دیوارِ نو گریہ۔۔۔فیصل عظیم

ہواؤں میں دھوئیں کے نعرہ زن پرچم،
زبانیں شعلوں کی کھیتی
سلگتا دامنِ گیتی
بدن کے ہاتھوں میں یہ جام گردن کا
سیہ آنکھوں کی یہ رم جھم
جبینیں! شوخ آوازوں کے نقّارے
نئے کتبے، نئے کاندھے
نئی گریہ کناں نسلیں
سروں کی یہ کھڑی فصلیں
نئی دیوارِ گریہ پرلکھے ہیں اب نئے صدمے
وہ، جس کی اوٹ میں اب بھی
زمیں کی جھرّیوں پر خوان میں گریے اُترتے ہیں
مگر قبلوں کے سائے میں
نہ وہ دیوار سے ٹکرانے والے ہیں
نہ وہ جبّے ہیں شانوں پر
نہ لمبے بال کانوں پر
نہ وہ تحریر، عبرانی
نہ آنکھیں شرم سے پانی
نہ لہجوں میں کوئی رقّت
نہ اب توریت کی حجّت
اگر کچھ ہے، تو ماتم ہے
ندامت کی جگہ غم ہے
پرانے سایۂ دیوارِ گریہ میں
نئی تہذیب کے چہرے کا یہ ناسور،
گھروں کو بانٹتا یہ گھاؤ
اک دیوارِ نو گریہ
جہاں اب بھی نہتّے بالک انگارے چباتے ہیں
عصائے وادیٔ ایمن سے جادو ٹوٹ جاتے ہیں
صدائیں چاہِ یوسف کی بلاتی ہیں
لہو کی باس سے آنکھیں بھرآتی ہیں
رنگے ہاتھوں سے جو آنسو بہاتے ہیں
یہ کس دیوارِ گریہ کی سماعت آزماتے ہیں
ذرا دیکھو! یہ کس دیوارِ نو گریہ کی گردن سے
پھریرے سر اُٹھاتے ہیں
سنو آواز! یہ آسیب ہے، مٹّی ہے، گارا ہے!
جو لوحِ وقت پر اک خط کشیدہ دل پکارا ہے
مگر دیوار ٹوٹے گی
کبھی تو صبح نئے لاوے کی پھوٹے گی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply