کلیم نصوح کاماضی ہے/ناصر عباس نیّر

واضح رہے کہ تعبیرِ خواب کے ذریعے اس الجھن کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،جو خواب دیکھنے والے کے ماضی اور حال میں عدم مطابقت کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہے۔اس کی سب سے اہم مثال تو ہمیں حضرت یوسف ؑ کے اپنے خواب (گیارہ ستاروں، سورج اور چاند کو سجدہ کرتے دیکھا ) اور عزیزِ مصر کے خواب کی تعبیر میں ملتی ہے۔

عزیرِ مصر نے دیکھا کہ سات موٹی گائیں، سات دبلی گایوں کو کھا رہی ہیں۔ دونوں خواب مستقبل کی پیش گوئی تھے۔ پہلے خواب میں اجرامِ فلکی کا سجدہ کرنا، حضرت یوسفؑ کو بادشاہت ملنے کی علامت تھا اور دوسرے خواب میں گایوں کا اپنی ہی جنس کو کھانا قحط کی علامت تھا۔گویا دونوں رویائے صادقہ تھے،مگر علامتوں میں لپٹے ہوئے۔

اسی طرح حاتم طائی پہلے سوال کے جواب کی تلاش کے دوران میں جب خرس کے بادشاہ کے ہاتھوں ایک غار میں قید ہوتا ہے تو خواب میں ایک پیرمرد کو دیکھتا ہے جو اسے خرس کی بیٹی سے شادی کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ خواب سے بیدار ہوکر حاتم کی یہ الجھن دور ہو جاتی ہے کہ آیا وہ خرس کی بیٹی سے شادی کرے نہ کرے۔ حاتم کے خواب کا پیر مرد، بزرگ دانش مند کا آر کی ٹائپ ہے،جو اس کے لا شعور کی گہرائی میں مضمر تھا۔

دوسری طرف نصوح اپنے باپ کو خواب میں دیکھتا ہے،مگر یہاں بھی باپ ماضی کو نہیں،مستقبل کو سامنے لاتا ہے؛ اُس کی موت کے بعد کی زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ اُس کے آئینے میں اپنا ممکنہ انجام دیکھ کر عبرت پکڑتا ہے۔ نیز وہ خواب دیکھنے اور اس کی تفہیم کے دوران میں خواب کے استعاراتی مندرجات کی نفی کرتا ہے،اس لیے وہ ایک واضح، شک و شبہے سے بالاتر راستے کا انتخاب کرتا ہے۔

ناول میں یہ وہ مقام ہے جہاں استعارے و علامت کے خلاف پہلی مرتبہ باقاعدہ ایک محاذ کھلتا ہے، جس کا نشانہ کلیم اور اس کا طرزِ زندگی ہے،جسے استعارے کا استعارہ کہنا چاہیے۔ نصوح کا خواب ایک ایسی تفریق کو وجود میں لاتا ہے، جو حتمی ہے اور جس میں مصالحت کا کوئی امکان نہیں۔یہ تفریق، خود نصوح کی سابقہ اور نئی زندگی میں ہے، اس کے شعور اور لاشعور میں ہے اور مذہب و شاعری میں ہے۔ کلیم، نصوح ہی کا ماضی ہے،اس کا لاشعور،اس کا بچپن ہے۔

ناول میں نصوح کا مجموعی عمل فقط بچپن سے، ماضی سے قطعی بیگانگی اختیار کرنا نہیں،بلکہ ان تمام علامتوں کو مٹانا بھی ہے جو کسی بھی انداز میں اسے ماضی کی ایک جھلک بھی دکھاتی ہوں۔اس کے کردار کی تبدیلی یک رنگ،یک جہت اور مکمل ہے۔ ایک مکمل پیراڈائم کی تبدیلی ہے،جس میں وہی نظم و ضبط اور ترتیب و تنظیم ہے جو کسی عقلی تصوّر میں ہوتی ہے۔ خواب کے بعد نصوح ہمیشہ کے لیے بدل جاتا ہے؛وہ اپنے گناہ آلود ماضی پر توبہ کرتا اور صوم و صلوٰۃ کی پابند زندگی بسر کرتا ہے، اور اپنے خاندان کی تربیت اس ’شعور‘ کے مطابق کرتا ہے جو اسے ’رویائے صادقہ‘ نے عطا کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں یہ نکتہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ نصوح کا خواب میں روزِ حشر کا منظر دیکھنا، کیا مذہب کے اسی تصوّر کی طرف مراجعت نہیں ہے جسے اس نے بچپن میں سنا،پڑھا تھا اور اس کے لاشعور کا حصّہ بن گیا تھا؟لہٰذا اس کے خواب سے لاشعور خارج نہیں ہوا۔بہ ظاہر یہ بات معقول ہے،مگر قصّہ یہ ہے کہ نصوح کے خواب میں سرے سے کوئی علامت ہی ظاہر نہیں ہوئی،جس کی توضیح کی ضرورت ہو؛دوسری بات یہ کہ جو محاکات پیش ہوئی ہیں،وہ تمثیلی صفت تو رکھتی ہیں،علامتی نہیں۔ وہ سیدھی سادی اس نظامِ عدل کی تمثیل ہیں،جس کا مشاہدہ نصوح نے دورانِ ملازمت کیا یا اپنے ارد گرد کرتا ہے، اور جس کی طاقت اور استحکام کے سلسلے میں اسے وہی یقین حاصل ہے، جس کا تجربہ وہ اپنے مذہبی اعتقادات کے سلسلے میں کرتا ہے۔
(اردو ادب کی تشکیل جدید کے دوسری زیر طبع اشاعت سے اقتباس )

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply