بابے کی سوٹی۔۔رانااورنگزیب

اردو حروف تہجی الف سے شروع ہوتے ہیں اردو کا پہلا قاعدہ جو کبھی پڑھایا جاتا تھا اس میں ا انار اور ب بکری لکھا ہوتا تھا۔ الف سے اللہ کا نام بنتا ہے ،اللہ جو خالق و مالکِ کائنات ہے جس نے ہر چیز پیدا فرمائی  ۔جو ہر چیز پر قادر ہے۔انار بھی رب کا بنایا ہوا ہے شنید ہے کہ انار جنت کا پھل ہے یا انار میں جنت کے پانی کا ایک قطرہ ہوتا ہے واللہ اعلم بالثواب۔ ب سے بکری ‘بکری جس کے دو سینگ ہوتے ہیں اور چار ٹانگیں’ ٹانگوں سے بھاگنے کا کام لیتی ہے سینگوں سے کیا لیتی ہے مجھے علم نہیں۔ ب سے بابا بھی ہوتا ہے ہمیں ستر سال سے پڑھایا جارہا ہے ب الف با ب الف با بابا بابا آیا آم لایا۔اب معلوم نہیں بابا آم ہی کیوں لاتا ہے اور عوام بھی ہر بار بابے کے پاس امب لینے ہی پہنچ جاتی ہے۔بابے اور بکری کا بہت پرانا ساتھ ہے۔شاید اسی بابے کا ذکر قابل صد احترام جناب چیف جسٹس آپ پاکستان نے بھی فرمایا ہے۔مگر یہ بابا ہوسکتا ہے کوئی  بابا ککر شاہ ٹائپ بابا ہو یار لوگ بابے رحمت یا رحمے کے پیچھے لٹھ لیے بھاگ رہے ہی۔جب کہ لاٹھی ہمیشہ سے بابا جی ہاتھ میں پکڑے گھوم رہا ہے۔

ایک بابا دم درود جھاڑ پھونک کرتا ہے جبکہ دوسرا بابا وہ ہے جس کے بارے میں پاکستان کے گاؤں میں رہنے والے ان پڑھ دیہاتی بھی کہتے ہیں کہ بابے بغیر بکریاں نہیں چرتی۔مگر بابے کے کچھ فرائض بھی ہوتے ہیں بابا بکریاں چرانے والا ہوتو اس کے ہاتھ میں ایک لاٹھی بھی ہوتی ہے۔اس لاٹھی سے بابا ٹیک لگاتا ہے۔لاٹھی کو اپنی ٹھوڑی کے نیچے ٹکا کر کھڑا ہوجاتا ہے۔اور اپنی آنکھیں کھلی رکھتا ہے۔جب بھی کوئی  بکری ریوڑ کو چھوڑ کے اردگرد ہوتی ہے تو بابا اسی لاٹھی سے ہانک کے اس کو واپس ریوڑ میں لے آتا ہے۔جب کوئی  بکری زیادہ تنگ کرتی ہے تو بابا اسی لاٹھی کو استعمال کرتا ہے اور بکری اپنی کمر دوہری تہری کرتی بھاگ کے ریوڑ میں آن ملتی ہے۔جب کوئی  کتا بھیڑیا یا موذی جانور بابے کے ریوڑ کے نزدیک آتا ہے تو بابا اسی لاٹھی سے ان کی خبر لیتا ہے۔بزدل قسم کے جانور تو بابے کو دیکھ کر ہی ریوڑ کو للچائی  نظروں سے دیکھتے دور ہی دور سے گذر جاتے ہیں نزدیک آنے کی جرات ہی نہیں کرتے۔ذرا بدمعاش یا بدقماش قسم کے موذی جب ریوڑ کے نزدیک آتے ہیں تو بابا لاٹھی سے ان کو ایسا سبق سکھاتا ہے کہ ان کی چیخیں نکل جاتی ہیں اور وہ بابے کی بکریوں سے دور رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔پھر بھی اگر خدانخواستہ کوئی  جانور بابے کی کسی بکری کو نقصان پہنچا دے تو بابا اپنی لاٹھی سے اس کی جان لے لیتا ہے۔اس کے پیش نظر یہ بات ہوتی ہے کہ ایک بار تو یہ نقصان پہنچاچکا آئندہ کے لئے اس کے شر کا مکمل سدباب ہو جانا چاہیے۔

اردو حروف تہجی میں مستعمل تیسرا لفظ پ ہے ،پ سے پنکھا ہوتا تھا جس کو انگلش میں فین بھی کہتے ہیں۔مگر ایک بات کی سمجھ بخوبی آگئی ہے کہ ہمارے حکمران بہت  دور اندیش تھے جنہوں نے ہمیشہ پنکھے کی تصویر ہاتھ والی پنکھی کی ہی لگائی  تاکہ آنے والی نسلیں لوڈشینڈنگ میں اس کو استعمال کرتے ہوئے  کبھی اس کو نئی چیز نہ سمجھیں۔ پ سے پنجاب بھی ہوتا ہے اور پ سے پولیس بھی۔پولیس بابے کی وہ ڈانگ ہے جو بکریوں کو ایک جگہ رہنے پر مجبور کرتی ہے۔کتوں اور بھیڑیوں سے ریوڑ کو بچاتی ہے۔موذی اور نقصان دہ جانوروں کو ریوڑ میں گھسنے نہیں دیتی۔ مگر محترم جناب چیف جسٹس صاحب ہم وہ بکریاں ہیں جن کو سنبھالنے والا بابا اپنی لاٹھی اونے پونے بھیڑیوں اور کتوں کو بیچ چکا ہے۔لاٹھی کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے افیون خرید لی ہے اور اب نیم بے ہوشی کی حالت میں چراگاہ کے ایک گندے نالے کے کنارے پڑا بڑبڑا رہا ہے۔

نہ تو ہمارے بابے کو بکریوں کے ریوڑ کی فکر ہے نہ ہی بکریوں کو درپیش خطرات کی۔اب آوارہ کتوں کے غول بابے کے عین منہ کے سامنے اپنی پچھلی ٹانگ اٹھاۓ کھڑے ہیں۔بابا جی اس ٹانگ کے نیچے سے نکلے بدبو دار سیال کو امرت دھارا سمجھ کے نوش جان فرما رہے ہیں۔بکریوں کو بھیڑیے تو کھاتے ہی تھے اب تو کتے اور گیدڑ بھی بھنبھوڑ رہے ہیں۔ اس میں قصور بکریوں کا بھی ہے کہ قدرت نے ان کو تیز اور نوکیلے سینگ عطا فرماۓ تھے مگر بکریوں نے ان سینگوں کو آپس میں لڑنے کے لئے ہی استعمال کیا اگر بکریاں یہی سینگ کتوں کی طرف کرلیں تو کتے دم ٹانگوں میں دباۓ بھاگتے نظر آئیں۔ بابا جی ابھی پچھلے دنوں سینٹ میں بل پیش ہوا جس میں اعتراف کیا گیا کہ سینکڑوں قیدی جیلوں میں جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔کیونکہ ان کے خاندان جتوئی  ہیں نہ تالپور  زرداری ہیں نہ نواب شریف ہیں ۔

بابا جی اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ شاہ رخ جتوئی  ،گیلانی، تالپور ، سب بابے کو مجذوب سمجھتے ہیں اور اس کی ڈانگ کو گامے جولاہے کا کساوا بھی نہیں سمجھتے۔جس چرواہے نے ڈانگ ہی بیچ دی اس کو پھر بکریاں پالنے کا کیا حق ہے۔یا تو بکریوں کو ذبح کردیا جاۓ یا بیچ کے جان چھڑا لی جاۓ۔ مائی لارڈ! یہ کیسا ملک ہے جہاں مرغی چوری کی سزا تو ہے پورے پولٹری فارم کو کھا جانے کا انعام ملتا ہے۔جہاں کسی تگڑے کو گالی دینے کی سزا موت ہے اور غریب کے قتل کا انعام فتح کا نشان۔ یہ ملک ہے یا گنے پیلنے والا بیلنا۔جہاں عوام کو ایک طرف سے مہنگائی  بیلنے میں دینے کے بعد پیچھے کھڑا قانون اس کو موڑ کے دوبارہ پھر بیلنے میں دے دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آگے بڑھیں اپنی بکریوں کے ریوڑ کو سنبھالیں اپنی بیچی اور گروی رکھی ہوئی  لاٹھی واپس حاصل کریں۔کتوں کو ماریں بھیڑیوں کو بھگائیں۔جو بکریاں ریوڑ چھوڑ کے ادھر ادھر پھر رہی ہیں ان کو واپس ریوڑ میں لائیں۔اگر اتنا سب نہیں کر سکتے  ،تو کم از کم لاٹھی ہی واپس لے کر ہاتھ میں پکڑ لیں۔کیونکہ بکی ہوئئ  لاٹھی جن کم ظرف ہاتھوں میں ہے وہ تو کتوں اور بھیڑیوں کو مارنے کے بجاۓ بکریوں کو ہی اس لاٹھی سے لہو لہان کر رہے ہیں۔ ہم آپ کو بابا مانتے ہیں اگر آپ ڈانگ والے بابے ہیں تو ڈانگ کو درست سمت گھمائیں اپنی چارپائی کے نیچے بھی ضرور پھیریں کیوں کہ بہت سے سانپ بچھو اور دوسرے موذی آپ کی چارپائی کے نیچے پناہ لیے ہوۓ ہیں۔اگر آپ دم درود تعویز دھاگے والے بابے ہیں تو گُگل کی دھونی اپنی ہی کٹیا میں سلگائیں شاید کیڑے مکوڑے باہر نکلیں اور مارے جائیں۔

اور اگر آپ بنگالی بابا ٹائپ ہیں تو پھر اپنے اشتہار ملک کے درودیوار پر چسپاں کر دیں آرام سے اپنے چیلوں کے ذریعے قوم کو الو بنائیں، مال سے اپنی تجوریاں بھریں اور چرس کا سوٹا لگا کر دھمال ڈالیں!

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply