ذہن سازی کرنے والے نمائندہ دانشور۔۔عظیم عثمانی

موجودہ نوجوان نسل کی ذہن سازی کرنے والے نمائندہ دانشوروں کی غیرمذہبی علمیت کا ایک مختصر خلاصہ پیش کرتا ہوں جو شاید میرے بہت سے احباب کے لئے تکلیف دہ ہو!

ڈاکٹر اسرار احمد نے کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔

مولانا طارق جمیل لاہور میں میڈیکل کے طالبعلم رہے. ابتدائی علوم بھی اسکول کالج سے حاصل کیے۔

جاوید احمد غامدی نے بی اے آنرز کیا انگریزی مضمون میں. ساتھ ہی وہ ادب اور فلسفہ کے بیک وقت طالبعلم اور استاد رہے

پروفیسر احمد رفیق ادب ، فلسفہ اور دیگر سبق کے استاد رہے. انہوں نے بھی  سکولوں کالج سے تعلیم حاصل کی۔

شیخ احمد دیدات  سکول میں خوب آگے تھے مگر معاشی مشکلات کی بناء پر صرف سولہ برس تک تعلیم حاصل کرسکے۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک نے یونیورسٹی آف ممبئی سے اپنی ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کی۔

مولانا وحید الدین خان ، ابتدائی سالوں سے ہی سائنس اور جدید علوم کے زبردست طالبعلم رہے۔

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی فزکس، کیمسٹری اور میتھمیٹکس کے بہترین طالبعلم تھے۔

شیخ عمران حسین نے مختلف ممالک سے ڈگریاں حاصل کیں. جن میں ایک ڈگری سوئزرلینڈ سے ‘عالمی تعلقات’ کے حوالے سے حاصل کی۔

مفتی تقی عثمانی نے پہلے یونیورسٹی آف کراچی سے آرٹ کی ڈگری لی اور پھر قانون کی ڈگری حاصل کی۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا ایل ایل بی ١٩٧٤میں مکمل کیا

مشہور صوفی سوچ کے حامل حمزہ یوسف نے واشنگٹن  سکول میں تعلیم پائی

دور حاضر میں قران مجید پر لسانی تحقیق کے شاید سب سے بڑے ماہر نعمان علی خان بھی امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔

ملحدین کے خلاف سب سے بہترین سائنسی مباحثہ کرنے والے حمزہ زورٹزس نے انگلینڈ سے سائیکولوجی میں ڈگری حاصل کی
یورپ کی مسلم نوجوان نسل میں نہایت معروف استاد یاسر قاضی نے کیمکل انجینرنگ کی ڈگری یونیورسٹی آف ہیوسٹن سے حاصل کی۔

مفتی مینک نے زمبابوے میں اپنی ابتدائی  سکولنگ وغیرہ مکمل کی۔

علامہ محمد اقبال نے مورے کالج سے پہلے آرٹ کا ڈپلومہ لیا، پھر اسی سال گوورنمنٹ کالج لاہور سے آرٹ، فلسفہ اور ادب میں ڈگری حاصل کی. پھر اسی میں ماسٹرز کی ڈگری لی. یونیورسٹی آف کیمبرج انگلینڈ سے آرٹ کی ایک اور ڈگری لی. پھر بیرسٹر کی تعلیم مکمل کی. آخر میں جرمنی سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی.

یہ اور ایسے ہی اور بہت سے نام موجود ہیں جو اس وقت اول صف میں کھڑے مسلم نوجوان ذہن کو بیرونی فلسفوں سے پاک کرنے کا کام کر رہے ہیں. ان کے برعکس وہ علماء جو خالص مدرسہ سے ہی تعلیم حاصل کرتے رہے اور جدید تعلیم کا حصول نہ کیا. ان میں سے نوجوان جدید نسل میں قبولیت پانے والے نام گنتی کے ہیں. کچھ استثنات کو چھوڑ کر ان کی مقبولیت کا دائرہ صرف مدرسہ کے طالبعلموں کو ہی اپنا گرویدہ کرسکا. جدید نوجوان نسل سے ربط پیدا نہ ہوسکا. روایتی علماء کا بدقسمتی سے یہ حال ہے کہ انہیں بخاری شریف تو زبانی یاد ہوگی، مثنوی کے دقیق نقطے تو وہ با آسانی بیان کر سکتے ہوں  گے مگر جدید اذہان میں پیدا ہونے والے سوالات سے وہ ربط پیدا نہیں کرسکتے. وہ نہیں جانتے کہ چارلس ڈارون ، کارل مارکس ، رچرڈ  ڈاکن  کون ہیں ؟ نظریہ ارتقاء کیا بلا ہے ، تھیوری آف ریلٹوٹی کس چڑیا کا نام ہے ؟ لہٰذا انکا ہتھیار یہی ہوتا ہے کہ ایسے کفریہ سوال نہ پوچھو، اسلام سے باہر ہو جاؤ گے. نتیجہ الحاد اور شکوک کی صورت میں برآمد ہوا

یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ جن اکابر علماء کی سوچ آج بھی جدید اذہان کو مخاطب بنالیتی ہیں ، وہ سب کے سب اپنے دور کے سائنسی اور دیگر رائج علوم میں ملکہ رکھتے تھے. امام غزالی، ابن عربی، ابن تیمیہ، ابن حزم، ابن قیم، ابن رشد وغیرہ سب اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سب لکھنے کا مقصد نہ تو اہل مدرسہ کی دل آزاری ہے اور نہ ہی مقصد ہمارے روایتی علماء کی توہین ہے. اگر ایسا محسوس ہو تو میں دست بدستہ معافی مانگتا ہوں. ورنہ میں حدیث کے مصداق علماء کے درجے کو انبیاء کی علمی وراثت سے تعبیر کرتا ہوں. ارادہ صرف اتنا ہے کہ میں دین کے طالبعلموں کو یہ توجہ دلا سکوں کہ ان کیلئے موجودہ جدید علوم بلخصوص سائنس کی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ  فقہ یا فن حدیث میں مہارت. ان علوم سے آگاہی نہیں پیدا کریں گے تو جدید سوالات کے کبھی جواب نہ دے پائیں گے. یہ جواب نہ دیں گے تو آنے والی نوجوان نسل آپ سے مزید دور ہوگی اور اسلام سے متنفر ہوتی جائے گی. اسے میری عاجزانہ استدعا سمجھیں ، تحقیر ہرگز نہ سمجھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply