سردیاں، اداسی اور جانگ ہون کی خودکشی۔۔ڈاکٹر لبنیٰ مرزا

جب میں‌ ان مریضہ کو دیکھنے کمرے میں‌ داخل ہوئی تو وہ بری طرح‌ سے رو رہی تھیں اور ان کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ میں‌ ان کو دیکھ کر پریشان ہوگئی کہ آپ کو کیا مسئلہ ہے۔ میری 24 سالہ بیٹی کا بہت برا کار ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور کئی ہفتے آئی سی یو میں علاج کے بعد وہ تین دن پہلے فوت ہوگئی۔ میں نے تین دن سے ہاتھ نہیں‌ دھوئے اور شاور نہیں لیا، وہ میرے بازوؤں میں تھی، میرے اندر اس کی خوشبو ہے۔ میں‌ نہیں‌ چاہتی کہ اس کی خوشبو چلی جائے۔ حادثہ ان کی بیٹی کی معمولی ٹریفک کی غلطی سے ہوگیا تھا جو معذور افراد کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اس کے ساتھ بیٹھا مسافر جو اس کا ایک معذور کلائنٹ تھا، مرگیا تھا جس کے بارے میں‌ اس کو نہیں بتایا گیا تھا۔ پولیس کا پروگرام تھا کہ جب وہ ہسپتال سے گھر چلی جائے گی تو اس پر مین سلاٹر (Mansalughter) کا مقدمہ کریں‌ گے۔ وہ کہنے لگیں‌ کہ وہ بہت باضمیر تھی، شاید اس کو یہ بات پتا چلتی تو وہ اس احساس جرم کے ساتھ زندگی نہ گذار سکتی۔

سردیوں‌ میں‌ لوگ ویسے ہی خود کو اداس محسوس کرتے ہیں جس کو سیزنل افیکٹو ڈس آرڈر (Seasonal affective disorder) کہتے ہیں۔ کچھ ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ اس کا تعلق وٹامن ڈی کی کمی سے بھی ہے کیونکہ سردیوں‌ میں‌ سورج کم نکلتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جب سورج کی شعاعیں جلد پر پڑتی ہیں تو اس میں‌ وٹامن ڈی بنتا ہے۔ حالانکہ میں نے سائیکائٹری میں ہاؤس جاب کے بعد اسے چھوڑ دیا تھا لیکن سردیوں‌ میں سائیکائٹرسٹ کا ہیٹ پہننا ضروری ہو جاتا ہے یعنی ڈاکٹر کو کچھ دنوں کے لئے ماہر نفسیات کا کردار اپنانا پڑتا ہے کیونکہ لوگ جس مسئلے کے ساتھ بھی آ رہے ہوں، کرسمس کے گرد ان کے نئے پرانے دکھ تازہ ہوجاتے ہیں۔

ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے ٹین ایج بیٹے کی کمر میں‌ ٹرمنل کینسر ہوگیا تھا جس سے وہ بچ نہیں سکتا تھا۔ دواؤں اور علاج سے کچھ عرصہ زندہ رہا۔ وہ اس کی باتیں‌ یاد کر کے دکھی ہوگئیں، وہ کہتا تھا کہ میں کبھی بڑا نہیں ہوا، مجھے کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئی، میں‌ کالج ختم نہیں‌ کر سکوں‌ گا، میرے کبھی بچے نہیں‌ ہوں گے، میری زندگی ادھوری رہ گئی۔

ابو کے فوت ہوجانے کا صدمہ میرے دل میں‌ سے کبھی نہیں نکلا۔ پہلے میں‌ نائیو (Naive) تھی اور سوچتی تھی کہ میری زندگی میں پہلے سے بہت ساری مشکلات آئیں، اب میرے حصے کی مشکلات ختم ہوچکی ہیں اور آگے زندگی اچھی گزرنی چاہیے  لیکن  مجھے وقت نے یہ بات اچھی طرح‌ سمجھا دی کہ زندگی کبھی وقت کے ساتھ آسان نہیں‌ ہوتی جاتی، ہمیں‌ ہی اس سے بہتر طریقے سے نبٹنا سیکھنا  ہوتا ہے۔ جب میرے بیٹے نوید کی  ٹانگ  ٹوٹ  گئی  تھی تو میں نے خود کو پاور لیس (Powerless) محسوس کیا۔ ہم اپنے بچوں کو زندگی سے نہیں‌ بچا سکتے ہیں۔ بہت ساری چیزیں ہیں جن کا ہر کسی کو اکیلے ہی سامنا کرنا ہوتا ہے۔ شاید یہ بات آج پڑھنے والے نہ سمجھیں لیکن زندگی میں ایسا وقت آتا ہے کہ صرف ہم خود ہی اپنے راستے میں‌ کھڑے ہوتے ہیں۔

میں‌ نے دیکھا کہ ساتویں‌ کلاس سے میری بیٹی نے ساؤتھ کورین ڈرامے دیکھنے شروع کردیے تھے۔ اس کو آہستہ آہستہ کچھ کورین الفاظ بھی سمجھ آنے لگے۔ وہ “کے پاپ” (Kpop) بینڈ کے گانے سنتی رہتی۔ ایک دو بار میں نے اس کو یہ گانے دیکھتے دیکھا تو میں‌ اس کو چھیڑتی تھی کہ یہ کیسے لڑکیوں‌ جیسے لڑکے ہیں؟ وہ ناراض ہوجاتی کہ امی آپ ان کو ایسے نہ کہیں۔ کچھ سال گذر گئے۔ ایک دن وہ ضرورت سے زیادہ اچھی بننے کی کوشش کررہی تھی اور اس نے کافی لمبی تمہید کے بعد اور یہ کہنے کہ بعد کہ آپ نہ بھی کرسکتی ہیں، یہ بتایا کہ “کے پاپ” اپنا پہلا امریکی ٹؤر کرنے آرہے ہیں اور ان کا ایک کنسرٹ ڈیلاس میں ہوگا جس کا ٹکٹ اتنے کا ہے۔ میں‌ نے کہا کہ ہاں‌ ٹھیک ہے تم ٹکٹ لے لو اور میں‌ تمھیں‌ لے جاؤں گی۔ آپ لے جائیں گی؟ اس نے خوشی سے چیخ ماری۔ پندرہ سال کا انسان بار بار نہیں ہوتا۔ یہی یادیں‌ ان کے ساتھ رہ جائیں گی۔ پھر جب وہ ویک اینڈ آیا تو میں‌ اس کو تین گھنٹہ دور ڈرائیو کرکے ڈیلاس لے گئی۔ میں‌ اپنی بیٹی کی مزاحیہ باتیں‌ سن رہی تھی۔ وہ بہت ایکسائٹڈ تھی کہ “کے پاپ اسی کانٹیننٹ پر ہیں جس پر میں ہوں!” بلڈنگ دیکھی تو بولی “او مائے گاڈ وہ اس بلڈنگ میں ہیں!” اس کے لیے وہ بہت اہم لوگ تھے۔

کنسرٹ ارینا بہت بڑا تھا جہاں‌ بہت سارے لوگ آئے ہوئے تھے اور بچے بڑے خوش لگ رہے تھے۔ جب یہ اندر چلے گئے تو میں‌ باہر پارکنگ لاٹ میں سیٹ پیچھے کرکے سو گئی۔ کوئی دو گھنٹے بعد سب باہر آنا شروع ہوئے۔ پھر ہم واپس گھر گئے۔ سارے راستے اس نے کے پاپ کنسرٹ کی باتیں‌ کیں اور اپنے فون میں‌ وڈیوز دکھائیں۔ ایک مداح “کے پاپ” کو اتنا پسند کرتا تھا کہ پہلے شکاگو کا شو دیکھ کر آیا پھر ڈیلاس بھی دیکھنے آیا تھا۔ وہ چلا رہے تھے کہ “وی لو یو!” اور لڑکیاں‌ سنگرز کے پیچھے پاگل ہو رہی تھیں کہ ہم سے شادی کرلو! یہ لمحے ان کو ہمیشہ یاد رہیں گے۔

پچھلے ہفتے “کے پاپ” کے سنگر جانگ ہون نے خود کشی کرلی۔ ساری دنیا میں‌ اس کے مداحوں‌ میں‌ صدمے کی لہر دوڑ گئی۔ جب میری بیٹی نے مجھے بتایا تو مجھے بھی بہت افسوس ہوا اور میں نے کہا کہ آئی  ایم سوری جانگ ہون نے خودکشی کرلی اور میری کوشش کہ تمھاری  آئندہ زندگی کے لیے اچھی یادیں ساتھ رہیں الٹی ہوگئی۔ وہ بہت اداس ہوئی لیکن بولی کہ نہیں وہ اب بھی میری زندگی کا حصہ ہیں۔ جب میں‌ نے اس کو بتایا کہ یہ مضمون لکھوں‌ گی تو اس نے کہا کہ اس میں‌ یہ ضرور شامل کریں‌ کہ جو لوگ مشہور نہ ہونا چاہتے ہوں‌، ان پر زور نہ ڈالا جائے، اسٹارڈم (Stardom) کے لیے نوجوانوں‌ پر اتنا بوجھ نہ ڈالا جائے کہ وہ اٹھا نہ سکیں اور جو لوگ بھی ڈپریشن محسوس کریں ان کو ڈاکٹر کو ضرور دکھانا چاہیے اور لوگوں‌ کو انہیں‌ سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

جانگ ہون نے اپنے پیچھے ایک خط چھوڑا جس کا ترجمہ/خلاصہ یہ ہے۔

میں اندر سے ٹوٹا ہوا تھا

اداسی نے پہلے آہستہ آہستہ مجھے شکستہ کیا اور پھر مجھے نگل لیا

میں نے خود سے نفرت کی

اگر میں‌ سانس نہیں‌ لے سکتا تو مجھے رک ہی جانا چاہیے

میں‌ نے پوچھا کہ میرے لیے کون ذمہ دار ہوسکتا ہے؟

ایک تم ہی ہو

میں تنہا محسوس کرتا ہوں

یہ کہنا آسان ہے کہ میں‌ خود کو ختم کر دوں‌ گا

لیکن ایسا کرنا مشکل ہے

میں‌ نے مشکلات سے لڑنے کی کوشش کی

میں‌ نے خود کو بتایا کہ شاید یہ میں‌ ہی ہوں‌ جو ہر شے سے فرار ہو جانا چاہتا ہوں

یہ سچ ہے۔ میں‌ واقعی خود سے فرار چاہتا تھا

میرے ذہن میں‌ پریشان کن خیالات کا سیلاب رواں ہے

مجھے کبھی موقع نہیں‌ ملا کہ اپنے درد کو مسرت میں‌ بدل سکوں

دکھ بس دکھ ہے

کیوں؟ میں‌ کیوں‌ اپنی مرضی سے اپنی زندگی ختم نہیں کر سکتا؟

میں نے اپنے دکھ اور درد کی وجہ جاننے کی کوشش کی

میرے پاس جواب پہلے سے تھا

میں‌ خود اپنی وجہ سے تکلیف میں‌ تھا

یہ میری ہی غلطی ہے کہ میرے اندر اتنی ساری خامیاں‌ ہیں

ٹیچر! کیا یہی آپ سننا چاہتے تھے

نہیں، میں‌ نے کچھ غلط نہیں‌ کیا

ڈاکٹروں‌ کے لیے بہت آسان ہے کہ اپنی پرسکون آواز میں‌ ہماری ذات ہی کو ہمارے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرا دیں

میں‌ حیران ہوں‌ کہ میں‌ خود کو اتنی تکلیف میں محسوس کرتا ہوں

وہ لوگ جنہوں‌ نے مجھ سے زیادہ دکھ برداشت کیے کس طرح جئے جارہے ہیں

مجھ سے کمزور بھی زندہ ہیں

مجھے ایک ہی جواب ملا کہ “بس جیتے رہو!”

زندگی کا مقصد سو مرتبہ سے زیادہ پوچھنا میرے لیے نہیں‌، وہ تمھارے لیے ہے

میں‌ وہ اپنے لیے چاہتا تھا

برائے مہربانی ایسی باتیں‌ مت کہو جو تم نہیں جانتے

تم مجھ سے کیسے پوچھ سکتے ہو کہ میں اپنی تکلیف کی وجہ تلاش کروں؟

میں‌ نے کتنی بار کہا کہ میں‌ تکلیف میں‌ ہوں

کیا مجھے تکلیف میں‌ ہونے کی مزید وجوہات کی ضرورت ہے؟

کیا مزید کہانیاں بتانے کی ضرورت ہے؟

میں‌ نے تمھیں پہلے سے بتا دیا ہے

کیا تمھارا  دماغ  غیر حاضر تھا جب میں نے تمھیں بتایا؟

جو چیزیں تم برداشت کر لیتے ہو اور ان سے بلند ہوجاتے ہو وہ زخم کے نشان نہیں‌ چھوڑتیں

دنیا کے خلاف جانا میری ذمہ داری نہیں‌ تھی

دنیا میں مشہور ہو جانا میرا راستہ نہیں‌ تھا

اسی لیے کہتے ہیں‌ کہ دنیا سے مختلف ہونا مشکل ہے

دنیا میں مشہور ہونا مشکل ہے

میں‌ نے کیوں‌ یہ راستہ چنا؟

اب تو یہ سوچنا مذاق لگتا ہے

یہ معجزہ ہے کہ اس تمام وقت میں‌  مَیں‌ اس سب سے گذر گیا

اور کیا کہہ سکتا ہوں

بس کہو کہ گڈ جاب! تم نے بہت اچھا کام کیا

مجھے کہو کہ میں‌ بہت سہہ چکا ہوں

حالانکہ اس وقت تم ہنس نہیں‌ سکتے، لیکن بس مجھے الزام دیتے ہوئے رخصت مت کرو

کہو، گڈ جاب!

تم بہت سہہ چکے ہو

گڈ بائے!

Advertisements
julia rana solicitors

میری بیٹی کا سر میرے کاندھے پر ٹکا ہوا تھا اور کرسمس کی چھٹی والا ویک وینڈ ہم نے کے پاپ کی وڈیوز دیکھتے گذارا۔ جانگ ہون کتنا ٹیلنٹڈ سنگر تھا! اس کی زندگی میں‌ کس چیز کی کمی تھی؟ دولت، شہرت، سب کچھ۔ خوشی یا زندگی سے محبت باہر کی چیزیں ہمیں‌ نہیں‌ دے سکتی ہیں۔ اسے ہمیں‌ اپنے اندر تلاش کرنا ہو گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا
طب کے پیشے سے وابستہ لبنی مرزا، مسیحائی قلم سے بھی کرتی ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply