عرب ایران تنازع۔ تاریخی وتہذیبی تناظر اور ہوش مندی کی راہ

شرق اوسط میں عرب ایران تنازع کے جہاں سیاسی اور جغرافیائی پہلو اہم ہیں، وہاں اس کی حقیقی ماہیت کو سمجھنے کے لیے اس کا تاریخی وتہذیبی تناظر بھی پیش نظر رہنا بہت ضروری ہے۔ بطور ایک مشخص مذہبی روایت کے، اسلام کی ابتدا ساتویں صدی عیسوی میں جزیرہ عرب میں ہوئی اور بہت جلد مسلمانوں کے سیاسی ومذہبی اقتدار نے ہمسایہ تہذیبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس توسیع سے سب سے زیادہ ایرانی تہذیب متاثر ہوئی، یہاں تک کہ ایک مستقل اور جداگانہ تشخص رکھنے والی تہذیب کے طور پر اس کا خاتمہ ہو گیا۔ اس صورت حال میں ایرانی قوم نے بحیثیت مجموعی اسلام تو قبول کر لیا، لیکن عربوں کی مذہبی یا سیاسی سیادت کے حوالے سے دو تین مختلف رویے اختیار کیے:

ایک عنصر نے اس کو کسی بھی درجے میں تسلیم نہیں کیا۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں شعوبیت کی لہر اسی کا ایک اظہار تھی۔

دوسرے عنصر نے مین اسٹریم اسلام یعنی سنی تعبیر دین کے ساتھ وابستگی اختیار کی اور اپنی غیر معمولی ذہانت اور صلاحیتوں سے اسلام کی علمی وتہذیبی ترقی میں کردار ادا کیا۔ سنی اسلام میں فقہاء، محدثین، مفسرین اور دیگر شعبوں کے اہل علم وفن کی ایک بہت بڑی اکثریت اسی عنصر سے تعلق رکھتی ہے۔

تیسرے عنصر نے اپنی قلبی وروحانی وابستگی اور اس کے نتیجے میں سیاسی اطاعت کا محور ومرکز صرف خانوادہ نبوت کو تسلیم کیا اور تشیع کے عنوان سے ایک الگ مذہبی وسیاسی گروہ کی صورت میں منظم ہو گیا۔

یوں شیعہ اسلام ابتدا ہی سے اپنا الگ تاریخی تشخص رکھتا ہے اور اس کا اظہار بھی چاہتا ہے۔ دور جدید میں انقلاب ایران اور اس کے بعد کے سارے واقعات اس حقیقت واقعہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس تشخص کے اجزاء متعدد ہیں اور گہرے بھی، جن میں دو یعنی عرب اور عجم کی قدیم آویزش اور شیعہ وسنی تعبیر دین کا تاریخی اختلاف زیادہ اہم اور بنیادی ہیں۔ شیعہ نفسیات اور تشخص کی تشکیل کرنے والے یہ دونوں عناصر اپنے اندر حصول اقتدار اور غلبے کے داعیات پیدا کرنے کی غیر معمولی قوت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ اگر شیعہ الہیات اور کچھ مذہبی پیشین گوئیوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس تحریک کی Potency کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس تناظر میں مشرق وسطی کی دوسری سیاسی طاقتوں اور شیعہ عنصر کے مابین آویزش کا پیدا ہونا اور ابھرنا کسی طرح بھی کوئی قابل تعجب بات نہیں۔

ایرانی کیمپ کی طرف سے اس صورت حال کی جو تعبیر عموماً کی جاتی ہے، وہ محض جزوی طور پر درست ہے، یعنی یہ کہ مشرق وسطی اور خلیج میں عرب بادشاہتیں دراصل عالمی سامراج کے مفادات کی محافظ ہیں، جبکہ ایران ایک انقلابی اور مزاحمت پسند اسلام کا علمبردار ہے۔ یہ بات جزوی طو رپر یقیناًدرست ہے، لیکن معاملے کے دوسرے پہلو اس سے کم اہم نہیں ہیں ، خاص طور پر ایرانی قیادت کی ترجیحات اور طرز عمل کبھی سنی دنیا کو اس پر مطمئن نہیں کر سکیں کہ وہ ایک خاص مذہبی عنصر کے بجائے بلا تفریق وامتیاز تمام مسلمانوں کی نمائندگی اور ترجمانی کا جذبہ رکھتی ہے۔ اس لیے خطے میں شیعہ غلبہ وتسلط کے مقابلے میں سنی دنیا کو بہرحال آل سعود جیسے حکمران ہمیشہ زیادہ گوارا رہیں گے، جو چاہے سلفی اور وہابی ہوں، چاہے عیش پرست اور عیاش ہوں اور چاہے جابر ومستبد ہوں، بہرحال سنی اور عرب ہیں۔ شیعہ قیادت کو جوش فراواں میں اس بنیادی نفسیاتی حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور شیعہ احیاء کے اہداف اور حدود کو بہرحال اسی کی روشنی میں متعین کرنا چاہیے، ورنہ اس آویزش کے نتیجے میں جتنا بھی خون خرابہ ہوگا، اس کی ذمہ داری سو فی صد نہ سہی، بہت بڑی حد تک شیعہ قیادت پر ہی عائد ہوگی۔

انصاف کی یہی بات دوسرے فریق کے متعلق بھی کہنی چاہیے۔ عرب سنی ممالک میں اہل تشیع بڑی تعداد میں موجود ہیں، لیکن انھیں ان کی آبادی کے تناسب سے ان کے جائز سیاسی حقوق حاصل نہیں۔ یہ صورت حال بہرحال تناو اور تشدد کے پیدا ہونے کا سبب ہے اور غیر منصفانہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسے زیادہ دیر تک طاقت کے زور پر قائم رکھنا بھی ممکن نہیں۔ چنانچہ سنی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاں ایک طرف خطے کی سطح پر غلبہ وتسلط کے ایرانی عزائم کا سامنا متحد ہو کر کریں، وہاں اپنے اپنے سیاسی دائرہ اختیار میں سب گروہوں کو ان کے جائز سیاسی ومعاشرتی حقوق دینے کا اہتمام کریں۔ یہی ذمہ داری شیعہ اکثریتی ملکوں پر بھی عائد ہوتی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہاں بسنے والے سنی مسلمانوں کو مساوی شہری وسیاسی حقوق دینے کے بجائے خطے کی سطح پر جاری سیاسی کشمکش کی سزا دی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

عالم اسلام کو، یعنی عربی اور عجمی اسلام دونوں کو، اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ نہ تو کوئی گروہ مذہبی جوش وجذبے کے زیر اثر طاقت کے زور پر حقیقی دنیا میں اس سے زیادہ اثر ورسوخ پیدا کر سکتا ہے جتنا اس کا فی الواقع حق بنتا ہے اور نہ کسی گروہ کو نظام اقتدار میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے سے بزور بازو روکا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں راستے، چاہے سنی حکمران اختیار کریں یا شیعہ، باہمی تصادم، خون ریزی اور تباہی کے راستے ہیں۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ جذبات کو اپیل کر کے وقتی طو ر پر ہمدردیاں اور وابستگیاں جیتی جا سکتی ہیں، لیکن تاریخ کے بہاو کے آگے باندھے گئے ایسے بند کبھی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے۔

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply