اجالا۔۔راشد احمد

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہماری زندگی کی قبا مفلسی کے پیوندوں سے بھری ہوئی تھی۔مصیبتوں نے ہمارے گھر کو آماجگاہ بنا لیا تھا۔ملازمت سے فراغت کا غم ابھی غلط نہ ہوا تھا کہ ہماری مشکلات میں اک اور اضافہ ہوگیا۔چھوٹا بھائی جنید ٹائیفائیڈ کا شکار ہوکر بستر علالت سے چپک گیا۔جنید کی ناگفتہ بہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی تھی،مگر بے بسی کے ہاتھوں مجبور تھا۔زیب النساء اور مہرالنساء چھوٹی بہنیں تھیں جن کی آنکھیں جنید کو رو رو کر خشک ہوگئی تھیں۔

زیبو نے مجھے کاندھوں سے جھنجوڑتے ہوئے کہا۔بھیا کیا آپ جنید کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے؟میرے پاس سر جھکانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔گھر کا تمام اثاثہ بیروزگاری کی نذر ہوچکا تھا سوائے ایک گھڑیا ل کے جو دیوار سے چمٹا یوں دھڑک رہا تھا گویا انسانی دل ہو۔گھڑیال کی یہ آواز بھی انسانی دل کی طرح خاموش ہوجائے گی۔موت کی سی خاموشی اس کا بھی مقدر بن جائے گی،مگر شاید انسان اور گھڑیال کی موت میں کافی فرق ہے۔انسانی تخلیق اگر کام کرنا چھوڑ دے تو اس میں نئی بیٹری ڈال کر اسے ازسر نو زندہ کیا جاسکتا ہے مگر سرد انسانی لاش کو زندہ کرنا ممکن نہیں۔

میں نے جنید پہ اچٹتی نگاہ ڈالی اور پھر گھڑیا ل سیٹھ کندن مل کے پاس مبلغ دس روپے میں گروی رکھوا آیا،مگر دس روپے میں ڈاکٹر کی فیس اور دوائیاں لینا ممکن نہیں تھا۔دس روپے کا نوٹ مٹھی میں بند کرکے فکروں میں غلطاں گھر واپس لوٹ آیا۔ان ایام مصیبت میں کسی ہمسائے سے ادھار لینا بھی ممکن نہیں تھا۔مفلسی تمام گھروں کی دیواروں پہ بال کھولے سورہی تھی۔جب سے انگریز انجینئر کی تنخواہ پوری کرنے کے لیے فیکٹری سے ہم چالیس مزدوروں کو نکال باہر کیا گیا تھا تب سے ہی تمام قریبی گھروں کی حالت یکساں تھی۔مزدور گھرانوں کا خستہ حال فرنیچر کباڑ خانوں کی رونق بڑھانے لگا۔جن گھروں میں بھوک کے پنجے زیادہ شدت سے گڑے تھے ان گھروں کی عصمت سر بازار ہوٹلوں اور بنگلوں میں بکنے لگی۔

انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ اچانک ذہن کے کسی گوشے میں امید کی کرن روشن ہوئی۔یاد آیا کہ علی ڈنو نے مجھ سے ۱۲ روپے ادھار لیے تھے۔عام حالات میں ،میں کبھی بھی اس سے رقم کی واپسی کا تقاضا نہ کرتا مگر اس وقت مجبوری کی نوعیت بھی شدید تھی اور علی ڈنو کی مالی حالت بھی ہم سے کہیں بہتر تھی۔نوکری سے فراغت کے بعد بھی وہ بے فکری کی زندگی گزار رہا تھا۔کہنے والے کہتے تھے کہ ہندوستان ہجرت کرجانے والے ہندوؤں کی دولت اس کے ہاتھ لگ گئی ہے۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس نے نوٹ چھاپنے والی مشین ایجاد کرلی ہے۔اس کے بچوں کے چہرے خوشحالی کی عکاسی کرتے تھے۔میں مہرو اور زیبو کو امید دلا کر علی ڈنو کی گھر کی طرف روانہ ہوا۔

گلی میں ہمسایوں کے مفلوک الحال بچے گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے ۔انہیں دیکھ کر مجھے جنید یاد آگیا جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کسی مسیحا کا منتظر تھا۔انسانیت کی خدمت کا دعوی کرنے والے مسیحا اس دن نجانے کہاں تھے جب معصوم جنید بیماری کی اذیتیں سہہ رہا تھا۔خیال کی وادیوں سے سرگوشی ہوئی کہ انسان ازل سے دولت کا غلام ہے اور دولت دیوتاؤں سے زیادہ طاقت ور ہے۔

میں جلدی جلدی قدم اٹھا تا آگے بڑھا۔علی ڈنو کا گھر ملحقہ گلی میں تھا۔گلی کی نکڑ پر آج کل ایک فقیر نے ڈیرہ جمایا ہوا تھا جس کی آنکھیں لال انگارہ بنی رہتی تھیں۔جسم راکھ سے اٹا ہوا،اپنی کٹیا کے سامنے دھونی رمائے بیٹھا رہتا تھا۔محلے کی عورتیں اس فقیر سے من کی مرادیں مانگتی تھیں اور مرد لاٹری کے نمبر پوچھتے تھے۔جب سے محلے میں بھوک نے قدم رکھا تھا فقیر کی چاندی ہوگئی تھی۔اس کا لاغر جسم دن بدن موٹا ہورہا تھا اور پیٹ پہ پڑے ہوئے بل ختم ہوتے جارہے تھے۔گھروں کے آنگن میں بھوک تھی مگر فقیر کا پیٹ مرغن غذاوں سے بھرا جاتا تھا۔

جب میں فقیر کے پاس پہنچا تو فقیر نے مجھے شعلے برساتی آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا
’’مانگ جو مانگنا ہے‘‘
انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گویا ہوا
’’آج ہم آسمان سے تارے بھی توڑ لائیں گے‘‘
حالانکہ یہ شام کا وقت تھا اور آسمان  ستاروں سے یکسر خالی تھا۔میں نے ادب سے جھک کر سلام کیا کیونکہ مشہور تھا کہ جواس فقیر کا ادب نہیں کرتا اس کے دونوں جہان برباد ہوجاتے ہیں۔عرض کی آپ کی دعا چاہیے۔’’جا بالک تیرا بیڑا پار ہے‘‘ درویش نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔مجھے لگا کہ امیدوں کی ڈولتی کشتی کو کنارہ بس ملنے ہی والا ہے۔

میں امید کی شمع جلائے علی ڈنو کے دروازے کے آگے کھڑا سوچ رہا تھا کہ علی نہ صرف قرض واپس کرے گا بلکہ کچھ پیسے ادھار بھی دے دے گا۔ابھی میں نے بمشکل زنجیر ہلائی ہی تھی کہ علی ڈنو کی لڑکی زرق برق ریشمی لباس پہنے خوشبوؤں میں نہائی ایک طرف جاتی نظر آئی۔دروازہ دوبارہ کھٹکھٹانے کے بعد علی ڈنو باہر آیا۔سفید لٹھے میں ملبوس علی ڈنو نے شان بے نیازی سے آنے کی وجہ پوچھی۔میں نے پوری داستان اس کے گوش گزار کرتے ہوئے رقم کی واپسی کا تقاضا کیا۔

’’اس وقت تو میرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں‘‘ علی ڈنو نے یکسر انکار کرتے ہوئے کہا۔
’’تھوڑی سی رقم تو واپس کردو علی۔میرا جنید ۔۔۔‘‘ میری آواز گلے میں ہی رندھ گئی۔
’’ابھی تو نہیں کل مجھ سے بے شک سو روپے لے جانا‘‘ علی ڈنو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
’’کل میں پیسوں کاا چار ڈالوں گا علی؟‘‘
’’اس وقت میں ایک روپیہ بھی نہیں دے سکتا‘‘
’’کیا تمھارے پاس سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے جو کل تک انڈہ دے گی‘‘؟میرا لہجہ اب تلخ ہو چکا تھا
علی ڈنو دروازہ بند کرکے واپس چلا گیا۔عین اسی وقت میں نے اپنے عقب میں ایک شیطانی قہقہہ سنا۔یہ کریم بخش عرف کرمو دادا تھا جس کے منہ میں ادھ جلی بیڑی تھی۔’’علی ڈنو کے پا س واقعی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے‘‘ کرمو نے کش لگاتے ہوئے کہا۔

’’میرے کس کام کی؟‘‘
’’تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے ناں؟‘‘
’’جی صرف بیس روپے کی‘‘
’’بیوقوف تمھارے پاس سونے کا انڈہ دینے والی دو مرغیاں ہیں‘‘
’’تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’یہ دولت اور جوانی کا دور ہے‘‘
’’تم سیدھی طرح بکواس کیوں نہیں کرتے‘‘؟
’’سن لوگے؟‘‘
’’جنید کی خاطر میں کچھ بھی سننے کو تیار ہوں۔کچھ بھی۔‘‘

کرمو نے وہی خبیثانہ بات کی جو اس کا پیشہ تھا۔وہی پیشہ جس سے محلے کے زیادہ بھوکے گھرانے گزارہ کررہے تھے۔بدمعاش!تمھاری یہ جرات۔میں نے کرمو کو دبوچنا چاہا لیکن توازن بگڑنے پر خود پر ہی قابو نہ پاسکا اور زمین پر آرہا۔کرمو قہقہہ لگاتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

میں بمشکل اٹھ کھڑا ہوا۔دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں۔میں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ جنید بے شک مر جائے۔بے شک میری امیدیں خاک میں مل جائیں۔اس خاک میں سے نئے جنید پیدا ہوں گے۔مضبوط عزم وہمت والے جنید۔کروڑوں جنید اس مٹی میں سے جنم لیں گے۔بھانت بھانت کے خیالات کی لہریں ذہن کے ساحل سے سر پھوڑتی رہیں۔میں نے سوچا میرے جنید کی قربانی دنیا کی عظیم ترین قربانی ہوگی۔اس قربانی کا ذکر تاریخ کی کتب میں درج ہوگا۔مورخ جب بھی عظیم قربانیوں کا تذکرہ کرے گا اس قربانی کو فراموش نہیں کرسکے گا۔

میں خیالات میں خراماں خراماں گھر کی جانب جارہا تھا کہ اچانک محلے کی ایک عورت فقیر کی کٹیا سے نکل کر ایک کچے گھر میں غائب ہوگئی۔تھوڑی دیر بعد فقیر کٹیا سے باہر آیا تو مجھے دیکھ کر نعرہ زن ہوا:
“مانگ جو مانگنا ہے‘‘
’’بیس روپے دو گے؟‘‘
’’مورکھ مایا کی خواہش کرتے ہو؟‘‘
’’جا بالک ہم نے تمھارے دونوں جہان سنوار دیے۔‘‘
’’اس جہان کا یہ ا بتر حال ہے تو نجانے اگلا جہان کیسا ہو‘‘ میں نے خود کلامی کی اور وہاں سے چل دیا۔

ناامید ی کی کیفیت میں سوچ رہا تھا کہ یہ شاید یہ رات جنید کی اس دنیامیں آخری رات ہوگی۔کل کی صبح تو طلوع ہوگی لیکن جنید کی زندگی کا آفتاب غروب ہوجائے گا۔بس اس کی یاد ہی رہ جائے گی۔’’کن خیالات میں گم ہو‘‘ اچانک پیچھے سے آواز آئی۔
یہ چاچا واحد بخش کی آواز تھی۔ملازمت سے فارغ کیے جانےو الوں میں سے چاچا سب سے عمر رسیدہ تھے اس لیے ہم سب انہیں چاچا کہتے تھے۔

’’جاؤ جلدی گھر جاؤ۔میں ابھی زیبو کو ۲۰ روپے دے کر آرہا ہوں۔‘‘
’’بیس روپے؟‘‘
’’جی۔جلدی جاؤ اور ڈاکٹر کو لے آؤ۔‘‘
’’چاچا؟‘‘
’’ابھی باتوں کا وقت نہیں ہے۔‘‘
’’چاچا!تمھارے پاس پیسے کہاں سے آئے؟‘‘ میں نے مشکوک نگاہوں سے چاچا کا سراپا جانچا۔
چاچا نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔’’کیا ہوا اگر اللہ نے بیٹا نہیں دیا۔جوان لڑکی تو ہے ناں۔‘‘
’’چاچا‘‘؟
’’بسا اوقات بچیاں بھی بڑھاپے کا سہارا بن جاتی ہیں‘‘۔چاچا نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ غربت کی طغیانی میں چاچا واحد بخش بھی بہہ جائےگا۔
’’میری بیوی بھی میری بچی سے کم نہیں ہے‘‘
دل کیا اس بڈھے کھوسٹ کا گلا دبا دوں۔
’’جلدی سے ڈاکٹر لے کر پہنچو۔‘‘ واحد بخش نے دوبارہ کہا۔میں نفرت اور حقارت سے واحد بخش کو دیکھنے لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

’’کل سے تم بھی زیبو اور مہرو کو کام پر بھیجنا۔‘‘
میں نے دل ہی دل میں اس کمینے بڈھے کو سفر آخرت پہ بھیجنے کا ارادہ کرلیا۔میرے ہاتھ آہستہ آہستہ اس کی گردن کی طرف بڑھنے لگے کہ اچانک چاچا گویا ہوا۔
’’ایک دن میں چار پانچ دوپٹوں اور شلوار کے پائنچوں پر کڑھائی کر لیتی ہیں ‘‘
رگوں میں دوڑتا آتش سیال برف ہوتا محسوس ہوا۔جسم کا رواں رواں کانپنے لگا۔چاچا نے اپنی بات جاری رکھی
’’بس جی گزر بسر جتنا پیسہ کما لیتی ہیں۔دنیا کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔دو وقت کی روٹی اس کام سے عزت سے مل جایا کرے گی۔‘‘
میں چاچا کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
’’ارے ارے یہ کیا‘‘ چاچا نے مجھے بازو سے پکڑ کر کھڑا کرد یا۔’’جلدی ڈاکٹر کو لے کر پہنچو۔ابھی اجا لا ہے۔خواہ مخواہ اندھیرا ہوجائے گا۔ابھی روشنی باقی ہے۔ابھی اجالا ہے۔‘‘
میں نے ڈاکٹر کے کلینک کی طرف دوڑ لگا دی۔آسمان کی طرف نگاہ کی تو دور افق میں اجالا ابھی باقی تھا۔

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply