امریکی سامراج کے جنگی جنون کو ایک اور شکست ۔۔شاداب مرتضٰی

اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ اقوامِ متحدہ کے لیے مختص اپنے فنڈ میں 285 ملین ڈالر سے زیادہ کٹوتی کر رہا ہے۔ نکی ہیلی کے مطابق یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ اقوام متحدہ میں فنانشل مینجمنٹ کو بہتر کیا جا سکے اور اقوامِ متحدہ کے ادارے کو اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔ “ہم امریکی لوگوں کی سخاوت کا غلط فائدہ اٹھانے یا اس چیز پر نظر نہ رکھنے کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے”.   ظاہر ہے اصل محرک اقوام متحدہ سے اپنے من مانے فیصلے منظور کروانا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے فنڈ میں کٹوتی کے  ذریعے اقوام متحدہ کو معاشی طور پر بلیک میل کرنا ہے۔

یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کے معاملے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی امداد وصول کرنے والے تمام ملکوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیا تو امریکہ ان کی امداد بند کر دے گا۔ اقوامِ متحدہ کے لیے امریکی سفیر نکی ہیلی نے 180 ملکوں کو خط لکھ کر متنبہ کیا تھا کہ وہ اقوامِ متحدہ میں امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالیں ورنہ امریکہ ان کی امداد روک دے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ “انہیں ہمارے خلاف ووٹ دینے دو۔۔ہم بہت بچت کریں گے۔ ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔” لیکن اقوام متحدہ میں امریکی قرارداد 9 کے مقابلے میں 128 ووٹوں کی اکثریت سے بری طرح پٹ گئی۔ امریکی  امداد  وصول  کرنے والے کئی ملکوں نے امریکی صدر کے  فنڈ بند کردینے کی بدمعاشانہ دھمکی کا جواب امریکی سامراج کی جنگ پرور فاشسٹ پالیسی پر مبنی قرارداد کو مسترد کر کے دیا۔

اسرائیل کے  ذریعے مشرقِ وسطی میں اپنے سامراجی مفادات کے حصول کی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امریکی عسکری سامراج نے مشرقِ وسطی میں ایک اور جنگ کو بھڑکانے کی جو کوشش کی تھی وہ بری طرح ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ حتی کہ اقوامِ متحدہ میں بھی امریکہ  کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی پہلی شکست نہیں ہے۔ کیوبا پر امریکہ کی جانب سے عائد عالمی اقتصادی اور سماجی پابندیوں کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد مسلسل اکثریتِ رائے سے منظور ہوتی آ رہی ہے۔ پچھلے مہینے اقوام متحدہ کے 193 رکن ملکوں میں سے 191 ملکوں نے کیوبا کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ صرف امریکہ اور اسرائیل نے قرارداد کی مخالفت کی۔ امریکی سیاسی نظام کو جمہوری سمجھنے والوں اور اسے جمہوریت کے رول ماڈل کے طور پر پیش کرنے والوں کے لیے یہ ایک اچھا سبق ہے کہ امریکہ کس طرح اقلیت پر اکثریت کی برتری کے بنیادی  جمہوری اصول کی خلاف ورزی کرتا آرہا ہے۔   یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم نہ کرنے کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد عالمی جمہوری تحریک کی ایک اور قابلِ  ذکر کامیابی ہے۔

امریکہ سمجھتا ہے کہ اقوام متحدہ کے فنڈ میں کمی کر کے اقوامِ متحدہ کو اپنی سامراجی پالیسی کے مطابق فیصلے کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اقوامِ متحدہ کے ایسے رکن ملکوں کی جانب سے جو امریکی امداد وصول کرتے ہیں امداد بند کرنے کی امریکی دھمکی کے باوجود  امریکی قرارداد کے خلاف ووٹ اس خام خیالی کی تردید کرتا ہے امریکہ پیسے یا دھونس دھمکی  کے ذریعے جس ملک کو چاہے اپنا مطیع و فرمانبردار بنا سکتا ہے۔ فنڈ بند کرنے کی دھمکی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان ملکوں نے امریکی قرارداد کے خلاف ووٹ دے کر امریکہ کے غرور کو کھوکھلا اور بے بنیاد ثابت کر دیا۔

امریکی انتظامیہ یقیناً  یہ نہیں بھولی ہوگی کہ   امریکہ اقوامِ متحدہ کے فنڈ میں جو کٹوتی کرے گا اس سے امریکی مفادات کے لیے مختص اقوامِ متحدہ کے فنڈ میں بھی کمی ہوگی۔ اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے لیے مختص فنڈ میں، بہتر یہ ہو گا کہ، اسی تناسب سے کمی کی جائے جس تناسب سے امریکہ اقوامِ متحدہ کے فنڈ میں کٹوتی کررہا ہے۔ یہ اور بھی بہتر  ہو گا کہ اقوامِ متحدہ اپنے فنڈ میں کٹوتی کے امریکی اعلان کے جواب میں اقوامِ متحدہ میں امریکی  فنڈ  کی کٹوتی  کے  خلاف قرارداد منظور کرے تاکہ اقوامِ متحدہ کے لیے امریکی فنڈ کو امریکی سیاسی مفادات کے لیے استعمال ہونے سے محفوظ رکھا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے غیرجانبدارانہ کردار اور اس کی کارکردگی میں بہتری کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ اگرچہ امریکی سفیر کا کہنا تو یہ ہے کہ امریکہ اقوامِ متحدہ کے فنڈ میں کمی اقوامِ متحدہ کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اقوامِ متحدہ کے لیے اپنے فنڈ کو اقوامِ متحدہ کے غیر جانبدارانہ کردار اور کارکردگی کو خراب کرنے، اسے اپنے مفادات کا دم چھلہ بنانے اور اس کے  ذریعے اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کو اپنے سامراجی مقاصد کا مطیع بنانے کے لیے کر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور آخر میں، امریکہ کے اس جمہوری کردار اور رویے میں خصوصاً  ان لبرل دانشوروں کے لیے اصلاح کی نشانیاں ہیں جو ڈونلڈ ٹرمپ کو عالمِ انسانیت کے مصائب کا مداوا کرنے والا مسیحا قرار دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کی مدح سرائی میں کیے جانے والے اپنے تبصروں میں  زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply