ ڈرامے جن کا کوئی سر پیر نہیں اور نہ ہی مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے، مگر پھر بھی اس طرح کے ڈرامے کیبل چینلز پر بھی دکھائے جا رہے ہیں او ر ہم مسلمان سو رہے ہیں اور اس طرح کے بے سروپا ڈراموں کے خلاف کسی بھی پلیٹ فارم آواز نہیں اٹھائی جا رہی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اسطرح کے ڈراموں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہر طرح سے مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک اور ڈرامے میں دکھایا گیا کہ ایک ہندو فیملی میں کام کرنے والا حسن قادری جو کہ ایک مکینک ہے اور ہندو فیملی کے چھوٹے بیٹے کو اغوا کر کے ان سے تاوان مانگتا ہے اور اسی دوران اس بچے کو قتل بھی کردیتا ہے۔ میں یہاں یہ بات ثابت نہیں کرنا چاہتا کہ مسلمان بہت نیک ہوتے ہیں وہ کوئی جرم نہیں کرتے۔ بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہو کہ پورے ڈرامے میں ایک مسلمان دکھا یا جاتا ہے اور وہ ہی مجرم ہوتا ہے جبکہ ایک اور ڈرامے میں دکھا یا گیا کہ ایک مسلمان فیملی کا جو ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہوتی ہے صرف دوسری شادی کی پاداش میں اس فیملی کا بڑا بیٹا اشفاق اپنے والد کا قتل کر دیتا ہے۔ اس طرح کے ڈرامے انڈین چینلز کے ساتھ ساتھ پاکستانی چینلز پر بھی دکھائے جا رہے ہیں جن کا مقصد صرف و صرف مسلمانوں کی توہین کرنا اور ان کو غلط طریقے سے پیش کرنا ہے۔
ابھی حال ہی میں ہونے والی تحقیق جوامریکہ کی ڈیوک یو نیورسٹی کے ایک پر وفیسر نے یہ بات 40سالہ تحقیق کے نتیجے میں بتا ئی کہ بندریا اگر کسی مادہ بندر کو جنم دے تو وہ زیادہ خوش نہیں ہوتی جبکہ اگر نر بندر پیدا ہو تو وہ ایک ڈالی سے دوسری ڈالی جھولتی پھرتی ہے۔ 40سالہ تحقیق انسانوں پر نہیں بندروں پر کی گئی ہے۔ اس عر صے میں تحقیق سے جڑے ہو ئے افراد نے یہ دیکھا کہ جب بھی کسی بندر یا کے ہاں بندر پیدا ہو تا ہے تو وہ بہت خو ش ہو تی ہے اور اپنی برادری میں رابطے بڑھا دیتی ہے۔ یہ تحقیق تنزانیہ میں کی گئی اور وہ بھی بندر وں پر، مگر اس تحقیق سے بو ہندو ستا نی معا شرے کی آرہی ہے۔ ایسا تو ہند وستا نی (یعنی ہندو)معاشر ے ہی میں ہو تا ہے کہ لڑکی پیدا ہو تو ما ں سہم جا تی ہے اور زیادہ خوش نہیں ہوتی ۔اور لڑکا پید ا ہو تو پو رے خا ندان میں خوشیا ں منا ئی جا تی ہیں۔ ہو سکتا ہے ہند وستانی معاشرے کی یہ روش تنزانیہ کے بندروں میں بھی در آئی ہو ورنہ حیو انات سے اسی حما قت کی امید رکھنی تو نہیں چاہیے۔ امر یکی ما ہر ین نے 40سا ل تک تنزا نیہ کے بند روں پر تحقیق کی تو چندنتا ئج اخذ کئے ۔اگر اُنہو ں نے اس دوران ہند وستا ن کے بندروں پر بھی محنت کی ہو تی تو دُنیا کو مز ید بہت کچھ بتا نے کی پو زیشن میں ہو تے !
انڈین معاشرے میں جو کچھ ہوتا ہے وہ سب ہم گاہے بگاہے میڈیا پر دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ جہاں پر ابھی تک دوران حمل لڑکی کا معلوم ہونے پر ابورشن کر دیا جاتا ہے اور دوران حمل معلوم نہ وہونے پر پیدائش کے بعد بھی لڑکیوں کو نہروں میں بہا دیا جاتا ہے۔ اور لڑکیوں کو بد شگون گردانتا جاتا ہے۔ مگر یہ سب ہندوانہ رسم ورواج ہے جو وہ مسلم معاشرے پر رکھ کر دکھا رہے ہیں اور مسلمانوں کو بلا وجہ بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے ۔ بہت اچھا ہوا کہ انڈین ڈراموں پر پابندی عائد کر دی گئی او رہمارے کچے ذہن کے نوجوان ان بے سروپا ڈراموں سے بچ گئے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ انڈین ڈراموں پر پابندی اسی طرح قائم رہے گی ۔یہ نام نہاد سول سوسائٹی کے لوگ جو ذرا ذرا سی بات پر بڑے بڑ ے گلاسز لگا کر پلے کارڈز اٹھاے روڈ پر کھڑے ہوجاتے ہیں، کم از کم مسلمان ہونے کے ناطے اس پابندی کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں۔ اور تما م مذہبی جماعتوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی ان ڈراموں کی بندش کو قائم رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
نوٹ: ادارے کا مصنف سے اتفاق رائے ضروری نہیں ہے۔ مدیر

Facebook Comments

مزمل فیروزی
صحافی،بلاگر و کالم نگار پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے رکن مجلس عاملہ ہیں انگریزی میں ماسٹر کرنے کے بعد بطور صحافی وطن عزیز کے نامور انگریزی جریدے سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ کراچی سے روزنامہ آزاد ریاست میں بطور نیوز ایڈیٹر بھی فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ صبح میں شعبہ تدریس سے بھی وابستہ ہیں اردو میں کالم نگاری کرتے ہیں گھومنے پھرنے کے شوق کے علاوہ کتابیں پڑھنا اور انٹرنیٹ کا استعمال مشاغل میں شامل ہیں آپ مصنف سے ان کے ٹوءٹر اکائونٹ @maferozi پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply