• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ماں مجھے بہت ڈر لگتا ہے (جنسی استحصال شدہ لڑکی کی فریاد ) اے وسیم خٹک

ماں مجھے بہت ڈر لگتا ہے (جنسی استحصال شدہ لڑکی کی فریاد ) اے وسیم خٹک

ماں مجھے ڈر لگتا ہے ۔ بہت زیادہ ڈر لگتا ہے
ہر آہٹ پر اب چونک جاتی ہوں ۔
اب اپنے سائے سے ڈر جاتی ہوں ۔
سورج کی روشنی بدن پر آگ سی لگاتی ہے
پانی کی بوندیں تیزاب سی لگتی ہیں
ماں !ہوا میں بھی زہر سا گھلا لگتا ہے
ماں مجھے اپنے ن آنچل میں چھپالے بہت ڈر لگتا ہے
ماں ! تمھیں یاد ہے وہ کانچ کی گڑیا
جو بچپن میں ٹوٹ گئی تھی
ماں آج میں اُس گڑیا کی طرح ٹوٹ گئی ہوں
میری غلطی کچھ نہیں تھی
پھر بھی خود سے روٹھ گئی ہوں
ماں ! بچپن میں سکول ٹیچر کی ،
مدرسے کے مولوی کی گندی نظروں سے ڈرلگتا تھا
پڑوس کے وہ گندے سے چاچا کے ناپاک ارادوں
سے بہت ڈرلگتا تھا
ماں ! مجھے وہ گلی کے نکڑ پر بیٹھے لڑکوں کی ٓوازوں
اور اشاروں سے ڈر لگتا ہے
اور اب باس کی  وحشی نظروں اور کنایوں سے ڈرلگتا ہے
ماں ! مجھے چھپالو مجھے بہت ڈر لگتا ہے ۔
ماں ! تجھے یاد ہے تیرے آنگن میں
چڑیا کی طرح پھدک رہی تھی
ٹھوکر کھا کر میں زمین پر گرپڑی تھی
دو بوند خون کی دیکھ کر ماں تو رو پڑی تھی
ماں ! تو نے مجھے پھولوںکی طرح پالا تھا
اُن درندوں کا میں نے کیا بگاڑا تھا
وہ کیوں مجھے مسل کر چلے گئے
بے درد میری روح کو کچل کر چلے گئے
ماں ! تُو مجھے کہتی تھی اپنی گڑیا کو دلہن بنائے گی
میری زندگی خوشیوں سے سجائے گی
کیا وہ دن اب زندگی کبھی نہیں لائے گی ؟
ماں ! کیا اب بھی تیرے گھر بارات آئے گی ؟
ماں ! جو  کھویا ہے میں نے
پھر سے کبھی نا پاؤ ں گی ؟
ماں ! یہ جو سانس میں لے رہی ہوں
کیا میں آگے زندگی جی پاؤں  گی ؟
ماں ! گھورتے ہیں سب الگ ہی نظروں سے
ماں ! مجھے ان نظروں سے چھپالے ، کہ ڈر لگتا ہے
ماں ! مجھے بہت ڈر لگتا ہے!!!

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply